اخلاق احمد کو مترنم آواز کے باوجود فلمی دنیا میں مقام بنانے کے لیے سخت جدوجہد کرناپڑی

اخلاق احمد نے 1970 سے 1980کے دوران گلوکاری شروع کی تو انڈسٹری میں مسعود رانا، اداکار ندیم اور احمد رشدی کا طوطی بولتا تھا

اخلاق احمد 8 مئی 1946 کودہلی میں پیدا ہوئے، ان کاانتقال4 اگست1999 کو لندن میں کینسر سے ہوا، انھوں‌نے گلوکاری کا آغاز کراچی میں 1960 میں اسٹیج گلوکار کی حیثیت سے کیا

شخصیات ویب نیوز

رپورٹ: زہرہ سلیم آذر

اخلاق احمد 8 مئی 1946 کودہلی میں پیدا ہوئے، ان کاانتقال4 اگست1999 کو لندن میںہوا۔ وہ خوب صورت اور مترنم آواز کے ایسے گلوکار تھے جنہیں اپنی جگہ بنانے کے لیے سخت جدوجہد کرنا پڑی، انہوں نے جب پلے بیک گلوکاری کا آغاز کیا توفلم انڈسٹری میں اس وقت 1970 سے 1980 تک گلوکار مسعود رانا، اداکار ندیم اور متنوع آواز کے مالک لیجنڈ گلوکار احمد رشدی کا طوطی بولتا تھا۔ خصوصاً گلوکاراحمد رشدی تو فلم کی دنیائے موسیقی کے بے تاج حکمراں تھے۔ ان بڑے فنکاروں کے مقابل انہوں نے اپنی جگہ بنائی اور فلم انڈسٹری کو کئی لازوال گیت عطا کیے جو ان کی خدا داد صلاحیتوں کا بین ثبوت ہے،اخلاق احمد نے 1973 میں فلم پازیب کے لیے گانے گا کر اپنے گلوکاری کے فنی کیریر کا آغاز کیا۔
اخلاق احمد نے گلوکاری کا آغاز کراچی میں 1960 میں اسٹیج گلوکار کی حیثیت سے کیا، وہ دو دیگرلیجنڈ فنکاروں مسعود رانا اور ندیم کے ساتھ مشہور سنگنگ گروپ سے ایک رکن کے طور پر وابستہ تھے۔ انہوں نے فلم انڈسٹری میں اپنی جگہ بنانے کے لیے کئی سالوں تک جدوجہد کی، بالآخر 1973 میں پلے بیک گلوکار کے طور پر اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہوگئے،ان کا گایا ہوافلم بندش کا یہ گیت” سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جان من تم کو میں دے سکوں گا” اور1974میں فلم چاہت کے لیے ان کا یہ گیت “ساون آئے ساون جائے” نے انہیں پاکستان کی تیسری نسل کا مستند پلے بیک گلوکار بنادیا انہوں نے117 گانے گائے جو بہت سپرہٹ ثابت ہوئے۔ بھارتی گلوکار سونونگم نےاخلاق احمد کے کئی گیت گاکرانہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔اخلاق احمد خون کے کینسرایسی مہلک بیماری کا شکار ہوکر 4اگست 1999کولندن میں انتقال کرگئے ایک گلوکار کے طور پر ان کی آخری فلم نکاح (1998) تھی۔اخلاق احمد نے 1973-1998 سے تک 86 فلموں میں117 گانے گائے۔ انہوں نے پنجابی فلم میں صرف ایک گیت گایا تھا۔

اخلاق احمد، میرا بچپن کا دوست

تعبیر احمد آغائی

اخلاق میرا بچپن کا دوست تھا ۔میری دوستی بھی عجیب طرح سے ہوئی۔ماموں کو جیکب لائنزمیں سرکاری کوارٹر الاٹ ہوا تو ہم برنس روڈ کے مکان سے یہاں شفٹ ہو گئے۔ نظامی روڈ ایک بازار تھا اس میں ایک دربار ہوٹل تھا ۔اس ہوٹل کے عقب میں اخلاق کا گھر تھا۔ دربار ہوٹل میں گراموفون پہ گانوں کے ریکارڈ بجائے جاتے تھے۔ محمد رفیع کا مشہور گانا ”او دنیا کے رکھوالے، سن درد بھرے میرے نالے “ گراموفون پہ بج رہا ہے اور ایک کمسن ہم عمر لڑکا ہوٹل کے باہر بلند آواز سے اس گانے سے ہم آواز ہو کر تمام بندشوں، سر اور لے کے ساتھ انتہائی لگن سے گا رہا ہے۔ وہ دنیا مافیا سے بے خبر محمد رفیع کے گانے کے ساتھ سر سے سر اور آواز سے آواز ملا رہا ہے۔ یہ اخلاق کا معمول تھا ۔گھر میں صرف ریڈیو تھا۔ دربار ہوٹل کا مالک اس کی پسند کے گانے لگا کر خود بھی بہت خوش ہوتا تھا۔ یہاں سے میری دوستی کی ابتدا ہوئی۔
مرحوم اخلاق احمد نے ان ہی دنوں ریڈیو پاکستان میں غالب کی غزل” عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا“ ریکارڈ کرائی جو ہم دوستوں نے مقصود کے ہوٹل میں ریڈیو پہ سنی ۔اس دوران اخلاق نے اسٹیج پروگرام شروع کر دیے تھے۔ پھر ایوب خان کی حکومت کے دس سال مکمل ہونے کی خوشی میں پولو گراو¿نڈ میں ایک نمائش لگی جس میں معین اختر، جمال اکبر اور اخلاق احمد پر فارم کرتے تھے ،تیس روپے یومیہ ملتا تھا۔میں بھی اخلاق کے ساتھ ہوتا تھا۔ نظیر بیگ (ادکار ندیم ) اخلاق کی آواز سے بہت متاثر تھے۔ انہوںنے فلمی دنیا میں آنے میں اخلاق کی بہت مدد کی۔ اخلاق احمد نے ایک گانا” یہ مٹی کے پتلے ،یہ ٹوٹے کھلونے“ بہت ہی اچھا گایا تھا، ہم دیگر دوست بہت بار سن چکے تھے لیکن شاید وہ گانا نشر نہیں ہوا۔ اخلاق احمد شریف النفس ، بہت پیار کرنے والا دوست اور بہت نفیس انسان تھا۔ اللہ اس کی مغفرت فرمائے۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.