سارے فنون سر کے بَل” کھڑے ہیں اُنہیں دوبارہ سِیدھا، اُنکے پَیروں پر، پُورے جِسم کے ساتھ ، کیسے کھڑا کرین گے

سارے فنون ”سر کے بَل” کھڑے ہیں ، اُنہیں دوبارہ سِیدھا ، اُنکے پَیروں پر، پُورے جِسم کے ساتھ ، کیسے کھڑا کرینگے


جہاں لوگ موسیقی کی اور خوبصورت لگنے اور دکھنے ، ہر چیز کی ، اجازت ، مذہب اور مذہبی اقدار سے لیں وہاں فارمولے کے علاوہ کیا پیدا کیا جا سکتا ہے


دُنیا کے بڑے فنکار ، ادیب ، اس لئے بڑے ہیں کہ انہوں نے انسان کو ایک آفاقی وجود مانتے ہوئے لکھا ہے ، دیگر تمام نظریے، عقیدے اُس کے تحت آتے ہیں

کاوش عباسی کا چھبتا ہوا منفرد نثر پارہ

آپ کے ہاں سارے فنون ”سر کے بَل” کھڑے ہیں ، اُنہیں دوبارہ سِیدھا ، اُنکے پَیروں پر، پُورے جِسم کے ساتھ ، کیسے کھڑا کرینگے ، اہم تر یہ نکتہ ہے؛
آپ کا فکشن قیاسوں ، خیالوں سے بھرا رہتا ہے
۔ آپ کی مصوّری (اُن مصوّروں کی جنہیں آپ بڑا فنکار مانتے ہیں ) ، خطّاطی ، میں نّچڑ گئی۔
۔ جہاں لوگ موسیقی کی اور خوبصورت لگنے اور دکھنے ، ہر چیز کی ، اجازت ، مذہب اور مذہبی اقدار سے لیں وہاں فارمولے کے علاوہ کیا پیدا کیا جا سکتا ہے ،
اَب تو یہ بات پاکستان اور ہندوستان دونو کے بارے میں برابر ہے ۔
۔یہ اتفاق تو نہیں کہ اردو ادب و فن دو نمبر شخصیتوں ، حاضر و ماضی ، سے بھرا پڑا ہے ۔
۔ آپ کا رقص یعنی ناچ بھی ”شریفانہ” تاویلوں میں آ گیا ، جِس میں کولہے کا مٹکانا ، جِس کو رقص میں یا ناچ میں مرکزی حیثیت حاصل ہے، بہت گِرا ہوا اور قابلِ شرم سمجھا گیا

کلاسیکل رقص کے دوران رقاصہ کے مختلف انداز
کلاسیکل رقص کے دوران رقاصہ کے مختلف انداز


آپ کی موسیقی کو ”صوفیانہ” یعنی مذہبی موسیقی سے بھر دیا گیا ہے ، مَیں نے اچھے خاصے ، لبرلوں کو بھی دما دم مست قلندر ، علی دا پہلا نمبر یا علی دَم دَم دے اندر، سُنتے ، اُس پر ”سر” دُھنتے دیکھا ہے۔
و دیگر
لوگ آسان سمجھ لیتے ہیں فنکار ، مصنّف ، ہونا۔
ایک اور مثال
جدید یعنی نئے عہد میں ، مثلاً ، غزل میں چھپا کے کہنے کو ہی فن کہا گیا ہے ، یعنی اور چھپ کے کہیں تو اور بہتر۔ مگر نکتہ یہ ہے کہ ادب جس کی خاص پہچان تخلیقیّت اور گہرائی ہے تو تخلیقیّت اور گہرائی کا صرف چھپا کے کہنا ہی اظہار نہیں ہے ، اُسے سامنے کہیں ، مغربی فکشن اورشاعری اِس لئے بڑی ہے۔
فیض کے جھوٹے اور سطحی (تقریباً ہر وقت ہر جگہ ، پھولوں والے، پھولوں کی تشبیہوں والے) راستے سے پلٹیں اور مِیرا جی اور ساحر کے سیِدھے سامنے مگر تخلیقی ، گہرے راستے پر واپس ہوں۔
ہند و پاک میں انسان کو جب تک اُس کے شایان ِ عصر آزاد نہیں کریں گے ، یہ چُھپن چُھپا کی ، ماضی پرستی کی ، زنجیریں نہیں چُھٹیں گی۔
دُنیا کے بڑے فنکار ، ادیب ، اس لئے بڑے ہیں کہ انہوں نے انسان کو ایک آفاقی وجود مانتے ہوئے لکھا ہے ، دیگر تمام نظریے، عقیدے اُس کے تحت آتے ہیں ۔
اُردو کے ماڈرن زمانے میں رائیٹرز عالمی انسان کی طرف آئے بھی تو آدھے سے ہی مُڑ گئے، اردو سماج ،جِس کا وہ حصّہ تھے ، اس نے انہیں اتنی ہی ڈوریاں دی تھیں ، یعنی وہ جدید اُردو سماج کے راہنما نہیں بلکہ اُس کی پیداوار تھے
اُردو ادیبوں شاعروں ، خاص طور پر دس سالوں ، بیس سالوں ۔ ۔۔ والے، خاص طور پر انیس سو اّسی کی دہائی اور اسکے بعد ۔
اِن اُردو ادیبوں شاعروں اور دیگر فنکاروں کی ما بعد الطبیعات و طبیعات بھی ، کم و بیش ، وہی رہی ہے جو انہیں پچھلی نسلوں ، ابّ و جد ، سے مِلا ہے، اِس لئے یہ سب بڑی چیزیں اپنے ماضی میں ہی دیکھ پاتےرہے ہیں ، جدید اردو سماج بھی ، اسکے رائیٹرز بھی۔ (اب تو ، یہ بات پاکستان کے ساتھ ہندوستان یعنی اردو ، ہندی و (شاید) دیگر کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے)۔
اردوشاعری میں مِیر نے عالمی انسان کی بنیاد رکھی تھی ، غالب بھی کچھ یہی بنیاد رکھتے تھے ، مگر چونکہ قدرت نے اُنہیں انکے حال و مستقبل کی مڈل کلاسوں کو مجسّم کر کے بنایا تھے تو ہم آجتک غالب کے ہاں کی پرانی مابعدطبیعات کی پُڑیاں ہی پِیتے رہتے ہیں ،
اقبال کا تو ذکر ہی کیا ، وہ تو اپنی شاعری کو اپنے نظریے کا ہتھیار ہی بنائے رہے۔اکثر نئی تحریروں کی بنیادی انگیخت اِسی ، ماضی کی ، ما بعد طبیعات سے آتی ہے ۔
اقبال کے بعد
قرة ا لعین حیدر سے بڑھ کر انسانی ، ادبی گہرائی اور شائستگی ( جو ادب کو ادب ، فن ، بناتی ہیں) والا کوئی اردو ذی روح پیدا نہیں ہو سکا، اُن جیسا تو چھوڑیں ، اُن کا دُکھ کر نیوالا، ان کو یاد کر نیوالا بھی ، اُ نکی طرح کا ، کوئی ذی روح پیدا نہیں ہوا۔
یہ اردو ہندی سماج ہی ایسا ہے ، اتنا جامِد ہے ۔ یہ آگے اگر ایک قدم جاتا بھی ہے تو دو قدم پیچھے جاتا ہے

کاوش عباسی

دیکھو یو ٹیوب ، بھرا ہے بڑے سرمائے کا ظُلم
نعرہ زن ظُلم پہ کچھ جِی ہی نظر آتے ہیں
جو سمجھتے ہیں وہ نِکلے ہیں تو مِٹ جائے گا ظُلم
سارے لوگ اِس طرف آتے ہیں نہ آ پاتے ہیں
اَیسے غُصّے سے وہ کچھ کرنے سے کتراتے ہیں
اُن کی خاطِر یہی جِینا ہے ، یہی جِیون ہے
کب سے سب یونہی ، وہ کہتے ہیں ، جِئے جاتے ہیں
ظالِم عیّار ہے ، فاسِق ہے ، بہت رہزن ہے
مُسکراتا ہے مگر چُھپ کے کڑا دُشمن ہے
لَڑے ہم ، جِیتے بھی کچھ، ظُلم مگر جاری ہے
ظُلم کے قبضے میں جِیون کا ہر اِک خِرمن ہے
ظُلم کا سایہ ہے جِینا جو ہمیں بھاری ہے
محض کچھ ہیں جو خلاف اُٹّھے ہیں لَڑ جانے کو
باقی چُپ ہیں جو مِلا اُس سے نہ کم پانے کو


(A Spenserian Sonnet, i.e., Sonnet by Spencer, one of English Classical poets,
that is, ABAB BCBC CDCD EE.)

نظم : اَور دیر اَب نہیں ہونے دو

اَور دیر اَب نہیں ہونے دو

تم سے مِلی
میرے دِل کی خوشی
ڈھونڈتی ہے تمہیں
ہاتھ اور آنکھیں میری
تڑپتے ہیں پَل پَل تمہیں پانے کو
مَست چہرہ تمہارا مِرے چہرے کے گِرد مہکا ہوا
اور تمہارا سنہری بدن روح میں میری دہکا ہوا
میرے اَنگ اَنگ میں جگمگایا ہوا
ایک اِک رات ، اِک ایک دِن
کیسے تم بِن بِتاؤں مَیں
دِل کی خوشی کو نہ یوں دیر تک کھونے دو
اَور دیر اَب نہیں ہونے دو

۔۔۔۔۔

کاوش عباسی

غزل

حُسن سے عشق کی کچھ بات نہیں ہوتی ہے
دیکھ لیتے ہیں ، ملا قا ت نہیں ہوتی ہے

اُڑ گئی عمر کی ناکامیوں میں وہ کہیں تو
مِرے خوابوں میں مِری ذات نہیں ہوتی ہے

آ کے دفتر سے تھکا ، ہار کے سو جاتا ہوں
شام ہو تی ہے پَر اَب را ت نہیں ہوتی ہے

زندگی لُوٹنے والوں نے یہ مشہور کیا
زندگی خوشیوں کی بارات نہیں ہوتی ہے

چاہتا ہوں کہ ہو جنّت یہ جہاں ، ایسی مگَر
کوئی بھی صورتِ حالات نہیں ہوتی ہے

اب یہ بس دِل کی تسلّی ہے کہ یہ ہے کاوش
اب محبّت کوئی سوغات نہیں ہوتی ہے

غزل

کاوش عباسی

جمال رَنگ کئی ہیں تو لُطف دار کئی
خیال ِ یار کئی ہیں ہمارے یار کئی

جِس ایک پر مِرے قُربان جان و دِل سَو بار
گُزرتے جاتے تھے واں اَیسے گُل عذار کئی

تمام حِدّتیں اَچّھے دِنوں کی باتیں تھیں
پڑا جو وقت ، ہوئے ٹھنڈے شعلہ بار کئی

وہ اِنقلاب کو کہتے تھے نشّہ یار کا ہے
ہَیں اِس نشے کے اَبھی یار پُر خُمار کئی

کبھی بھی کوئی کسی تک پہنچ نہ پاتا تھا
تھے گِرد ذات کے ہر ایک کے حِصار کئی

یہ ایک دشت ہے کھو جاؤ ، پار اُتَر جاؤ
بھٹک کے مَر گئے ہیں اِس میں شہسوار کئی

وفا ہے اُس میں مگر شک بھی پھُوٹتے ہیں بہت
دراڑیں رَکھتا ہے کاوش وہ خوش شعار کئی

Facebook Comments

POST A COMMENT.