معاشرہ پر سوشل میڈیا کے منفی اثرات، ٹیکنالوجی کا استعمال ہماری زندگی کا لازمی جز بن چکا

معاشرہ پر سوشل میڈیا کے منفی اثرات کے باوجود اس کی فادیت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا 

معاشرہ میں بڑھتی اخلاقی و سماجی خرابیوں کونظر انداز نہیں کیا جا سکتا

یہ ہم پر منحصر ہے کہ اس سہولت کامثبت فیض یاب ہوتے ہیں یا بے سوچے سجھے استعمال کرکے نقصانات کو دعوت دیتے ہیں

سماجی روابط انسان کی فطرت ہے اور سوشل میڈیا ضرورت لہٰذا استفادہ معاشرتی و اخلاقی حدود میں رہ کر کیا جائے

ماجد علی سید

دور حاضر میں سوشل میڈیا کا استعمال ہماری زندگی کا لازمی جز بن چکا ہے، معاشرہ پرجس کی افادیت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ دہائی میں انفارمیشن ٹکنالوجی ترقی اورانٹرنیٹ کی فراوانی نے رابطوں کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ایک زمانہ تھا جب دوردراز مقیم عزیزواقارب کی خیریت جاننے کے لئے خط و کتابت کی ضرورت پیش آتی تھی اور مدتوں کے بعد خط کا جواب مل پاتا تب جا کرکچھ اطلاع حاصل ہوتی تھی۔ آہستہ آہستہ سماج میں تبدیلی رونما ہوئی،ٹیلی فون کی ایجاد ہوئی ،پھرموبائل فون کی سہولیات اوراب دیکھتے ہی دیکھتے انٹرنیٹ کی فراوانی کی موجودگی میں سوشل میڈیاکے ذریعہ آج دنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہو چکی ہے۔سوشل میڈیا سے مراد انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے معاشرہ تک اپنے خیالات کی ترسیل کرنا ہے۔سوشل ویب سائٹس میں فیس بک،ٹویٹر،واٹس اپ،یو ٹیوب،اسکائپ،انٹرنیٹ بلاگز،اورلنکڈان وغیرہ باہمی رابطوں کا بہترین ذریعہ ہیں۔ دنیا میں سوشل میڈیا کے صارفین کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے لیکن جیسے جیسے صارفین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے،اسی اعتبار سے اس کے معاشرہ پر منفی اثرات بھی ہماری زندگی پر مرتب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ایک طرف سوشل میڈیا اظہار رائے،تبادلہ خیال اور اطلاعات کی آزادنہ ترسیل کا موئثرذریعہ بن کرسامنے آئی ہے جس کے ذریعہ ہم نہ صرف انفرادی بلکہ گروہی سطح پر بھی دنیا کے ہر کونے میں رابطہ رکھنے لگے ہیں،تو دوسری طرف ہمارے معاشرہ میں اخلاقی و سماجی خرابیوں نے بھی فروغ پایا ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ کوئی غذا ہماری صحت کے تئیں کتنی ہی مفید کیوں نہ ہو اگر مقدار سے زیادہ کھا لی جائے تو اس کا سائڈ ایفیکٹ لازمی ہے کچھ یہی حال سوشل میڈیا کا نظر آتا ہے قدیم سے قدیم اور جدید سے جدید ہر ٹکنالوجی اپنے آپ میں دو پہلو سمیٹے ہوئے ہوتی ہے ایک مثبت تو دوسرا منفی۔اب یہ ہمارے طریقہ استعمال پر منحصر کرتا ہے کہ ہم اس سہولت کامثبت استعمال کرکے فیض یاب ہوتے ہیں یا غیرسنجیدہ طورپراس سے ہونے والے نقصانات کو دعوت دیتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ سماجی روابط انسان کی ضرورت و فطرت دونوں ہیں،لیکن سماجی و اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے اس سے استفادہ لازمی ہے۔ لیکن لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں سوشل میڈیا کے معاشرہ مثبت اثرات کم اوراس سے جڑے مسائل کی ایک طویل فہرست ہے۔ظاہری طور پر ہم سب بہت اسمارٹ ہوگئے ہیں امیر ہو یا غریب نوجوان ہوں یا پھرخواتین سب کی انگلیاں اسمارٹ فون پر رقص کرتی نظر آتی ہیں۔جہاں سوشل میڈیا نے ہمیں دور دراز رہنے والے افراد کے قریب کردیا ہے وہیں حقیقی رشتوں سے دوری کے اسباب کو بھی جنم دیا ہے۔ سوشل میڈیا کی سب سے مقبول ترین ویب سائٹ فیس بک ہے جس نے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ہماری نوجوان نسل تو اپنے دن و رات کا بیشتر وقت اور توانائی سماجی رابطوں کی اس سائٹ پرضائع کرنے میں مصروف ہے۔فیس بک ایک سوشل نیٹ ورکنگ سروس ہے جس کا آغاز2004 میں جامعہ ہاورڈ کے کے طالب علم مارک ذکربرگ نے کیا تھا اور اب کسی سوشل سائٹ کے صارفین کی تعداد سب سے زیادہ ہے تو وہ صرف فیس بک ہی ہے۔عصر حاضر میں فیس بک کے فعال صارفین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ فیس بک صارفین کو دوستوں سے رابطہ استوار کرنے،تصاویر،ٹیکسٹ،آڈیوزاورویڈیوذز کی شےئرنگ کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔لیکن جب کسی بھی چیز کا استعمال حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تو اس کے منفی اثرات نمایاں ہونے لگتے ہیں یہی احوال فیس بک کا بھی ہے۔نوجوان نسل کے ذہن و دماغ پر فیس بک جنون کی حد تک حاوی ہو چکا ہے۔ وہ طالب علم جن کے ہاتھوں میں کتابیں اور قلم ہونا چاہونا چاہئے،ان کی آنکھیں اسمارٹ فون پر سے ہٹنے کا نام نہیں لیتیں۔غرض کہ اپنی پڑھائی اور دیگر کام کے اوقات بھی فیس بک پر صرف کرتے نظر آتے ہیں۔جس سے ان کی تعلیم و تربیت پرمنفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔انتہائی افسوس کی بات ہے کہ دن بہ دن فیس بک پر جعلی اکاو ¿نٹس کے ذریعہ انسانیت کو داغدار کیاجارہا ہے۔ہم سب اس سے واقف ہیں کہ متعدد مرد حضرات خواتین کے نام سے فیک آئی ڈیزبنا کر دوستی کے نام پرخواتین کو بے وقوف بنانے میں لگے رہتے ہیں اور اکثرخواتین بھی دیگر ذمہ داریوں کو نظر اندازکرکے اپنا قیمتی وقت فضول گپ شپ میں صرف کردیتی ہیں۔تو کئی افراد فیس بک کو فرقہ وارانہ تصاویر پوسٹ کرنے،بے بنیاد افواہ پھیلانے،مختلف سیاسی و مذہبی مکاتب فکر کی نمائندگی کی غرض سے بھی استعمال کرتے ہیں جس سے ہمارے معاشرے میں خلفشاراوربدامنی کی کیفیت جنم لینے لگتی ہے۔ فیس بک کے علا وہ دیگرسوشل ویب سائٹس جیسے کہ واٹس اپ،ٹویٹر،انٹرنیٹ بلاگز کی داستان بھی کچھ ملتی جلتی ہے۔واٹس اپ ہو یا انٹرنیٹ بلاگز ہر شخص اپنی نمود و نمائش میں لگا ہوا ہے۔اگر ہمیں ذرا سی فرصت ملتی ہے تو فوراً واٹس اپ چیٹ کرنے بیٹھ جاتے ہیں اگر بعض اوقات کسی ضروری کام میں مصروف ہوں تب بھی بار بار واٹس اپ چیک کرنے کے لئے ہم کچھ لمحے چرا ہی لیتے ہیں۔چلئے مان لیتے ہیں کہ سوشل میڈیا نے میلوں کے فاصلے کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے لیکن چار دن کی دوستی میں اس قدر دیوانہ بن جانا کہ والدین اوراپنے عزیزواقربا تک کو ملحوظ خاطر نہ لانا یہ کہاں کی عقلمندی ہے؟ سوشل مییڈیا کے حددرجہ استعمال کے نتیجے میں،نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ صاحب اولاد افراد کی بھی زندگیاں متاثرہورہی ہیں۔پوری دنیا سے رابطہ رکھنے کی چاہ میں ہم اپنوں سے بہت دورہوتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے خاندان کے خاندان تباہ ہورہے ہیں اور نہ جانے کتنے بچوں کا مستقبل اندھیروں میں گم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ ہم سوشل میڈیا کی مجازی دنیا میں اس قدر مگن رہنے لگے ہیں کہ ہم اس سے ہونے والے سماجی،جذباتی اور نفسیاتی نقصانات کا علم ہونے کے باوجود بھی اس کی اسیری سے آزاد نہیں ہوپارہے ہیں۔ زندگی کے کسی بھی شعبہ میں ہم کوئی بھی کام کسی نہ کسی غرض سے ہی کرتے ہیں لہٰذا مقاصد کے تحت کئے جانے والے عوامل منزل تک رسائی ممکن بناتے ہیں۔لیکن ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ جن مقاصد کی تکمیل کی غرض سے سوشل میڈیا وجود میں آئی تھی ،آج ہم نے ان مقاصد کو ہی بھلا دیا ہے۔سوشل میڈیا جو چند سال قبل رابطوں کو بڑھانے،اہم اطلاعات کو پھیلانے اور تحصیل علم کا موئثر ترین ذریعہ ہوا کرتی تھی وہی آج تفریحی سرگرمیوں کے فروغ اور سرمایہ وقت کے ضیاع کا مرکز بنی ہوئی ہے۔بالآخر یہ کہ جہاں سوشل میڈیا کی بے پناہ سہولیات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہیں اس سے ہماری نونحالان قوم مخرب اخلاق اور بیحودہ حرکتوں میں ملوث ہورہی ہے۔ہماری زندگیوں میں ذہنی تناو ¿اور رشتوں میں درار آنے لگی ہے،بسے بسائے گھر اجڑنے لگے ہیں ،طالب علم تعلیم سے بے راہ روی اختیار کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ متعدد افراد سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرکے ترقی کی راہیں ہموار کر رہے ہیں لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ اس سے جڑے مسائل کی فہرست میں بھی پل پل اضافہ ہورہا ہے۔ان مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہمارے ہاتھوں سے اعتدال کا دامن چھوٹنا ہے،جس سے ہم سب واقف ہیں۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کی اصلاح کے لئے ہر وقت حاضر رہتے ہیں مگر اپنا محاسبہ کرنے کی فرصت کسی کے پاس نہیں۔آج وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہرشخص سوچ سمجھ کر اور صرف ضرورت کے وقت ہی سوشل سائٹس پر اپنا بیش قیمتی وقت صرف کرے اور اس سے ہونے والے تقصانات سے بچنے کی پوری کوشش کرے،تبھی ان مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔لہٰذا سوشل میڈیا کے تمام صارفین سے یہی کہنا چاہوں گا کہ اپنی ذاتی زندگی اور سماجی زندگی میں توازن اورخوشحال بنائے رکھنے کے لئے سوشل میڈیا کو اعتدال کی حد میں رہتے ہوئے مثبت طریقے سے استعمال کرکے انسانیت کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.