جوش ملیح آبادی کی پوتی تبسم اخلاق ملیح آبادی دادا کی شاعری وعلمی ورثے کی امین

جوش ملیح آبادی برصغیر پاک وہند میں اردوزبان کے عظیم شاعر ہی نہیں اعلیٰ پائے کے نثر نگار بھی تھے۔  ان  کی پوتی، تبسم اخلاق ملیح آبادی جو عرف عام میں تبسم آفریدی کہلاتی ہیں، خود  بھی متنوع خوبیوں کی مالک ہیں۔ تبسم آفریدی اپنے دادا حضرت جوش ملیح آبادی  کی شاعری وعلمی ورثے کی امین ہیں اور نہ صرف خود بھی  اچھی شاعرہ ہیں بلکہ فن موسیقی سے بھی خاص شغف رکھتی ہیں۔ 

شخصیات ویب نیوز 

12فروری 2022 ہفتہ 10رجب المرجب 1443ھ

گفتگو : سلیم آذر

تبسم آفریدی یا تبسم اخلاق ملیح آبادی تبسم تخلص کرتی ہیں وہ، 19 مئی 1964 میں کراچی میں پیدا ہوئیں

تبسم آفریدی یا تبسم اخلاق ملیح آبادی تبسم تخلص کرتی ہیں وہ، 19 مئی 1964 میں کراچی میں پیدا ہوئیں

جوش ملیح آبادی برصغیر پاک وہند میں اردوزبان کے عظیم شاعر اور اعلیٰ پائے کے نثر نگار ہیں، ان کی پوتی تبسم اخلاق ملیح آبادی جو اب تبسم آفریدی کہلاتی ہیں خود بھی ایک اچھی شاعرہ ہیں، تبسم اخلاق  بھی متنوع خوبیوں کی مالک ہیں۔ تبسم آفریدی اپنے دادا حضرت جوش ملیح آبادی  کی شاعری وعلمی ورثے کی امین ہیں اور نہ صرف خود بھی  اچھی شاعرہ ہیں بلکہ فن موسیقی سے بھی خاص شغف رکھتی ہیں

تبسم آفریدی یا تبسم اخلاق ملیح آبادی تبسم تخلص کرتی ہیں وہ، 19 مئی 1964 میں کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ان کی رہائش ناظم آباد میں تھی وہیں ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوا، انھوں نے ابتدائی تعلیم  چلڈرن ایجوکیشنل سینٹر  ناظم آباد نمبر 4  سے حاصل کی  مگر جلد ہی ان کے والدین اسلام آباد منتقل ہوگئے۔ بقیہ تعلیم انھوں نے اسلام آباد میں حاصل کی۔ پہلے ماڈل اسکول سیکٹر ایف سکس سے سیکنڈری تعلیم مکمل کرنے کے بعد فیڈرل گورنمنٹ کالج برائے خواتین  ایف سیون سے اردو ادب  کے ساتھ گریجویشن کیا    

تبسم کہتی ہیں کہ شاعری کا آغاز بچپن ہی سے ہوگیا تھا۔ بارہ برس کی عمر میں پہلی غزل کہی تھی اور سب سے پہلے صبح ساڑھے تین چار بجے بابا یعنی حضرت جوش  کے حضور پیش کردی تھی۔ انھوں نے پڑھ کر بہت خوشی کا اظہار کیا تھا۔ایک دو شعر ملاحظہ ہوں

سدا  ہم  محبت میں روتے  رہے

غموں کو  خوشی  میں  سموتے رہے

لبوں پر تبسم تھا آنکھیں تھیں نم

ہر اک درد کو ہم یوں ڈھوتے رہے.

بابا نے  میرے کچھ اشعار کی اصلاح بھی کی تھی،  اپنے نام کی نسبت سے میں لفظ تبسم کو مونث سمجھتی تھی  سو میں نے دوسرا شعر کچھ یوں لکھا تھا 

لبوں پر تبسم تھی آنکھیں تھیں نم.

تو جوش صاحب نے بتایا تھا کہ لفظ‘تبسم ’ مذکر ہے سو مصرعے میں سے ‘تھی ’ کے بجائے ‘تھا’  کردیا گیا۔ یہ تھی میری شاعری کی ابتدا۔

تبسم کہتی ہیں بارہ برس کی عمر میں پہلی غزل کہی تھی اور سب سے پہلے صبح ساڑھے تین چار بجے بابا یعنی حضرت جوش کے حضور پیش کردی تھی

تبسم کہتی ہیں بارہ برس کی عمر میں پہلی غزل کہی  اور سب سے پہلے صبح ہی بابا یعنی حضرت جوش کے حضور پیش کردی تھی

 شاعری میں میری رہنمائی میرے دادا حضرت جوش ملیح آبادی نے ہی کی۔  میرے دادا ہی حقیقی طور پر میرے استاد ہیں  ابتدائی دور یعنی اسکول سے کالج کے آغاز تک انھوں نے ہی مجھے شاعری کے رموز سکھائے، وہ جب تک حیات رہے میں ان ہی سے اصلاح لیتی رہی۔  ان کے بہت جلد انتقال کر جانے کی وجہ سے  یہ سلسلہ منقطع ہوگیا  لیکن ان کی صحبت نے مجھے شعر و شاعری کے رموز سے بہت آگاہی دی، اٹھتے بیٹھتے بات چیت کے دوران ان کی نگہداری نے مجھے بہت مستفید کیا، 

   انسان زندگی بھر سیکھنے کے عمل سے ہر روز گزرتا ہے  میں نے بھی دادا حضور جوش صاحب کے بعد اپنے وقت کے معروف شعراء سے  کلام پڑھتے ہوئے ہمیشہ مشورہ طلب کیا ہے، میں ان سب کی بہت عزت کرتی ہوں۔

 آپ کو یقیناً علم ہوگا کہ 1982 یا  شاید 1983  میں ادارہ ادب و ثقافت کے توسط سے میری سرگرمیاں شروع ہوچکی تھیں مگر میں اس زمانے میں مشاعروں  میں باقاعدہ  شرکت نہیں کرتی تھی، آپ مجھے 1990 کی دہائی میں شمار کرسکتے ہیں۔

اسلام آباد راولپنڈی کے ادبی حلقوں میں اس وقت پروفیسر کرم حیدری، ضمیر جعفری، رشید نثار  جمیل ملک،  نجمی صدیقی افضل پرویز  نیساں اکبر  آبادی منشا یاد، مظہرالاسلام  ، شمیم اکرام الحق  نگہت سلیم  سمیت بے شمار ہم عصر  شعرائے کرام جنمی  وفا چشتی،   انجم خلیق غضنفر ہاشمی   علی محمد فرشی  ناصر عقیل خلیق الرحمان  جنید آذر ، علی یاسر مرحوم  کے علاوہ دیگر متعدد ادیب و شعرا  شامل تھے بہت سے نام میں بھول گئی ،یہ تمام لوگ مشاعروں  اور ادبی محافل کی مہکتی یادوں میں شامل ہیں۔

میں کالج میں تعلیم کے دوران ہی اپنی ادبی سرگرمیوں کا آغاز کرچکی تھی۔ ایک تنظیم ‘‘ادارہ ادب و ثقافت،، کی سینئیر نائب صدر رہی ۔

مولانا کوثر نیازی مرحوم نے 1987 میں حضرت جوش ملیح آبادی کے انتقال کے بعد ان کی یاد میں جوش میمورئل کمیٹی بنائی تھی، میں مولانا کوثرنیازی مرحوم ہی  کے ایما پر باقاعدہ انتخابات کے ذریعے جوش میمورئل کمیٹی کی  چئر پرسن بنادی گئی۔

میں گزشتہ تیس برس سے اسی جوش میمورئل کمیٹی کی  چئر پرسن ہوں اور جوش میمورئل کمیٹی کے تحت  اسلام آباد میں حضرت جوش کے حوالے سے تقریبات منقعد کرواتی ہوں اور جوش صاحب کے افکار  جو حریت و انسان دوستی پر مبنی ہیں، انھیں  ا عوام الناس تک پہنچانے کی کوشش کرتی ہوں۔

میں نظم غزل  نعت قطعات سلام  منقبت کے علاوہ نثر بھی لکھتی رہتی ہوں۔ بے شمار مضامین اخبادات و رسائل میں شایع ہوتے رہے ہیں۔آزاد نظم پر بھی طبع آزمائی کرتی ہوں البتہ نظم مسلسل یا غزل مسلسل لکھ کر طمانیت محسوس کرتی ہوں۔

مجھے شاعری کے علاوہ  افسانے اور ادیبوں اور دیگر مشاہیر کی سوانح حیات پڑھنا بہت پسند ہے۔

میرا مجموعہء کلام تا حال شائع نہیں ہوا جب کہ اسے تیار ہوئے کافی مدت ہوگئی ہے البتہ ایک نثری کتاب  تکمیل کے قریب  ہے، انشااللہ جلد شائع ہوجائے گی۔

ان کے  نمائندہ کلام کے طور پر ایک غزل پیش خدمت ہیں۔

معتبر ہیں. نظر. میں . دنیا کی جب تلک ہم تیری نظر میں ہیں

معتبر ہیں نظر میں  دنیا کی
جب تلک ہم تیری نظر میں ہیں

غزل

           

گومگو  میں، اگر  مگر   میں  ہیں

ہم ابھی دست کوزہ  گر میں ہیں

 

کوچ  کر جائیں  یا  ٹھہر  جائیں

ہم   گرفتار   دل  اثر    میں  ہیں

 

معتبر  ہیں. نظر. میں . دنیا   کی

جب  تلک ہم  تیری نظر میں ہیں

 

اور  لوگوں  میں  کیا بیان  کریں

مسئلے  جو  ہمارے گھر  میں ہیں

 

اس سے کہہ  دو  کہ  انتظار کرے

ہم  ابھی  حالت  سفر  میں  ہیں

Facebook Comments

POST A COMMENT.