امریکا اور طالبان کے درمیان فوجی انخلا پر اتفاقِ رائے،رپورٹس

امریکا اورافغان طالبان کے درمیان افغانستان میں موجود امریکی افواج کے “محدود اور مشروط” انخلا کے منصوبے پراتفاقِ رائے ہونے کی اطلاعات،کسی بھی بین الاقوامی دہشتگرد تنظیم کو مستقبل میں امریکا یا کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال نہیں ہونگے دیں گے، طالبان کو امریکا کو یقین دہانی

امریکا اور افغان طالبان کے درمیان افغانستان میں موجود امریکی افواج کے “محدود اور مشروط” انخلا کے منصوبے پراتفاقِ رائے ہونے کی اطلاعات ہیں۔طالبان اور امریکا کے درمیان جاری مذاکرات سے واقف ذرائع نے وائس آف امریکا کو بتایا ہے کہ فوجی انخلا کے عوض طالبان نے امریکا کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ کسی بین الاقوامی دہشتگرد تنظیم کو مستقبل میں امریکا یا کسی دوسرے ملک کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ذرائع کے مطابق دونوں فریقوں میں یہ اتفاقِ رائے مسلسل چھ روز سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری مذاکرات کے بعد ہوا ہے۔ذرائع کا کہناہے کہ قطر میں جاری مذاکرات میں میزبان ملک کے علاوہ پاکستان کے نمائندے بھی موجود ہیں۔مذاکرات میں شریک امریکی وفد کی قیادت امریکا کے خصوصی ایلچی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد کررہے ہیں۔زرائع نے وائس آف امریکا کے نمائندے ایاز گل کو بتایا ہے کہ اگر کوئی غیرمتوقع صورتِ حال پیدا نہ ہوئی تو فریقین افغانستان سے امریکا کے فوجی انخلا پراتفاقِ رائے کا باضابطہ اعلان ہفتے اورپیر کے درمیان کسی وقت کردیں گے۔اطلاعات کے مطابق سمجھوتے کے تحت طالبان نے افغانستان میں جنگ بندی پربھی اتفاق کیا ہے۔ تاہم فوجی انخلا اور جنگ بندی دونوں کا دائرہ “محدود اور مشروط” ہوگا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ محدود اورمشروط فوجی انخلا اورجنگ بندی کے نتیجے میں فریقین کو زیادہ خطرہ مول لیے بغیر صورتِ حال کے جائزے اور مستقبل کی حکمتِ عملی کا تعین کرنے میں مدد ملے گی۔ذرائع کے مطابق یہ ممکن ہے کہ طالبان کے ساتھ طے پانے والے حتمی معاہدے کا اعلان صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں کریں جو امریکی حکومت کا شٹ ڈاؤن ختم ہونے کے بعد جلد ہونے کا امکان ہے۔افغان طالبان اور امریکی حکام نے تاحال ان اطلاعات پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔تاحال یہ واضح نہیں کہ افغان حکومت کا اس مبینہ اتفاقِ رائے پر کیا ردِ عمل ہوگا اور آیا قطر میں جاری بات چیت میں طالبان افغان حکومت کے ساتھ براہِ راست مذاکرات پر بھی آمادہ ہوگئے ہیں یا نہیں۔رواں ہفتے ہی افغان صدر اشرف غنی نے پہلی بار زلمے خلیل زاد کی سربراہی میں جاری مذاکراتی عمل پر کھلے عام تحفظات کا اظہار کیا تھا۔سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں جاری ‘عالمی اقتصادی فورم’ کے ایک اجلاس سے خطاب میں صدر غنی نے عندیہ دیا تھا کہ ان کی حکومت دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے نتائج کو مسترد بھی کرسکتی ہے۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.