شمسہ گل ، وادی مہران کی خوب صورت شاعرہ نے غزل کو جدید انداز فکرسے آشنا کیا ہے

شمسہ گل سندھ دھرتی کی خوب صورت شاعرہ  فطرت کے حسن کی دلدادہ ہیں

حیدرآباد سندھ کی شمسہ صرف شاعرہ ہی نہیں بہترین مصور بھی ہیں

شمسہ گل ہیومین رائٹس فائونڈیشن میں سندھ گروپ کی صدر ہیں اور ایک ادارے سے بطور ایونٹ مینجر منسلک ہیں

 شخصیات ویب نیوز

14فروری 2022 پیر 12 رجب المرجب 1443ھ

تحریر : سلیم آذر

شمسہ گل ،  وادی مہران کے تاریخی شہرحیدرآبا کی معروف شاعرہ ہیں ۔ وہ فطرت کے حسن کی دلدادہ۔ بہترین مصور ہیں اور بھرپور عملی زندگی گزار رہی ہیں

شمسہ گل حیدرآباد کی خوبصورت شاعرہ

شمسہ گل حیدرآباد کی خوبصورت شاعرہ

گزشتہ دنوں وہ ریڈیوپاکستان حیدرآباد کے پروگرام سخنور میں بطور مہمان شریک ہوئیں۔  

ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے پروگرام سخنور کی میزبان شائستہ خان وادی مہران کی معروف شاعرہ شمسہ گل کے بارے میں کہتی ہیں کہ شمسہ گل نے جدید غزل کے مزاج کو بہت خوب صورتی کے ساتھ بیان کیا ہے۔

ان کی شاعری  میں اعتماد کے نئے پہلو اور انوکھے رنگ بھی شامل ہیں۔ انھوں نے غزل کواپنے اعتماد سے  ایک نئی جدت دی ہے ، اگراعتماد نہ ہو تو زندگی کی تفہیم مشکل ہوجاتی ہے۔ کمال وتخلیق کے اظہار میں انھوں نے اس حقیقت کو جانچا اور پرکھا ہے کہ زندگی درحقیقت لمحہ ازل سے لمحہ ابد تک حسرتوں سے گھری ہوئی ہے۔

  ان کی شاعری میں فکری ارتقائی عمل نے جہان افکارنو کو تازہ کیا اور نئی جدت سے حسرتوں کو دھکیل دیا ہے، لگتا ہے کہ نیرنگی خیال کے شگوفے ایک دم سے بس بڑی تیزی کے کے ساتھ پھوٹنے لگتے ہیں۔

شمسہ گل نے جہاں بھرپور اظہار کے لیے غزل کا انتخاب کیاہے، وہاں وہ غزل کو بھی جدید انداز فکر سے آشنا کرتی نظر آتی ہیں۔

شمسہ گل اپنے تخلص گل کو اپنی شاعری میں بھرپور اور بہت خوبی کے ساتھ استعمال کرتی ہیں، جیسے ان کا ایک شعر ہے جس میں انھوں نے تخلص بہت بامعنی طور پراستعمال کیا ہے

میں گل ہو کر بکھر جائوں گی ایک دن

کلی کی ایک یہی تو بے کلی ہے

شمسہ گل حیدرآباد سندھ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق حیدرآباد کے نہایت علمی و ادبی گھرانے سے ہے۔ اسی نسبت سے علم حاصل کرنے کا شوق انھیں ورثے میں ملا ہے۔  

شمسہ گل نے علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بھرپورعملی زندگی بھی گزاری ہے۔ انھیں علم حاصل کرنے  کا ہی نہیں بچوں کو تعلیم دینے کا بھی بہت شوق ہے، اس مقصد کے لیے  وہ حیدرآباد کے ایک معروف  اسکول سے بطور ٹیچر منسلک بھی رہی ہیں۔

شمسہ گل صرف شاعرہ ہی نہیں ایک بہترین مصور بھی ہیں۔ ان دنوں وہ ایک ادارے میں ایونٹ مینجر ہیں جب کہ  ہیومن رائٹس فائونڈیشن )  ایچ آر یو ایف  میں سندھ ویمن گروپ کی  صدرکے فرائض بھی سرانجام دے رہی ہیں۔  HRUF(

شائستہ خان کے سوال کہ شاعری کا شوق کیسے ہوا ، کے جواب میں شمسہ گل کہتی ہیں کہ گھر میں علمی وادبی ماحول ایسا تھا کہ میں شاعری کی طرف مائل ہوگئی۔

ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے پروگرام سخنور کی میزبان شائستہ خان معروف شاعرہ شمسہ گل سے گفتگو کررہی ہیں

ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے پروگرام سخنور کی میزبان شائستہ خان معروف شاعرہ شمسہ گل سے گفتگو کررہی ہیں

دوسری اہم بات یہ کہ میں جمالیاتی حسن کی دلدادہ تھی۔ فطرت کے  حسن کی کشش مجھے اپنی طرف کھنچتی تھی، سمندر، پھول، خوشبو، چاند، بادل ، بارش بلند وبالا پہاڑ سب چیزوں میں مجھے حسن نظرآتا اور میں ان کے سحر میں گم ہوجاتی تھی۔ یہ چیزیں مجھے اپنی طرف مائل کرتیں ، ان کا سحر مجھے اپنے اندر سمیٹ لیتا تھا۔

مجھے چونکہ لکھنے کا شروع ہی سے شوق تھا، تو میں اپنے شوق اور ان چیزوں کے حسن کا اظہار لکھ کریا بول کر کیا کرتی تھی۔

شمسہ گل ہیومین رائٹس فائونڈیشن میں سندھ گروپ کی صدر ہیں اور ایک ادارے سے بطور ایونٹ مینجر منسلک ہیں

شمسہ گل ہیومین رائٹس فائونڈیشن میں سندھ گروپ کی صدر ہیں اور ایک ادارے سے بطور ایونٹ مینجر منسلک ہیں

گھر کے علاوہ اسکول کا ماحول بھی ایسا ہی ملا کہ لکھنے اور بولنے  کی صلاحیت کو جلا ملی۔ جب میں چھوٹی تھی تو ریڈیو پاکستان حیدرآباد میں کل پاکستان بیت بازی کا مقابلہ ہوا جس میں پاکستان بھر سے اسکولوں نے شرکت کی تھی۔ میں بھی اپنے اسکول کی طرف سے اس مقابلے میں شریک تھی۔ ہمارے اسکول نے فائنل مقابلہ جیتا اور ٹرافی حاصل کی۔  اس کامیابی نے میرے شوق کو مزید جلا دی۔

شمسہ گل حیدرآباد سندھ کی خوب صورت شاعرہ فطرت کے حسن کی دلدادہ اور بہترین مصور بھی ہیں

شمسہ گل حیدرآباد سندھ کی خوب صورت شاعرہ فطرت کے حسن کی دلدادہ اور بہترین مصور بھی ہیں

شائستہ خان نے سوال کیا کہ آپ نے اب تک کتنے مشاعروں میں حصہ لیا، کیا حیدرآباد میں ہی مشاعروں میں شرکت کی یا شہر سے باہر بھی مشاعروں مں حصہ لیا ہے ، تو اس کے جواب میں شمسہ گل کہتی ہیں میں نے سندھ کے کئی شہروں میں جا کر مشاعروں میں شرکت کی ہے لیکن حیدرآباد میں مشاعرے زیادہ پڑھے ہیں

تمھارے ساتھ بھی دنیا یہی تھی تمھارے بعد بھی دنیا یہی ہے

تمھارے ساتھ بھی دنیا یہی تھی
تمھارے بعد بھی دنیا یہی ہے

حیدرآباد میں ایک ادبی تنظیم  بزم فروغ ادب کی میں نائب صدر ہوں، اس تنظیم کے پروگرامز میں شرکت کرنا مجھے اچھا لگتا ہے، یہاں میں زیادہ شریک ہوتی ہوں کیونکہ  بزم فروغ ادب سے مجھے اپنا پن زیادہ محسوس ہوتا ہے۔   پریس کلب میں بھی مشاعرے ہوتے تھے تو وہاں بھی جاتی تھی، اس سے پہلے حیدرآباد چیمبر آف کامرس کی سرپرستی میں بھی مشاعرے ہوا کرتے تھے تو میں وہاں بھی شریک ہوا کرتی تھی۔

مجموعہ کلام کی اشاعت کے حوالے سے شمسہ گل کہتی ہیں کہ میرا مجموعہ کلام  تیاری کے مراحل میں ہے، انشااللہ  جلد شائع ہوکر قارئین کے ہاتھوں میں ہوگا۔

اپنا کلام سنانے کی شائستہ خان کی فرمائش پر شمسہ گل نے کہا کہ

ریڈیوپاکستان حیدرآباد  کے سامعین کواپنا کلام سنا کر مجھے بہت خوشی ہوگی، لوگوں کو اپنا کلام سنانا مجھے اچھا لگے گا ، پھر انھوں نے درج ذیل اپنا کلام سنایا۔

تمھارا ہجر ہے اور شاعری ہے

اندھیرے میں یہی ایک روشنی ہے

نہیں ہے دشمن جاں کوئی اپنا

غم دوراں سے جب سے دوستی ہے

خیال خاطر احباب کیسا

اب اپنی زندگی ہی زندگی ہے

تمھاری یاد میں کھو جائیں گے ہم

محبت میں یہی تو ایک کمی ہے

تمھارے ساتھ بھی دنیا یہی تھی

تمھارے بعد  بھی دنیا یہی ہے

کسی کی دید کا لمحہ ہے کافی ہے

یہ عمر رائیگاں توبس یونہی ہے

میں گل ہو کر بکھر جائوں گی ایک دن

کلی کی ایک یہی تو بے کلی ہے

***

تم غور سے دیکھ لو آج مجھ کو کل یہ سراپا بھی ڈھلنا ہے

تم غور سے دیکھ لو آج مجھ کو
کل یہ سراپا بھی ڈھلنا ہے

تم یہ کہتے ہو میرے دست وگریباں ہوں گے

اپنی نعمت پہ سخی مجھ سے پریشاں ہوں گے

ہے یقین مجھ کو فقط مجھ پر مہرباں ہوں گے

کوئی پردہ ہے بھلا عاصی و غفار کے بیچ

 تجھ کو معلوم نہیں مجھ کو ستانے والے

فاصلے کچھ بھی نہیں میرے میرے غم خوار کے بیچ

تم سے شکوہ نہیں مجھ کو اے میرے تیرکشو

ان سے اچھے ہیں جو چنواتے ہیں دیوار کے بیچ

اگر عقل مند ہو کربل سے سبق سیکھ لو

شیرزخمی بھی وزن رکھتا ہے للکار کے بیچ

شام تطہیر ذرا مجھ پہ نگاہ تو کیجیے

تم سوا کون ہے شمسہ کا بھرے سنسار کے بیچ

***

کیا پتا تھا ، خون کے آنسو رلائیں گے مجھے اس کہانی میں کچھ ایسے باب بھی آ جائیں گے

کیا پتا تھا ، خون کے آنسو رلائیں گے مجھے
اس کہانی میں کچھ ایسے باب بھی آ جائیں گے

یہاں اجیرن ہے زندگی وہاں عذاب زندگی

دونوں سے گزرنا ہے قدم سوچ کے اٹھانا ہے

پھولوں کی مہک ہے اگر تو کانٹوں کی چھبن بھی

دونوں کا ساتھ ہوگا چمن میں اگر رہنا ہے

بہاروں کا موسم رنگین ہے مگر

ہرے پتوں کو خزاں بھی ہونا ہے

بہت احتیاط محبت کے دنوں میں

جدا بھی وقت نے ہی کرنا ہے

تم غور سے دیکھ لو آج مجھ کو

کل یہ سراپا بھی ڈھلنا ہے

وہ لمحے نہ گنوائو انا میں ہے

جن کو پھر یاد بھی کرنا ہے

بڑے اصرار سے بلایا ہے گل کو

ہمیں عزت سے بھی پھر رخصت بھی کرناہے

***

اگر عقل مند ہو کربل سے سبق سیکھ لو شیرزخمی بھی وزن رکھتا ہے للکار کے بیچ

اگر عقل مند ہو کربل سے سبق سیکھ لو
شیرزخمی بھی وزن رکھتا ہے للکار کے بیچ

رفتہ رفتہ منظر شب تاب بھی آ جائیں گے

نیند تو آجائے پہلے خواب بھی آ جائیں گے

کیا پتا تھا ، خون کے آنسو رلائیں گے مجھے

اس کہانی میں کچھ ایسے باب بھی آ جائیں گے

خشک آنکھوں نے توشاید یہ کبھی سوچا نہ تھا

اک دن صحرائوں میں سیلاب بھی آ جائیں گے

حوصلے یونہی اگر بڑھتے گئے تو دیکھنا

ساحلوں تک اک دن گرداب بھی آ جائیں گے

بس ذرا ملنے تو دو میری تباہی کی خبر

دل دکھانے کے لیے احباب بھی آ جائیں گے

آپ کی اس بزم میں گل نئی ہے شاد یہے

آتے آتے بزم کے آداب بھی آ جائیں گے

***

کسی کی دید کا لمحہ ہے کافی ہے۔۔۔ یہ عمر رائیگاں توبس یونہی ہے

کسی کی دید کا لمحہ ہے کافی ہے۔۔۔ یہ عمر رائیگاں توبس یونہی ہے

بہاروں کا موسم رنگین ہے مگر۔۔۔ ہرے پتوں کو خزاں بھی ہونا ہے

بہاروں کا موسم رنگین ہے مگر۔۔۔ ہرے پتوں کو خزاں بھی ہونا ہےه

Facebook Comments

POST A COMMENT.