خالدہ حسین ، منفرد افسانہ نگار انتقال کر گئیں ادبی و سماجی حلقوں کا اظہار افسوس

خالدہ حسین18 جولائی 1938کو لاہور میں پیدا ہوئیں تھیں، 1954 میں لکھنے کا آغاز کیا، وجودی مسائل پرعلامتی انداز کی کہانیاں لکھنے کے لیے مشہور تھیں۔ ’کاغذی گھاٹ ‘ کے نام سے ایک ناول بھی تحریرکیا،اردو کی پہلی خاتون تجریدی افسانہ نگار کا اعزاز بھی انہی کے حصے میں آیا

شخصیات ویب نیوز

مرتب : ماجد علی سید

خالدہ حسین ایک ادبی محفل میں اپنا افسانہ سنا رہی ہیں

خالدہ حسین ایک ادبی محفل میں اپنا افسانہ سنا رہی ہیں

خالدہ حسین کی نماز جنازہ آج اسلام آباد میں  ہو گی 

خالدہ حسین کی نماز جنازہ دوپہر2 بجے ٹیپو مارکیٹ جی ایٹ اسلام آباد میں ادا کی جائے گی۔ان کے انتقال پرمختلف ادبی و سماجی شخصیات نے افسوس کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ادب کے لیے افسانہ نگار خالدہ حسین کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

خالدہ حسین کے افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں جن میں پہچان، دروازہ، مصروف عورت، ہیں خواب میں ہنوز،جینے کی پابندی اور میں یہاں ہوں کے نام شامل ہیں۔ ایک ناول ”کاغذی گھاٹ“ بھی تحریر کیا۔
حکومت پاکستان نے خالدہ حسین کو 14 اگست 2005 کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارگردگی عطا کیا تھا۔
خالدہ حسین کا اصل نام خالدہ اصغر ہے۔انھوں نے ابتدائی افسانے خالدہ اصغر اور خالدہ اقبال کے ناموں سے لکھے۔ان کے والد ڈاکٹر اے جی اصغر انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر تھے۔
خالدہ حسین کا شمار اردو کی ممتاز ترین فکشن نگاروں میں ہوتا ہے، اردو کی پہلی خاتون تجریدی افسانہ نگار کا اعزاز بھی انہی کے حصے میں آیا۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے خالدہ حسین پر پاکستانی ادب کے معمارکے تحت شائع ہونے والی کتاب ”خالدہ حسین:شخصیت اور فن“ شائع کی گئی جو محققین ، طالب علموںاور عام قاری کے لیے یکساں مفید ہے۔

اپنے لکھنے کے حوالے سے انھوں نے خود کہا کہ یہ بہت پرانی بات ہے۔ میں نے جب لکھنا شروع کیا تھا تو میں میٹرک میں تھی اور اس وقت میں نے جو چیزیں لکھیں وہ ایسی نہیں تھیں جنہیں میں سنجیدگی سے لیتی یا شائع کراتی لیکن یہ ہوتا تھا کہ اس وقت جو چھوٹے موٹے رسالے ہوتے تھے، ان میں بھیج دیتی تھی اور وہ شائع ہو جاتی تھیں لیکن انہیں میں نے سنجیدگی سے کبھی نہیں لیا۔ ادبی رسالوں میں میری پہلی تحریر1960 میں ادب لطیف میںشائع ہوئی۔ اسے لوگوں نے بہت پسند کیا اور بس وہیں سے لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
بچپن میں ہمارے گھر کا ماحول بھی بہت لکھنے پڑھنے کا اور ادبی تھا لہٰذا لکھنے کی یہ سب تحریک جو ہے وہ پڑھنے کی وجہ سے تھی، کتابیں پڑھتے تھے اور پھر ان پر ہر وقت بات ہوتی تھی۔ دوسرے اسکول میں جو میری سہیلیاں تھیں وہ بھی بہت ادبی ذوق رکھتی تھیں۔ ہم لوگ کتابیں لے کر پڑھا کرتے تھے، ایک دوسرے سے بھی لائبریری سے بھی۔ تو اس پڑھنے کے سلسلے میں ہی شوق پیدا ہو گیا کہ ہم بھی لکھیں۔ اس طرح یہ تحریک ہوئی اور جب میری پہلی تحریر چھپی تو ظاہر ہے مجھے بہت خوشی ہوئی تھی۔ بڑی اکسائٹمنٹ تھی اور بڑی حیرت بھی ہوئی تھی کہ اتنے بڑے رسالے میں شائع ہو گئی۔
ان کا پہلا مجموعہ1980 میں’پہچان‘ کے نام شائع ہوا سے۔ اب تک ان کے پانچ افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور ایک ناول ہے اور اس کے علاوہ بہت سے تنقیدی مضمون کا مجموعہ ہے، شاعرات پر بھی کام کیا ہے۔
خالدہ حسین اردو افسانے کا ایک اہم اور نمایاں نام ہیں جن کی کتابیں تو موجود ہیں مگر وہ خود منظر عام پر آنا پسند نہیں کرتیں، پنے افسانوں میں انھوں نے تبلیغ اور تحریک کی کیفیت سے گریز کیا ہے ،معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کا احساس بھی ان کے افسانوں میں موجود ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں میں معاشرتی مسائل اور تبدیلیوں کو تخلیقی انداز میں بیان کیا ہے۔
خالدہ حسین کی ایک پہچان ان کا اسلوب بھی ہے۔ ساٹھ کی دھائی کے جدت پسندوں میں خالدہ حسین وہ واحد افسانہ نگار ہیں جو باقاعدگی سے اور تخلیقی جواز کے ساتھ افسانے لکھ رہی ہیں۔ خالدہ حسین کے افسانوں میں پیغام کی اندورونی لہر موجود ہوتی ہے جو خود بہ خود قاری تک پہنچ جاتی ہے۔وہ اپنے پیغام کو فطری انداز میں پیش کرنے کا گر جانتی ہیں۔

٭٭٭

اردو کی پہلی خاتون تجریدی افسانہ نگار کا اعزاز بھی خالدہ حسین کے حصے میں آیا

اردو کی پہلی خاتون تجریدی افسانہ نگار کا اعزاز بھی خالدہ حسین کے حصے میں آیا

Facebook Comments

POST A COMMENT.