نورجہاں ، ملکہ ترنم اورہفت زبان گلوکارہ نے پاکستانی فلموں کے نصف گانے گائے، نصف سنے

نورجہاں پاکستان میں‌موسیقی و ترنم کی ملکہ21 ستمبر 1926 کوپیدا ہوئیں، 23 دسمبر 2000 کوانتقال ہوا، انھوں نے چھوٹی عمر میں ہیغزل، فلمی و کلاسیکی موسیقی، قوالی اورنعت کے علاوہ ٹھمری، دھرپد، خیال اور دیگر اصناف موسیقی پرعبور حاصل کرلیا تھا

شخصیات ویب ڈیسک

 

برصغیر میں نورجہاں نامی دو ملکہ گزری ہیں۔ ایک مغل فرماں روا جہانگیر کی چہیتی بیوی ہندوستان کی ملکہ نورجہاں اور دوسری دنیائے موسیقی کی ملکہ نورجہاں۔ دونوں میں ایک مماثلت یہ بھی ہے دونوں کا انتقال دسمبر کے مہینے میں ہوا ہندوستان کی ملکہ کا انتقال اتوار 17 دسمبر 1645 بمطابق 28 شوال 1055ھ کو لاہور، سلطنت مغلیہ میں ہوا جب کہ ملکہ ترنم کا 27 رمضان المبارک بمطابق 23 دسمبر 2000 کو کراچی میں انتقال ہوا۔ا اس وقت ان کی عمر 74 برس تھی۔ انھوں نے 1930سے 1996 تک اداکارہ، گلوکارہ، موسیقار اور فلم ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا اور اپنے انتقال سے قبل تک فعال رہیں، آج پاکستان اور دنیا بھر میں جہاں ان چاہنے والے موجود ہیں ان کی 16ویں برسی منائی جارہی ہے۔نور جہاں برصغیر کی مشہور گلوکارہ اور اداکارہ تھیں۔ انھیں پاکستانیوں کی طرف سے ملکہ ترنم(Queen Of Melody ) کا خطاب ملا۔ انھوں نے ہندوستان و پاکستان میں اردو، سندھی، بنگالی، پشتو، عربی اور پنجابی زبانوں میں 10ہزار کے قریب گیت گائے۔ انھیں ہفت زبان گلوکارہ بھی کہاجاتاہے۔ انھیں بیک وقت فلمی موسیقی، غزل، کلاسیکی موسیقی، پنجابی،قوالی اور نعت پر یکساں دسترس حاصل تھی۔

ابتدائی زندگی

 نورجہاں کا اصل نام اللہ وسائی تھا۔ وہ 21 ستمبر 1926 کو برطانوی ہند کے شہر قصور (موجوہ پاکستان) میں پیدا ہوئیں۔گھریلو نام اللہ وسائی تھا۔انکا گھرانہ موسیقی اور گانے بجانے سے وابستہ تھا اسی لیے ان کے گھروالوں نے انھیںبھی موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے استاد کے پاس بٹھادیاجب کہ نورجہاں ذاتی طور پر اداکاری کرنے کو بھی پسند کرتی تھیں۔ استاد بابا غلام محمد سے موسیقی کی تربیت حاصل کی انھیں کلاسیکی روایتی ہندوستانی موسیقی کی خصوصی طور پر تربیت دی گئی تھی ان کو ٹھمری، دھرپد، خیال اور دیگر اصناف موسیقی پر چھوٹی عمر میں ہی عبور حاصل ہوچکاتھا۔انھوں نے کم سنی میں ہی اسٹیج پر اداکاری اور گلوکاری کا مظاہرہ کیا۔ بعد ازاں اپنی بہنوں کے ساتھ کلکتہ چلی گئیں اور فلم پنجاب میل میں اداکاری اور گلوکاری کی۔ گیت کے بول تھے، سوہنا دیساں وچوں دیس پنجاب۔ یہ فلم 1935 میں بنی۔کلکتہ میں قیام کے دوران میں ان کی ملاقات اپنے وقت کے معروف و مشہورگلوکارہ مختار بیگم سے ہوئی۔ مختار بیگم کو اللہ وسائی بہت پسند آئی انھوں نے اللہ وسائی کا نام بے بی نورجہاں تجویز کیا اور اپنے شوہر آغا حشر کاشمیری کو سفارش کی کہ وہ بے بی نورجہاں کو اپنے تھیٹر میں ملازمہ رکھیں۔ نورجہاں نے خود بھی بارہا اپنے مختلف انٹرویوز میں اعتراف کیاہے کہ وہ مختار بیگم کی مداح ہیں اور ان کے انداز کو نقل کرتے ہوئے سفید ساڑھی پہن کر انہی کی طرح ساڑھی کاپلو انگلی پر لپیٹتی ہیں۔ نورجہاں کہتی ہیں کہ جب مختار بیگم گاتی تھیں تو ہم محو ہوکے انھیںسنتے اور جب وہ اسٹیج سے نیچے آتیں تو ان کے جوتے سیدھے کرتے تھے۔

نورجہاں کی بہنوں کو سیٹھ سکھ کرنانی کی کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ اور تینوں بہنیں پنجاب میل کے نام سے مشہور ہوئیں۔نورجہاں نے کافی فلموں میں بچپنے کے کرداروں کے لیے اداکاری بھی کی۔ جیسا کہ 1935 میں کے ڈی مہرہ کی فلم پنڈ دی کڑی ، فلم مصر کا ستارہ1936 کے لیے گائیکی و اداکاری بھی کی۔ 1937میں فلم ہیر سیال میں  انھوں نے ہیر کے بچپن کا کردار بھی اداکیا۔کلکتہ میں کچھ عرصہ قیام کے بعد  وہ لاہور واپس آگئیں۔ ماسٹر غلام حیدر نے ان کے لیے بہت سی دھنیں ترتیب دیں جنھیں گاکر نورجہاں کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا۔ نورجہاں نے پہلی بار سیٹھ دل سکھ جو پنچولی سٹوڈیوز کے مالک تھے کی فلم گل بکاو ¿لی کے لیے گیت گایا جس کے بول تھے

شالا جوانیاں مانے۔۔۔۔ آکھا نہ موڑیں۔ پی لے

نورجہاں نے 1942میں پران کے مدمقابل فلم خاندان میں مرکزی کردار اداکیا۔ بطور مرکزی اداکارہ یہ فلم ان  کی اولین فلم تھی جو کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ بعد ازاں  انھوں نے 1943میں بننے والی فلم دہائی کے لیے گیت گائے۔ یہ دوسری بارتھا کہ نورجہاں نے اپنی آواز میں کسی دوسری اداکارہ کے لیے گانا گیا۔ دہائی میں حسن بانو نے مرکزی کرداراداکیاتھا۔

سعادت حسن منٹو نے لکھاہے کہ رفیق غزنوی نے سعادت حسن منٹو سے نورجہاں کا تعارف کرواتے ہوئے کہا ”منٹو یہ نور ہے۔ نورجہاں ہے سرورجہاں ہے۔ خدا کی قسم ایسی آواز پائی ہے کہ اگر جنت کی خوش الحان سے خوش الحان حور بھی اسکی آواز سن لے تو اسے سیندورکھلانے زمین پر اتر آئے۔“۔

نورجہاں ، پاکستان میں موسیقی و ترنم کی ملکہ

نورجہاں ، پاکستان میں موسیقی و ترنم کی ملکہ

شوکت حسین رضوی سے شادی

فلم خاندان کی کامیابی کے بعد نورجہاں بمبئی منتقل ہوگئیں۔ وہاں ان کی ملاقات سید شوکت حسین رضوی سے ہوئی جوایک اداکار اور ہدایت کارتھے۔ نورجہاں اور رضوی کی ملاقاتوں میں اضافہ ہوا اور نوبت شادی تک پہنچ گئی۔ نورجہاں کے گھروالے ان تعلقات کے خلاف تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایک کماو ¿ لڑکی شادی کرکے ساری کمائی ساتھ لے جائے اس لیے رضوی سے تعلقات پر قدغن لگادی گئی مگر رضوی اور نور کا عشق سر چڑھ کر بولا اور انجام شادی پر منتج ہوا۔ سعادت حسن منٹو بھی اس شادی کے مخالف تھا۔ سعادت اور شوکت دونوں دوست تھے ، سعادت حسن منٹو نے رضوی کو کہاتھا کہ شادی سے پرہیز کرنا۔ سعادت حسن منٹو نے اپنی کتاب نورجہاں سرورجہاں میں نہایت تفصیل سے سارے واقعات قلمبند کیے ہیں۔رضوی اور نور جہاں کی شادی کے بعد دونوں کے لیے کامیابی کی راہیں وا ہوگئیں۔ نورجہاں نے 1945 میں بننے والی فلم بڑی ماں میں مرکزی کردار اداکیاجب کہ لتامنگیشکر اور آشابھوسلے نے اس فلم میں بچپنے کے کردار اداکیے تھے۔1945میں نورجہاں نے پہلی بار زہرابائی انبالے والی اور کلیان کے ہمراہ قوالی گائی۔ جنوبی ایشیا میں پہلی بار خواتین نے قوالی گائی تھی۔ قوالی کے بول تھے ”آہیں نہ بھریں شکوے نہ کیے“ مرزاصاحباں نورجہاں کی متحدہ ہندوستان میں آخری فلم تھی۔ نورجہاں نے 1932سے 1947تک 127گانے گائے جب کہ 69فلموں میں اداکاری کی۔انھوں نے 12 خاموش فلموں میںبھی کام کیا۔ نورجہاں نے جن فلموں میں کام کیا ان میں سے 55فلمیں بمبئی، 8 فلمیں کلکتہ، 5فلمیں لاہور اور ایک فلم رنگون (ینگون) برما میں بنی تھیں۔

1947 میں قیام پاکستان کے بعد دونوں میاں بیوی پاکستان کے شہر کراچی ہجرت کرآئے۔ تین سال بعد نورجہاں نے اپنی پہلی فلم چن وے بناناشروع کی۔ اس فلم کی ہدایت کاری نورجہاں نے انجام دی تھی تاہم وہ کہتی تھیں کہ اصل میں ہدایت کاری کاساراکام رضوی نے ہی کیاہے میرا تو اسکرین پر صرف نام تھا۔ پنجابی فلم چن وے29 مارچ 1951کو ریلیز ہوئی جو نورجہاں کی پاکستان میں بطور ہیروئن پہلی فلم تھی اور اِس کی ڈائریکٹر بھی وہ خود ہی تھیں اور موسیقی فیروز نظامی کی اوراس میں اداکاری کے جوہر نورجہاں کے ساتھ سنتوش کمار، جہانگیر خان، یاسمین، غلام محمد نے دکھائے ۔ لاہور میں یہ فلم ریجنٹ سینما پر 18 ہفتے تک سپر ہٹ بزنس کرتی رہی۔ کراچی میں یہ فلم 13 اپریل 1951کو ریلیز ہوئی اور 9 ہفتے تک جوبلی سینما پر بزنس کرتی رہی۔

29مارچ 1952 کو دوپٹہ ریلیز ہوئی جس کے ڈائریکٹر سبطین فضلی تھے، موسیقی فیروز نظامی کی تھی اور پیش کار اسلم لودھی تھے۔۔اس فلم کا معاوضہ میڈم نورجہاں نے اس وقت 6000 روپے لیا تھا۔ اس فلم نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے خصوصی طور پر نورجہاں کا گایاہوا یہ گانا: سب جگ سوئے ہم جاگیں۔۔۔تارون سے کریں باتیں

چاندنی راتیں۔۔۔ پچھلی رات میں ہم اٹھ اٹھ کر چپکے چپکے روئیں رے

 سکھ کی نیند میں میت ہمارے دیس پرائے سوئیں رے

راتوں نے میری نیند لوٹ لی۔۔۔ دن نے چین چرائے رے

دکھیا آنکھیں ڈھونڈ رہی ہیں وہی پیار کی باتیں۔۔۔چاندنی راتیں

1952 سے ابھی تک اس گانے کو زبان زدعام گانا ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

سید شوکت حسین رضوی سے نورجہاں کی ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے۔ بیٹوں کانام اکبر رضوی اور اصغر رضوی جب کہبیٹی کانام ظل ہما ہے۔اکبر ، اصغر رضوی اور بیٹی ظل ہما کا انتقال ہوچکاہے۔شوکت حسین رضوی سے اختلافات اور طلاق کے بعد انھوں نے بچے اپنے پاس رکھ لیے تھے۔ شوکت حسین ر ضوی سے طلاق کے بعد  انھوں نے پاکستانی فلموں کے اداکار اعجاز درانی سے شادی کرلی۔ اعجاز درانی سے شادی کے بعد  انھوں نے اداکاری ترک کردی اور خودکو گلوکاری تک محدودکرلیا۔ فلم چھوڑنے کی وجہ وہ یہ بتاتی تھیں کہ میری طبیعت میں تصنع نہیں پایا جاتا اس لیے فلم چھوڑ دی۔بطوراداکارہ ان کی آخری فلم باجی تھی۔ نورجہاں نے مرزاغالب فلم میں بطور مرکزی اداکارہ کام کیا اور اپنے مداحین کی تعداد میں اضافہ کیا۔کلام فیض گاکر بھی نورجہاں نے شہرت حاصل کی۔ خاص طور پر فیض احمد فیض کی غزل مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ ایک لازوال تخلیق تھی۔

ان کے ایک قدردان نے کیاخوب لکھاتھا کہ پاکستانی فلمی صنعت کے نصف گانے نورجہاں نے گائے ہیں اور نصف سنے ہیں۔ اس سے اندازا کیاجاسکتاہے کہ  وہ  پاکستانی فلمی صنعت کے لیے کس قدر اہمیت کی حامل تھیں۔ انھوں نے زیادہ تر گانے انفرادی طور پر گائے اور کئی مرد گلوکاروں کے ساتھ بھی دو گانے گائے جن میں مہدی حسن، پرویز مہدی، احمد رشدی،مسعود رانا، عنایت حسین بھٹی، ندیم ، بشیر احمداور اے نیئر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نورجہاں نے زنانہ گلوکاروں کے ساتھ بھی گانے گائے ہیں جن میں رونا لیلی، ناہید اختر، فریدہ خانم، مہناز اور مالا قابل ذکر ہیں۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.