تبسم فاطمہ رضوی کی منفرد غزل : جب تصور میں ترا لمس کبھی یاد آئے

تبسم فاطمہ رضوی کراچی کی معروف شاعرہ ہیں۔ سرسید گرلز کالج سے گریجویشن اور کراچی یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹر( پرائیویٹ ) کیا کچھ عرصہ درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں ۔ ان دنو ں امور خانہ داری میں مصروف ہیں اور شاعری دم کے ساتھ ہے

تبسم فاطمہ رضوی کی منفرد غزل

جب تصور میں ترا لمس کبھی یاد آئے
دینے لگتا ہے سکوں سرما کی شالوں کی طرح

کیسے کھیلا ہے سمے کھیل کی چالوں کی طرح
ہائے پھر بیت گیا سال یہ سالوں کی طرح
روح کے زخم نظر آتے تو آتے کیسے
اس نے دیکھا تھا فقط دیکھنے والوں کی طرح
شبِ تیرہ کا ہوا ایسے شبستاں عادی
روشنی رہتی ہے اب گھر میں اجالوں کی طرح
ہے رقم وہ ہی مری زیست کے ہر صفحے پر
جزوِ لازم ہے وہ تمہید ؛حوالوں کی طرح

 کوئی ترکیب منانے کی بتا دو سکھیو!۔۔۔۔ ہے خفا مجھ سے وہ جنگل کے غزالوں کی طرح

کوئی ترکیب منانے کی بتا دو سکھیو!
ہے خفا مجھ سے وہ جنگل کے غزالوں کی طرح
سنگ دل ایسا ہے وہ سنگ بھی شرمانے لگے
سرد مہری با خدا برف کے گالوں کی طرح
اس کی یادیں یوں بکھرتی ہیں شبِ تِیرہ میں
مرے کاندھوں پہ کھلے ریشمی بالوں کی طرح
لمحے بھر کو بھی جدا ہوتا نہیں غم مجھ سے
گھیرے رہتا ہے سدا چاند کے ہالوں کی طرح

وہ جو دیکھے تو حسیں لب پہ تبسم آئے سرخی گالوں پہ بکھر جائے گلالوں کی طرح

وہ جو دیکھے تو حسیں لب پہ تبسم آئے
سرخی گالوں پہ بکھر جائے گلالوں کی طرح

جب تصور میں ترا لمس کبھی یاد آئے
دینے لگتا ہے سکوں سرما کی شالوں کی طرح
رکھو مت گرتے پرندوں پہ نگاہیں مرکوز
کرو پرواز چٹانوں پہ منالوں کی طرح
حرص و لالچ کے اندھیروں میں نہ یوں ڈوبے رہو
چمکو اک بار کبھی شمس مثالوں کی طرح
جیت ہوتی ہے فقط جذبے سے طاقت سے نہیں
رکھنے ہیں حوصلے پھر زندہ جیالوں کی طرح
کیا یہ ممکن ہی نہیں ہم کو سمجھ پائے کوئی
بڑی ہی قیمتی شے ہے یہ میرا دل جاناں
رکھو اس کو بھی حفاظت سے منالوں کی طرح
وہ جو دیکھے تو حسیں لب پہ تبسم آئے
سرخی گالوں پہ بکھر جائے گلالوں کی طرح

Facebook Comments

POST A COMMENT.