مثالی معاشرہ تشکیل دینے میں ادیب کا خاص کردار اور عائد ذمے داریاں

مثالی معاشرہ تشکیل دینے میں ادیب کا خاص کردار اور عائد ذمے داریاں

مثالی معاشرہ کی تشکیل مثالی فرد خصوصاً مثالی عورت سے ہی ممکن ہے

شخصیات ویب نیوز

تحریر : سلیم آذر

ہیروز سے خالی معاشرے بانجھ ہوتے ہیں

 خواتین پر مشتمل ملک کی نصف آبادی کو نظر اندازکرکے معاشرے میں تہذیب کو فروغ دینا ممکن نہیں

 تحمل، درگزر، رواداری ،علم کا شعور اورایک دوسرے کی بات دل جمعی سے سننے کا مادہ اسی معاشرے میں ہوتا ہے جہاں تہذیب زندہ ہو

جس معاشر ے میں اخلاقی اقدار نہ ہوں، حفظ مراتب کا لحاظ نہ ہو وہاں کوئی تہذیب باقی نہیں رہتی، صرف نفسانفسی اور خود غرضی رہ جاتی ہے جو ہمیں انتہا پسندی، سفاکیت اور جنگل کے قانون کی طر ف لے جاتی ہے

 معاشرے میں تہذیب کی تخلیق سے لے کر مثالی معاشرہ بنانے تک ہر انسانی رویے،عمل حتیٰ کہ ہر سوچ، تصور اور خواب تک کو ایک فکری سانچے میں ڈھالنا پڑتا ہے

 ادیب معاشرے کوتباہی سے بچانے کے لیے افراد کے اندر تہذیب ، ثقافتی ،ادبی ،سماجی ، علمی، اخلاقی اور انسانی اقدار کو فر وغ دیتا، تعصب اور انتہا پسندی کے برعکس تحمل، رواداری، اور درگزراورسماجی بھلائی کے تصور کوپروان چڑھاتا اور اعتدال پسندی کی افادیت اجاگر کرتا ہے

اہل قلم معاشرے میں عقلیت پسندی، اعتدال پسندی، تحمل مزاحی اور مکالمے کی روایت کوعام کرتے ہیں۔

ہیروز سے خالی معاشرے بانجھ ہوتے ہیں،  خواتین پر مشتمل ملک کی نصف آبادی کو نظر اندازکرکے معاشرے میں تہذیب کو فروغ دینا ممکن نہیں

ہیروز سے خالی معاشرے بانجھ ہوتے ہیں،  خواتین پر مشتمل ملک کی نصف آبادی کو نظر اندازکرکے معاشرے میں تہذیب کو فروغ دینا ممکن نہیں

ادیب اورمعاشرہ، ادیب اورمملکت اورادیب اور حکومت کی بحث بہت پرانی ہے۔ صدیوں سے دنیا بھر میں اس موضوع پراہل ادب، اہل فن اور حکومتی عمال کے درمیان مکالمہ ہوتارہا ہے۔ پاکستان میں بھی اس موضوع پرنصف صدی سے مباحثہ جاری ہے،1950کی بات ہے جب نوزائیدہ ملک پاکستان میں مملکت کے حوالے سے ادیب کے کردار پربحث ہوئی،کافی تلخ باتیں ہوئیں، ایک دوسرے کوکافراورغدار بھی قرار دیاگیا، پھرمتفقہ فیصلہ ہوگیا۔ پھرغالباً1975 کی بات ہے جب دوبارہ ان امور پرطویل بحث ومباحثے اور کانفرنسز ہوئیں،ایک بار پھرحتمی طورفیصلہ کرلیا گیا، پھریوں ہوا کہ 1980میں فوجی حکومت نے نئے سرے سے اس بحث کوچھیڑدیا اورضیاالحق کی صدارت میں تین روزہ کانفرنس بھی ہوئی، ادیبوں اورسرکاری عمال نے طویل طویل مقالے پڑھے اورحکومت نے ادیبوں کے اٹھائے گئے نکات کے برعکس مشترکہ اعلامیے میں اپنی مرضی کا یوٹرن لے لیا۔ پرویز مشرف کے دور میں بھی اس موضوع پرطبع آزمائی کی گئی مگربات طول نہ پکڑسکی، اب سوشل میڈیا اور مختلف ٹی وی چینلز نے ادیب ومعاشرے کی بحث کوپھرچھڑدیا ہے لیکن آج کل چونکہ ادیب سے زیادہ کالم اورمضمون نگار کا طوطی بول رہا ہے بلکہ ان سے بھی زیادہ سوشل میڈیا پر سرگرم لوگوں کا طوطی بول رہا ہے لہٰذا اس بحث میں کالم نگار اور اینکرز سے بھی زیادہ سوشل میڈیا پرسن سرگرم ہیں، اس بحث کے ساتھ ہی مختلف چینلز پرنظریہ پاکستان اورقیام پاکستان کے مقاصد کے حوالے سے بھی خوب بحث جاری ہے اورنئے نئے پہلو آشکارا کیے جارہے ہیں۔

یہ ہمارا قومی مزاج ہے کہ فیصلہ کرنے کے کچھ عرصے بعد پھرطے شدہ امور پربحث شروع کردی جاتی ہے۔

اس بحث کے دوبارہ چھیڑنے میں کوئی مضائقہ تو یقیناً نہیں ہے مگراس سے ایک بات یہ ضرور ثابت ہوتی ہے کہ ہم شاید قومی امور پرکوئی متفقہ اورحتمی فیصلہ کرنے کے اہل نہیں ہیں یاہمیں اپنے فیصلوں پراعتماد نہیں ہوتا لہٰذا بار بار اس کی تصحیح کرتے رہتے ہیں۔ اس سے ایک یہ بات بھی پتہ چلتی ہے کہ ہم اپنے سوا دوسرے تمام لوگوں کوفیصلہ سازی میں نااہل سمجھتے ہیں لہٰذاسابقین کے فیصلوں کوغلط قرار دے کر انہی طے شدہ امور پرنئے سرے سے فیصلے کرنے میں ساری توانائی اوروقت خرچ کرکے قوم کوپیچھے کی طرف دھکیلنے کا فریضہ سرانجام دینے کے مرض میں مبتلا ہیں۔ طے شدہ فیصلوں پرنئے سرے سے فیصلہ کرنے کے نتیجے میں تینوں طرح کے مفادات بھی پورے ہوجاتے ہیں۔

تحمل، درگزر، رواداری ،علم کا شعور اورایک دوسرے کی بات دل جمعی سے سننے کا مادہ اسی معاشرے میں ہوتا ہے جہاں تہذیب زندہ ہو

تحمل، درگزر، رواداری ،علم کا شعور اورایک دوسرے کی بات دل جمعی سے سننے کا مادہ اسی معاشرے میں ہوتا ہے جہاں تہذیب زندہ ہو

اب چونکہ یہ بحث چل نکلی ہے توموقع ہے کہ ”شخصیات“ ڈاٹ کام کے قارئین کو بھی اس میں شریک کرلیا جائے اورقارئین کی رائے کی روشنی میں کم ازکم آن لائن میگزین ” شخصیات “ ڈاٹ کام کے پلیٹ فارم سے اس بارے میں حتمی فیصلہ کرلیا جائے۔ ہم آج کل امن وامان کی جس بدترین صورت حال سے دوچار ہیں، معاشرے میں پھیلی بے چینی واضطر اب، نفسانفسی، معاشی بدحالی، انحطاط پذیر سماجی، ثقافتی اخلاقی و انسانی اقداراور مجموعی معاشرتی صورت حال بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ اس جنجال سے نکلنے کے ہرممکن راستے تلاش کریں، ان پربحث ومباحثہ کرکے متفقہ حل تک پہنچیں اورنئے سرے سے معاشرے بلکہ مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے جدوجہد کا آغاز کریں۔ ادیب چونکہ معاشرے کا اہم ترین فرد ہوتا ہے۔ اس کی معاشرے میں وہ ہی اہمیت ہوتی ہے جو ہمارے جسم میں دماغ کی۔ ادیب معاشرے کاترجمان ہی نہیں، اس کانقاد اوررہنما بھی ہوتا ہے لہٰذامعاشرے بلکہ مثالی معاشرے کی تشکیل میں ادیب کاکردار اولین حیثیت رکھتا ہے۔

جب ہم مثالی معاشرے کی تشکیل میں ادیب کے کردار پر غور کرتے ہیں تو چندپہلوسامنے آتے ہیں، ایک یہ کہ مثالی معاشرہ یا آئیڈیل سوسائٹی کیا ہے؟ وہ کون سے عناصر ہیں جومثالی معاشرے کی تشکیل میں اہم اورمعاون ہیں اور کیا ادیب مثالی معاشرے کی تشکیل میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے؟ یہ تمام سوال بذات خود الگ الگ مضامین کے متقاضی ہیں تاہم اس مضمون میں ہم ان کا اجمالی جائزہ لیں گے۔

لغت کے اعتبار سے معاشرہ یا سوسائٹی افراد کی اجتماعی زندگی کا نام ہے، ایسی اجتماعی زندگی جس میں ہرفرد کورہنے سہنے، اپنی ترقی،بقا اور فلاح وبہبودکے لئے دوسروں سے واسطہ پڑتا ہے، دوسروں کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ افراد کے مجموعے کانام معاشرہ ہے اور مل جل کر رہنے کوہم معاشرت کہتے ہیں، یہی معاشرت ایک ثقافت کوجنم دیتی ہے جس سے تہذیب پروان چڑھتی ہے۔ کسی مخصوص معاشرے میں رہنے والے افراد کے رویے، رہنے سہنے ایک دوسرے سے ملنے جلنے کے طور طریقے،انسانی واخلاقی اقدار،علم وادب، فنون وہنر،تحقیق اور سائنس وٹیکنالوجی کے حوالے سے ان کاانداز فکر،طرز احساس اورسلوک تہذیب وثقافت کے خدوخال متعین کرتا ہے۔اس حوالے سے ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں توشرمندگی کا باعث ساری باتیں ازخود آشکارا ہوجاتی ہیں۔

افراد کو اپنی بقا وسلامتی اور آنے والی نسلوں کو تحفظ اور خوشحالی دینے کے لیے لازمی طور پر ایسے معاشرے کی ضرورت ہوتی ہے جہاں افراد کو اپنی فطرت اور عقائد کے مطابق عمل کی مکمل آزادی ہو،انصاف فراہم ہو اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع بھی میسر ہوں۔ یہ سب صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب معاشرے میں تہذیب خصوصاً ثقافت اور اس کے آزادانہ اور محفوظ اظہار کے راستے کھلے ہوں۔ معاشرے میں افراد کے طرز عمل، طرزفکر اور طرز احساس کا نام تہذیب ہے، مہذب معاشرے میں انسانی،اخلاقی،سماجی اورمذہبی اقدار نظام مضبوط اوربامقصد تخلیقات کاسفر جاری رہتا ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ مثالی معاشرے کی تشکیل کےلیے تہذیب وثقافت کا ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا جسم کے لیے روح کا ہونا اور یہ تہذیب وثقافت اس وقت تک پروان نہیں چڑھ سکتی جب تک ہم علم وادب، فنون وہنر، تحقیق اورسائنس وٹیکنالوجی کو حقیقی طور پر فروغ نہ دیں،سماجی بھلائی کے رویے عام نہ کریں جس کے لیے منظم اور وسیع انداز میں مسلسل رجحان سازی کی ضرورت ہے اور یہ رجحان سازی ادیب اوردانشور سرانجام دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ادیب کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ معاشرے کوتباہی سے بچانے کے لئے افراد کے اندر تہذےبی، ثقافتی ،ادبی ،سماجی ، علمی، اخلاقی اور انسانی اقدار کو فر وغ دے،افراد کے اندر تحمل وبرداشت اور اعتدال پسندی کی افادےت اجاگر کرے ،ایک دوسرے کی بات دل جمعی سے سننے کامادہ اورعلم کا شعور پیداکرے۔

 تحمل، درگزر، رواداری ،علم کا شعور اوراےک دوسرے کی بات دل جمعی سے سننے کا مادہ اسی معاشرے میں ہوتا ہے جس سوسائٹی میں تہذیب زندہ ہو۔ جس معاشر ے میں اخلاقی اقدار نہ ہوں، حفظ مراتب کا لحاظ نہ ہو وہاں کوئی تہذیب باقی نہیں رہتی، صرف اور صرف نفسا نفسی اور خود غرضی رہ جاتی ہے جو ہمیں انتہا پسند ی ،سفاکیت اور جنگل کے قانون کی طر ف لے جاتی ہے جہاں صرف طاقتور کی بقا ہوتی ہے۔ ادیب معاشرے میں تہذیب اور اقدار کو فر وغ دیتا ہے، تعصب اور انتہا پسندی کے برعکس تحمل، رواداری، اعتدال پسند ی اور درگزراورسماجی بھلائی کے تصور کوپروان چڑھاتا ہے جس سے آنے والی نسلوں کو تہذیب کے زیرسایہ سکون، امن اور حقیقی آزادی اظہار کے ماحول میں زندگی گزارنے کے مواقع ملتے ہیں۔

جب ہم سما جی بھلائی کی بات کرتے ہیں؟ ،معاشرے کومہذب بنانے اور اخلاقی وانسانی اقدار سے آراستہ کرنے کی خواہش کرتے ہیں، معاشر ے کو خوش حال ،اقتصادی طور پرمستحکم بنا نے کے عزم کااظہار کرتے ہیں توہمیں سب سے پہلے یہ جان لینااچاہیے کہ معاشر ے کی تخلیق سے لے کر اسے مثالی معاشرہ بنانے تک ہر انسانی رویے ، عمل حتیٰ کہ ہر سوچ ، تصور اور خواب تک کو ایک فکری سانچے میں ڈھالنا پڑتا ہے۔ مثالی معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں اعلی اخلاقی اقدار رائج ہوں ، کرپشن سے پاک ہواوراس معاشرے میں بسنے والا ہو فرد مہذب، اپنے فر ائض اداکرنے اور دوسروں کے حقوق اداکرنے والا ہو، وہ نہ صر ف اپنی بلکہ دوسروں کی بھی آزادی ، خودداری ، املاک اورعزت نفس وایمانی کی حفاظت کرنے والا ہو، ہمدرد، غم گسار ہو اور دوسروں کی ذاتی زندگی میں عد م مداخلت کے اصول پر کاربند ہو۔ اس کے نتیجے میں جومعاشرہ جنم لیتا ہے اس میں بدعنوان،بداخلاق اور برائی کرنے والے ہرفردکے اندریہ خوف جاگزیں رہتا ہے کہ اس کے ہر عمل پر سوسائٹی اس سے جواب طلب کرے گی ،برائی کرکے اسے معاشرے میں کہیں جگہ نہیں ملے گی اور وہ نہ صرف معاشرے سے کٹ کر رہ جائے گا، اس کے حقوق سلب کر لیے جائیں گے بلکہ اس کی بقامشکل ہو جائے گی۔ معاشرے میں اگر یہ اوصاف نہ ہو ں تو معاشرے میں کم از کم تہذیب واقدار اوربرائیوں کے درمیان توازن ضرور ہو۔ متواز ن معا شرہ ہی مثالی معاشرے میں ڈھلتا ہے۔ تاہم جب معاشرے میں یہ توازن بھی نہ رہے اور برائیاں اچھائیوں پرحاوی ہوجائیں توپھر اس معاشرے میں بقا صرف طاقتور کی رہ جاتی ہے ، لوگ برائیوں کو برا سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں بلکہ ان برائیوں پر فخر کرنے لگتے ہیں اور اچھے رویے رکھنے والے معاشرے میں شرمسار رہتے ہیں اور مس فٹ تصور کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ ہم سمجھتے ہیں کہ انتہا پسندی کی روک تھام اور مثالی معاشرے کی تخلیق کا مقصد معاشرے میں ادب و فنون،علم و ہنر اورتحقیق کو فروغ دینے سے حاصل ہوگا۔

علم و ادب، فنون وہنر اورتحقیق ہی وہ شعبے ہیں جو پر آشوب دور میں بھی نہ صرف افراد میں جینے کی امنگ بر قرار رکھتے ہیں بلکہ معاشرے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت بھی بدرجہ اتم رکھتے ہیں کیونکہ ادب وہ تخلیق ہے جو انسانی فکر اور جذبات کو براہ راست متاثر کرتی اور ان کی کایا پلٹ دیتی ہے اور یہی فکری کایا پلٹ قوموں کی تقدیر بدل دیتی ہے۔ جب سوسائٹی قحط علم کا شکار اور شعور و ادراک سے عاری ہو توادیب جذبات و احساسات کو بیدار کرنے اور جھنجوڑنے والی تخلیقات کے ذریعے افراد میں ایسی موثر تحریک پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے جس سے سوسائٹی پھر سے مہذب معاشرے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ ادیب معاشرے میں جذبات و احساس کی رمق بیدار کرکے افراد کے ذہن و دل کو گداز بناتااور انھیں لطیف جذبات سے آشنا کرتاہے جس سے افراد ایک دوسرے کے لئے محبت،غم گساری اور قربت محسوس کرنے لگتے ہیں۔ تب ادیب کے یہی فن پارے افراد میں پیدا ہونے والے لطیف جذبات اور اس سے جنم لینے والے اپنی ذات کے شعور و ادراک کے اظہار کا موثرذریعہ بنتے ہیں۔ یوں افراد کو اپنی ذات کے اظہار کا پلیٹ فارم میسر آجانے سے معاشرے میں گھٹن ،مایوسی ،محرومی ختم ہوجاتی ہے اور ان کے اندر نفرت ،تعصب اور بیزاری کی جگہ مطالعے کا شوق ،دوسروں کی تخلیقات تحمل سے سننے اور پھر انھیں دوسروں تک پہنچانے کا ہنر و سلیقہ آجاتا ہے، دوسرے معنوں میں ان کے اندر تحمل بیدار ہوجاتا ہے اور فرد مثالی معاشرے کی تخلیق کے لئے موزوں بن جاتا ہے۔

مثالی معاشرہ کی تشکیل مثالی فرد خصوصاً مثالی عورت سے ہی ممکن ہے

مثالی معاشرہ کی تشکیل مثالی فرد خصوصاً مثالی عورت سے ہی ممکن ہے

ہم سمجھتے ہیں کہ انتہا پسندی،اخلاقی اقدار، عقل، عقیدہ، عقیدت، علم، شعور اور معاشرے میں پھیلے متعدد تضادات کے درمیان اعتدال اور توازن قائم رکھنے میں ادیب کا کلیدی کردار ہے۔ اہل قلم معاشرے میں عقلیت پسندی، اعتدال پسندی، تحمل مزاحی اور مکالمے کی روایت کوعام کرتے اور مثالی معاشرہ کی راہ ہموار کرتے ہیں۔

 مثالی معاشرہ کی تشکیل کے لیے معاشرے میں اعتدال پسندی ،تہذیب و ثقافت اور اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کےلئے ایک طرف تو منظم طور پر علم و ادب اور فنون وہنر وتحقیق کو فروغ دینے کےلئے کوششیں کرنا پڑیں گی، دوسری جانب معاشرے کو اکائی میں تبدیل کرنے، عوام پر براہ راست اثر انداز ہونے اور معاشرے سے فرسٹریشن دور کرنے والے اہم شعبوں جیسے تعلیم خصوصاً فنی تعلیم، فنون لطیفہ،صحافت ،طب و صحت، معیشت، ماحولیات، اسپورٹس اور خدمات کے شعبوں میں اعلیٰ کارگردگی سر انجام دینے والی شخصیات (ہیروز)اور ان کے کارناموں کو باہم مربوط کرنا پڑے گا تاکہ معاشرے کے الگ الگ عناصر باہم مربوط اور ایک اکائی بن کر مثالی معاشرے کی تخلیق کا سبب بن سکیں اور افراد میں ان ہیروز کی تقلیدکا جذبہ بیدار ہوکیونکہ ہیروز سے خالی معاشرے بانجھ ہوتے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں تہذیب و ثقافت کے فروغ کے لئے خواتین کو ان کی صلاحیتوں کے اظہار کے لئے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کئے جانابھی ضروری ہے کیونکہ کوئی بھی معاشرہ خاندان سے مل کر بنتا ہے اور خاندان دو بنیادی اکائیوں عورت اور مرد کے ملاپ سے جنم لیتا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ مثالی معاشرے کی تخلیق،مثالی فرد خصوصاً مثالی عورت سے ممکن ہے۔ خواتین معا شرے کی وہ حساس اکائی ہے جس میں جلدی متاثر ہونے کی خوبی کے سا تھ ساتھ بالواسطہ اور بلا واسطہ براہ راست انداز ہونے کی صفت بھی موجود ہے لہٰذا مثالی معاشرے کی تشکیل میں قلم کا ر، فن کار اورخصوصاً نمایاں حیثیت کی حامل مثالی خواتین سب سے بڑھ کر موثر ثا بت ہوسکتی ہیں تاہم اس کے لیے”معا شر ے میں خوا تین کے متعلق مثبت سوچ کو فر وغ دینے کی ضرورت ہےکیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ”خواتین پر مشتمل ملک کی نصف آبادی کو نظر اندازکرکے معاشرے میں تہذیب کو فروغ دینا ممکن نہیں۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.