شمس الرحمن فاروقی طویل علالت کے بعد 85 سال کی عمر میں انتقال کرگئے

شمس الرحمن فاروقی اردو کے معروف شاعر ، ناول نگار اور نقاد تھے،وہ کافی عرصے سے علیل تھے اور گزشتہ ماہ ہی کورونا وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے تھے
شمس الرحمن فاروقی30 ستمبر 1935 کو اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے الہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم کیا تھا
ان کا انتقال 25 دسمبر کو الہ آباد میں ان کی رہائش گاہ میں ہوا
انہوں نے 3 درجن سے زائد کتابیں، سیکڑوں مقالے اور مضامین تحریر کیے، ان کا پہلا ناول ”کئی چاند تھے سر آسماں “ 2006 میں شائع ہوا جو بہت زیادہ مقبول ہوا

شخصیات ویب نیوز
رپورٹ : سلیم آذر
جمعہ 9جمادی الاول 1442ھ 25دسمبر 2020

اردو کے معروف شاعر ، ناول نگار اور نقاد شمس الرحمن فاروقی 85 سال کی عمر میں انتقال کرگئے،وہ کافی عرصے سے علیل تھے اور گزشتہ ماہ ہی کورونا وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے تھے
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق شمس الرحمن فاروقی کے بھتیجے اور مصنف محمود فاروقی نے بتایا ‘وہ الہ آباد میں اپنے گھر جانے پر اصرار کررہے تھے، ہم وہاں آج صبح ہی پہنچے اور وہاں پہنچنے کے آدھے گھنٹے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔
بھارت کا اعلیٰ سول اعزاز پدما شری حاصل کرنے والے شاعر کو کورونا وائرس کو شکست دینے کے بعد 23 نومبر کو دہلی کے ایک ہسپتال سے ڈسچارج کیا گیا تھا۔
محمود فاروقی کے مطابق کورونا کے علاج کے دوران اسٹرائیڈز کے استعمال سے مختلف مسائل جیسے فنگل انفیکشن مائیکوسز کا سامنا ہوا تھا، جس سے ان کی حالت زیادہ بدتر ہوگئی تھی۔
شمس الرحمن فاروقی کی نماز جنازہ اور تدفین الہ آباد کے ایک مقامی قبرستان میں ہوئی۔
شمس الرحمن فاروقی کو ان کی زندگی میں جو شہرت اور مقبولیت ملی وہ بہت کم افراد کو حاصل ہوتی ہے۔
شمس الرحمن فاروقی کی پیدائش 30 ستمبر 1935 کو اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں ہوئی اور الہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم کی ڈگری حاصل کی۔
وہ انڈین پوسٹل سروسز میں ملازمت کی اور یو پی کے چیف پوسٹ ماسٹر جنرل کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔
انہوں نے تنقید نگاری سے اردو ادب میں اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور الہ آباد سے ادبی ماہنامے ‘شب خون’ کا اجرا کیا اور 40 سال تک اس کے مدیر رہے۔
مقبول شاعر میر تقی میر کے بارے میں ان کی کتاب ”شعر شعور انگیز“ 4 جلدوں میں شائع ہوئی اور اس پر انہیں 1996 میں سر وتی سمان ادبی ایوارڈ بھی ملا۔ اس کے علاوہ انھیں متعدد اعزاز و اکرام مل چکے ہیں جن میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ (برائے:تنقیدی افکار) (1986) اور پدم شری اعزاز برائے ادب و تعلیم اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اعزازی ڈگری ڈی لٹ بھی شامل ہے۔

انہوں نے 3 درجن سے زائد کتابیں، سیکڑوں مقالے اور مضامین تحریر کیے جبکہ ان کا پہلا ناول ”کئی چاند تھے سر آسماں“ 2006 میں شائع ہوا تھا جو بہت زیادہ مقبول ہوا۔
اس ناول کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔
اس کے علاوہ تفہیم غالب ، تعبیر کی شرح ، انداز گفتگو کیا ہے ، اردو کا ابتدائی زمانہ ، درس بلاغت ، اردو غزل ، اشارات و نفی ، تنقیدی افکار ، خورشید کا سامان سفر، لغات روزہ مرہ اور تضمین اللغات شمس الرحمان فاروقی کی مشہور ترین تخلیقات میں شامل ہیں۔
اردو ادب کے مشہور نقاد اور محقق شمس الرحمٰن فاروقی نے تنقید نگاری سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ انہوں نے الہ آباد سے ’شب خون‘ کا اجرا کیا جسے جدیدیت کا پیش رو قرار دیا گیا۔ اس رسالے نے اردو مصنفین کی دو نسلوں کی رہنمائی کی۔ فاروقی صاحب نے شاعری کی، پھر لغت نگاری اور تحقیق کی طرف مائل ہو گئے۔ اس کے بعد افسانے لکھنے کا شوق چرایا تو “شب خون“ میں فرضی ناموں سے یکے بعد دیگرے کئی افسانے لکھے جنہیں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ انہوں نے ایک ناول لکھا، ”کئی چاند تھے سرِ آسماں “ جسے عوام و خواص نے بہت سراہا۔ اس کے علاوہ انہیں عام طور پر اردو دنیا کے اہم ترین عروضیوں میں سے ایک گردانا جاتا ہے۔ غرض یہ اردو ادب کی تاریخ میں شمس الرحمٰن فاروقی جیسی کثیر پہلو شخصیت کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
انہوں نے کوئی چالیس سال تک اردو کے مشہور و معروف ادبی ماہنامہ “شب خون“ کی ادارت کی اور اس کے ذریعہ اردو میں ادب کے متعلق نئے خیالات اور برصغیر اور دوسرے ممالک کے اعلیٰ ادب کی ترویج کی۔ شمس الرحمن فاروقی نے اردو اور انگریزی میں کئی اہم کتابیں لکھی ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی نے تنقید، شاعری، فکشن، لغت نگاری، داستان، عروض، ترجمہ، یعنی ادب کے ہر میدان میں تاریخی اہمیت کے کارنامے انجام دیے ہیں۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.