سوشل نیٹ ورکنگ ، ٹیکسٹ پیغامات سے لڑکیوں کی تعلیمی کارکردگی متاثر

سوشل نیٹ ورکنگ دوسروں کے ساتھ مربوط ہونے اور تعلقات بڑھانے کا موثر طریقہ

سوشل نیٹ ورکنگ سائبرغنڈہ گردی، سائبرکرائم، سماجی رقابت اور تنہائی کا ایک ذریعہ بھی ہے

 شخصیات ویب نیوز
رپورٹ:  سلیم آذر

آج سائنس نے جہاں انسان کو جدید سہولتوں سے آراستہ کرکے اس کی زندگی میں آسانیاں پیدا کردی ہے خصوصاًسوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس نے دوسروں کے ساتھ مربوط ہونے اور تعلقات بڑھانے کا ایک اضافی طریقہ فراہم کیا ہے،سماجی روابط کی ان ویب سائٹس نے جہاں فاصلوں کے احساس کو کم کر دیا ہے وہیں اس کے وسیع منفی اثرات سے طالب علم بچے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ماہرین کے مطابق سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارنے والے بچوں کی جذباتی ،سماجی اورذہنی نشو و نما میں تاخیر ہو سکتی ہے کیوں کہ وہ زیادہ وقت مجازی دنیا میں گزارتے ہیں۔
اس حوالے سے برطانیہ کے قومی شماریات کے دفتر سے جار ی رپورٹ”بچوں کی فلاح و بہبود“ میں ماہرین نے واضح کیا ہے کہ بچوں کے بیمار ذہنی صحت کے ان کی مجموعی صحت پر فوری یا طویل مدتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک طرف سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس نے دوسروں کے ساتھ مربوط ہونے اور تعلقات بڑھانے کا ایک اضافی طریقہ فراہم کیا ہے لیکن وہیں یہ ممکنہ طور پر سائبر غنڈہ گردی، سماجی رقابت اور تنہائی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔
مطالعاتی جائزے میں ماہرین نے بچوں کی ذہنی صحت کا جائزہ لیا۔ نتائج کے مطابق سماجی روابط کی ویب سائٹس پر زیادہ وقت گزارنے کا واضح طور پر ذہنی صحت کے مسائل کے ساتھ تعلق پایا گیا ہے۔رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ اسکول کے دنوں میں سماجی روابط کی ویب سائٹس کا تین گھنٹے سے زیادہ استعمال کرنے والے بچوں میں دوسرے بچوں کے مقابلے میں ذہنی صحت کے مسائل میں مبتلا ہونے کا امکان دگنا ہے۔اسی طرح جو بچے ہر روز اپنا زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں ان میں جذباتی مسائل، ہائپر ایکٹی ویٹی اور خراب رویہ پایا گیا ۔ان بچوں کے مقابلے میں جو فیس بک ٹوئٹر یا اسنیپ چیٹ جیسی سوشل ویب سائٹس پر نہیں جاتے ہیں۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر ہیلی وین زونبرگ کہتی ہیں کہ بچے ٹیکنالوجی پر حد درجے انحصار کرتے ہیں جب کہ انہیں انٹرنیٹ کے منفی اثرات کا احساس نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کے ضرورت سے زیادہ استعمال سے بچوں کی بات چیت کرنے کی صلاحیت، دوسروں کی باتیں غور سے سننے کی قابلیت اور ان کے ہمدردانہ رویے کو نقصان پہنچا ہے۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بچے سوشل میڈیا پر لطائف، تصاویر اور ویڈیوز اپنے دوستوں کے ساتھ شئیر کرتے ہیں، بغیر ایک دوسرے سے بات چیت کیے ہوئے اور فوری طور پر تصاویر یا پوسٹ پر اپنا تبصرہ بھی ظاہر کر دیتے ہیں یہ جانے بغیر کہ ممکن ہے کہ ان کی رائے سے دوسری طرف ان کے دوستوں کے احساسات مجروح ہوئے ہوں۔
ٹیکسٹ پیغامات سے لڑکیوں کی تعلیمی کارکردگی متاثر
سائنسی جریدہ ”امریکن سائیکلوجیکل ایسوسی ایشن“ اپنی رپورٹ میں بتاتا ہے کہ اوسط نوجوان ایک دن میں اندازاً 167 پیغامات بھیجتے اور وصول کرتے ہیں۔اس حوالے سے اس دور کے نوجوانوں کو اگر ٹیکسٹنگ آبادی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا، جن کا پسندیدہ مشغلہ موبائل فون پرانگوٹھوں کی مدد سے دوستوں کو مختصر پیغامات یا ٹیکسٹ میسج لکھنا ہے۔
فلسفہ سائنس کے ایک نئے مطالعے میں ماہر نفسیات نے انکشاف کیا کہ موبائل فون یا انٹرنیٹ پر بھیجے یا وصول کیے جانے والے مختصر پیغامات کے لیے لڑکیوں میں جنونی رویہ پایا جاتا ہے جو ان کی تعلیمی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے لیکن ٹیکسٹ پیغامات کا لڑکوں کے تعلیمی نتائج پر منفی اثر نہیں تھا۔ڈیلاویئرکمیونٹی کالج سے منسلک پروفیسر کیلی لینڈ مین کے مطابق ٹیکسٹ پیغامات کے حوالے سے جذباتی رویہ ٹیکسٹنگ کی تعداد کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے، اس میں ایسا ہوتا ہے کہ پیغامات میں کمی کرنے کی کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں، ٹیکسٹنگ کے رویے کے بارے میں دوسروں کے سوال پر دفاعی رویہ اختیار کر لیا جاتا ہے اور اگر کسی وجہ سے ٹیکسٹ بھیجنا ممکن نہیں ہو تو شدید غصہ آتا ہے۔مطالعے کے مطابق لڑکوں نے معلومات کے اشتراک کے لیے مختصر پیغامات کا استعمال کیا تھا جب کہ لڑکیوں نے سماجی تعلقات نبھانے اور دوستوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھانے کے لیے ٹیکسٹ پیغامات کا استعمال کیا، جس سے محققین نے نتیجہ نکالا کہ لڑکیوں میں ٹیکسٹ پیغامات کے حوالے سے شدید رویے کا امکان تھا جو انہیں بار بار فون چیک کرنے کی طرف مجبور کرتا ہے۔ایک مشاہدے کے لیے تحقیق کاروں کی ٹیم نے آٹھویں جماعت سے گیارہویں جماعت کی211 لڑکیوں اور192 لڑکوں کو شامل کیا اور ”کمپلسیو ٹیکسٹنگ اسکیل“ کی مدد سے شرکا میں ٹیکسٹ پیغامات کے رویے کی چھان بین کی۔
محققین نے کہا کہ جن لڑکیوں نے اسکیل پر زیادہ نمبر لیے تھے۔ ان کی تعلیمی کارکردگی خراب تھی، ان کے گریڈ اچھے نہیں تھے وہ اسکول میں اچھی طرح سے ایڈجسٹ نہیں تھیں لیکن یہ بات لڑکوں کے لیے درست ثابت نہیں ہوئی۔
اس سے قبل ایک حالیہ برطانوی مطالعے سے ظاہر ہوا تھا کہ ٹیکسٹ پیغامات کی غیر روایتی زبان ہجے اور گرامر کے استعمال سے نوجوانوں کی انگریزی زبان کی مہارت میں اضافہ ہوتا ہے اور انگریزی میں ان کی املا اور گرامر کے بہتر نتائج نظر آئے تھے۔
اسی طرح امریکی ماہرین کی ایک تحقیق سے پتا چلا تھا کہ اسکول کی پڑھائی کے دوران ٹیکسٹ پیغامات بھیجنے والے بچوں کے امتحانی نتائج اچھے نہیں ہوتے ہیں تاہم نئی تحقیق کا نتیجہ بتاتا ہے کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں میں ٹیکسٹ پیغامات کے لیے جذباتی رویہ زیادہ مشکلات پیدا کرتا ہے۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.