کرشمہ ساز شخصیت،مس افشاں دلاری،حسین،شفیق اورپیکرعلم واخلاق

کرشمہ ساز شخصیت ، مس افشاں دلاری،حسین،شفیق اورپیکرعلم واخلاق

کرشمہ ساز شخصیت، مس افشاں دلاری، سراپا حسن وجمال، بے حد خوب صورت، انتہائی شفیق اورپیکر علم واخلاق تھیں۔ جوانہیں دیکھتاان کا گرویدہ ہوجاتا، کوئی بھی ا ن سے محبت کیے بنا رہ ہی نہیں سکتا تھا، میں بچپن کی نسبت ان کا آج کہیں زیادہ گرویدہ ہوں

مثالی استاد

تحریر : سلیم آذر

یہاں کرشمہ ساز شخصیت مس افشاں دلاری کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے جو اپنی عزیز از جان استاد کو خراج عقیدت پیش کرنے کی ایک صورت ہے

استاد کا احترام

 استادچاہے پہلی جماعت کے ہوں یا پی ایچ ڈی کے یا کوئی ہنر کو سکھانے والے ہوں سب ہی کا یکساں احترام واجب ہے۔ میں اپنے اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک کے سب اساتذہ کا احترام کرتا ہوں لیکن جتنا احترام میں اپنی پرائمری کلاس ٹیچرکا کرتا ہوں کسی کا نہیں کرتا بلکہ میں صرف احترام ہی نہیں ان سے بے حد محبت بھی کرتاہوں۔

کرشمہ ساز شخصیت

وہ کرشمہ ساز شخصیت تھیں، سراپا حسین، بے حد خو ب صورت،انتہائی شفیق اورپیکر علم ، حسن واخلاق تھیںکہ جو انہیں دیکھتا ان کا گرویدہ ہوجاتا۔ وہ تھیں بھی ایسی ہی شفیق کہ کوئی ا ن سے محبت کیے بنا رہ ہی نہیں سکتا تھا۔ میں بچپن کی نسبت ان کا آج کہیں زیادہ گرویدہ ہوں

 میری پرائمری کلاس ٹیچر مس افشاں جنہیں سب مس د لاری کہتے تھے آج بھی مجھے یاد ہیں۔ مس افشاں دلاری ہمیںریاضی کے سوا انگلش، اردو اوراسلامیات سمیت سارے مضامین پڑھاتی تھیں۔ اس وقت تو مجھے ان کی خوبیوں کا ایسا احساس نہیں تھا بلکہ بعض اوقات تو ان پر غصہ آتا کہ وہ میرے پیچھے کیوں پڑی رہتی ہیں، کلاس میں سب سے زیادہ مجھ ہی سے کیوں سوال کرتی ہیں لیکن اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کرتیں توآج مجھے جو عزت اورکامیابی حاصل ہے وہ کبھی نہ مل پاتی۔

استاد کے فیوض و برکات

استاد کا درجہ کسی طرح بھی والدین سے کم نہیں، استاد ہی ہے جواپنے علم سے انسان کی صلاحیتوں کو اجاگر ، دل و دماغ کوروشن اور اس کی شخصیت کو سنوارتا اور دولت ِ علم سے مالا مال کردیتا ہے۔استاد کے فیوض و برکات انسان کی زندگی ہی میں نہیں مرنے کے بعد بھی جاری رہتے ہیں۔

جس دور میں استاد کا احترام ختم ہوجائے وہ دور قحط علم کا شکار ہوجاتا ہے بلکہ اچھے یا بڑے انسانوں کے وجود سے خالی بھی رہ جاتا ہے کیوںکہ علم ہی سے وہ انسان بنتا ہے۔ جب انسان سنِ شعور کو پہنچتا ہے تو اسے استاد کی اصل قدر معلوم ہوتی ہے اور اس پر استاد کی مہربانیوں کے راز کھلتے ہیں۔ پھر جوں جوں وہ علم کی روشنی سے مستفیض ہوتا چلا جاتا ہے استاد کی عزت کا اعتراف بڑھتا چلا جاتا ہے۔مجھے آج بھی اپنے سب ہی اساتذہ خصوصاً مس افشاں د لاری کی توجہ، شفقت اور پیار بھر ی سختیاں یاد آتی ہیں۔

کھیل ہی کھیل میں علم سکھانے والی

 مس افشاں دلاری بہت خوب صورت تھیں۔ ان کی رنگت سرخ وسفید اورقد لانبا تھا۔ وہ ہمیشہ سفیدلباس پہنتی تھیں، زیادہ ترساڑھی زیب تن کرتیں، کبھی کبھار شلوار قمیص بھی پہن لیتی تھیں۔ وہ سراپا حسن، مجسمہ ¿ شفقت اورپیکر علم و اخلاق تھیں۔ کلاس میں سب بچوں کے ساتھ ان کا برتا?ا یسا تھا کہ ہم کھیل ہی کھیل اور باتوں ہی باتوں میں علم سے آشنا ہوجاتے تھے۔وہ کھیل ہی کھیل میں علم سکھانے کا ہنر جانے والی تھیں۔ وہ جب دیکھتیں کہ بچوں کا پڑھنے کا موڈ نہیں تو کتابیں بند کرکے بستے میں رکھوا دیتیں، پھر کوئی ایسی کہانی سناتیں کہ ہم کئی دنوں تک اس کہانی کے زیر اثر رہتے اور کہانی کے ہیرو کی طرح نیکی کے کام کرنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں مس افشاں کے اخلاقِ حمیدہ کا بچپن کی نسبت آج کہیں زیادہ گرویدہ ہوں۔

میں ان کی خوشنودی چاہتا تھا

 وہ اسکول میں صبح سے چھٹی ہونے تک سوائے ایک پڑیڈ کے ہروقت ہمارے ساتھ ہی رہتی تھیں۔ اس ایک پریڈ میں محمدشفیع صاحب ہمیں ریاضی پڑھانے آتے تھے۔

میں مس افشاں کی قربت اور صحبت کا اتنا زیادہ عادی ہوگیاتھا کہ جب وہ ایک پریڈ کے لیے کلاس سے باہر چلی جاتیں تو مجھے ایسا معلوم ہوتا جیسے وقت بہت جلد گزر گیا ہے، مس افشاں ابھی اور پڑھاتیں تو اچھا ہوتا۔ ان کی غیرموجودگی مجھے بے چین رکھتی تھی ، یوں لگتا جیسے میری کوئی قیمتی چیز کہیں کھو گئی ہے۔ مجھے ان کی جدائی بالکل اچھی نہ لگتی تھیں۔

میں گھرآ کر بھی انہیں یاد کرتا رہتا ، گھر ہو یا اسکول میں ان کی نقل اتارتا رہتا، ان جیسا بننے کی کوشش کرتا ، اسی انداز میں باتیں کرتا اور ہر وہ کام کرنے کی کوشش کرتا جس سے مس افشاں خوش ہوں۔ میں بس ان کی خوشنودی چاہتا تھا

وہ آج بھی میرے اندر زندہ ہیں

 آج مس افشاں ہم میں نہیں، اللہ ان کی مغفرت کرے لیکن اپنی دی ہوئی تعلیم وتربیت کی بدولت وہ آج بھی میرے اندرزندہ ہیں۔

مثالی ٹیچر کی نشانیاں اور مختلف انداز

میں جب بھی ان سے ملتا انہیں ” مس “ ہی کہہ کر مخاطب کرتا تھاحالاں کہ وہ نانی، دادی بن چکی تھیں۔ میں آج بھی مس افشاں کی خوشنودی کا اسی طرح خیال رکھتا ہوں اور جب بھی بھٹک کر کوئی غلط کام کرتا ہوں تو لگتا ہے مس افشاں مجھے دیکھ رہی ہیں اور اسی پیار بھرے انداز میں اپنی خفگی کا اظہار کررہی ہیں اور میں ان کی خفگی کے ڈر سے ہراساں ہوکرغلط راہ سے پلٹ آتا ہوں۔ مثالی استادایسے ہی ہوتے ہیں جو اپنی تعلیم وتربیت کی صورت اپنے وجود کا ہمیشہ احساس دلاتے رہتے ہیں۔

٭٭٭

Facebook Comments

POST A COMMENT.