چمنِ لسان میں زبان اردو کے حسن وجمال کا انوکھا امتزاج اور رنگین و مہکتے حروف کا دل پراثر

چمنِ لسان میں زبان اردو کے حسن وجمال کا انوکھا امتزاج اور رنگین و مہکتے حروف کا دل پراثر

چمن لسان میں زبان اُردو کے رنگین و مہکتے حروف پر ایک نظر

چمنِ لسان زبان اردو کا ہر حرف اپنا آدھا وجود قربان کرکے دوسرے حرف کو زندہ کرتا اور نیا لفظ تخلیق کرتا ہے
اپنے وجود کے ایثار کے ساتھ حروف کو جوڑنے کی مثال صرف میری زبان اردو میں موجود ہے

جس زبان کا سمعی اور بصری حسن اتناپرلطف ہوگا تواس زبان کی فہم اوراس کا استعمال آپ کے لیے کس قدر اثر انگیز اور دل پذیر ہوگا؟

چمنِ لسان میں اردو کی فہم اور اس کا استعمال فکر و جمال کے وہ بند دروازے کھولے گا جہاں اردو ایک نادر گلاب کی طرح مہکتی اور خوشبو لٹاتی اپنی جانب توجہ دینے والوں کے دل میں اترنے کو تیار ہے

زبان اردو میں حسن و جمال اور روشنی و استقامت کا ایک ایسا انوکھا امتزاج جو دنیا کی بہت کم زبانوں کے حروف میں ہے

تحریر: عشرت معین سیما

اردو کا ہر حرف اپنا آدھا وجود قربان کرکے دوسرے حرف کو زندہ کرتا اور نیا لفظ تخلیق کرتا ہے اپنے وجود کے ایثار کے ساتھ حروف کو جوڑنے کی مثال صرف میری زبان اردو میں موجود ہے، عشرت معین سیما

اردو کا ہر حرف اپنا آدھا وجود قربان کرکے دوسرے حرف کو زندہ کرتا اور نیا لفظ تخلیق کرتا ہے اپنے وجود کے ایثار کے ساتھ حروف کو جوڑنے کی مثال صرف میری زبان اردو میں موجود ہے، عشرت معین سیما

اردو زبان کی خوبصورتی صرف اس کے الفاظ و جملوں ہی میں نہیں بلکہ اس کے حروف میں چمک دمک بھی کہیں قمری نور اور کہیں شمسی جلال کی جھلک موجود ہے۔ اس کو سننے والے لہجے کے اتار چڑھائو اور لفظوں کی نرمی و سختی تو اپنی حسِ سماعت میں محسوس کر سکتے ہیں لیکنچمنِ لسان اس زبان کے حروفِ تہجی کو حس بصارت میں جگہ دینے کے بعد اس کے حسن سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ جس زبان کا سمعی اور بصری حسن اتنا پر لطف ہوگا تو اس زبان کی فہم اور اس کا استعمال آپ کے لیے کس قدر اثر انگیز اور دل پذیر ہوگا۔

چمنِ لسان میں زبان اردو کے حسن وجمال کا انوکھا امتزاج رنگین و مہکتے حروف کا دل پرگہرا اثر کرتا ہے

چمنِ لسان میں زبان اردو کے حسن وجمال کا انوکھا امتزاج رنگین و مہکتے حروف کا دل پرگہرا اثر کرتا ہے

اس زبان کی فہم اور اس کا استعمال فکر و جمال کے وہ بند دروازے کھولے گا جہاں چمنِ لسان میں اردو ایک نادر گلاب کی طرح مہکتی اور خوشبو لٹاتی اپنی جانب توجہ دینے والوں کے دل میں اترنے کو تیار ہے۔ جی ہاں ! یہ میری مادری زبان اردو ہے۔ جس کے ساتھ میں نے ابلاغ کا پہلا رشتہ قائم کیا۔ میری آنکھوں سے میری زبان کے حروف دیکھیں تو آپ کو وہاں بھی حسن و جمال اور روشنی و استقامت کا ایک ایسا امتزاج دکھائی دے گا جو دنیا کی بہت کم زبانوں کے حروف میں ہے۔
چمنِ لسان اردو زبان کے تمام حروف یا تو عمودی ہیں یا افقی…. ایک حرف جب تک دوسرے حرف میں پیوست نہ ہو وہ بے معنی رہتا ہے۔ ہر حرف اپنا آدھا وجود قربان کرکے دوسرے حرف کو زندہ کرتا اور نیا لفظ تخلیق کرتا ہے۔ اپنے وجود کے ایثار کے ساتھ حروف کو جوڑنے کی مثال صرف میری زبان اردو میں موجود ہے۔ یہی وہ حروف کا حسیاتی پہلو ہے جو اس کے لسانی و سماجی زاویے کی ایک استعاراتی جھلک ہے….

 عشرت معین سیما

عشرت معین سیما

اردو زبان کے حروف کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو اپنی وحدانیت کو نمایاں کرنے کے لیے اپنے گروہ کے دوسرے حرف میں ضم نہیں ہوتا اور نہ ان کے لیے اپنا ایک حصہ قربان کرتا ہے۔ لیکن یہی گروہ جب ’’تشکیل‘‘ یعنی اعراب کے ساتھ جڑتا ہے تو اعراب کو فوقیت دے کر اپنی وحدانیت کو اس اعراب میں ضم کر لیتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے حرف اوّل ”الف “ ( ا) صرف ایک سیدھی لکیر ہے جو روشنی کی کرن اور زبان کی استقامت کی علامت ہے۔ الف بھی اسی خاص گروہ حروف سے تعلق رکھتا ہے جو اپنی وحدانیت کے اظہار کے لیے مخصوص ہیں۔ کسی الف سے شروع ہونے والے لفظ یا کوئی بھی دوسرا حرف جب اس سے ملتا ہے تو وہ اپنی وحدانیت کوقائم رکھتے ہوئے دوسرے حرف کو سہارا دیتا ہے لیکن اس میں ضم نہیں ہوتا جیسے اس زبان کے دوسرے حروف۔

معروف شاعر، نثر نگار افسانہ نگار، سفرنامہ نگار عشرت معین سیما جرمنی میں اردو کے فروغ میں کوشاں ہیں

معروف شاعر، نثر نگار افسانہ نگار، سفرنامہ نگار عشرت معین سیما جرمنی میں اردو کے فروغ میں کوشاں ہیں

اگر اردو کے حروف تہجی کو غور سے دیکھا جائے تو ہر حرف اوپر کی جانب جاکر کھلتا ہے جبکہ آپ دیگر زبانوں کے حروف کو دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ دیگر زبانوں کے حروف کی اشکال ایسی نہیں ہیں۔ چمنِ لسان اردو کے حروف عمودی اور افقی بنیاد پر ہیں جو اس بات کے بھی مظہر ہیں کہ یہ حروف ایک دوسرے کو سہارا دیکر ایک لفظ تشکیل دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جتنے بھی ثقیل حروف ہیں وہ عمودی ہیں اور جتنے بھی ہلکے حروف ہیں وہ افقی ، یہی حروف کا امتزاج جب کوئی لفظ تعمیر کرتا ہے تو ہلکے حروف کا امتزاج لفظوں کے پھول کھلاتا محسوس ہوتا ہے یا روشنی کی عکاسی کرتا ہوا لفظ کے جمالیاتی حسن کو دو آتشہ کرتا ہے۔ اسی طرح جب ثقیل حروف کا ملاپ ہوتا ہے تو وجود میں آنے والا لفظ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ زمین پہ اپنا بوجھ نہیں سہار پا رہا وہاں اعراب اور نقطہ اس لفظ کے بھاری پن کو حرکت دیتے ہیں اور بوجھ بانٹ کر اس بظاہر گرتے پڑتے یا بے دم دکھائی دینے والے لفظ کو زندگی دیتے ہیں۔ اردو حروف میں نقطہ اور اعراب جب حروف کے ساتھ مربوط ہوتے ہیں تو یہ الفاظ کے اندر بھی ایک گھن گرج یا ردھم پیدا کرکے لفظ کے حسن کو بڑھاتے ہیں۔ اس میں تاثر اور شیرینی پیدا کرتے ہیں۔
اب آپ اس زبان کے تاریخی پہلوئوں پر نظر ڈالیں۔ آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ اردو جس دور میں اور جن حالات میں پروان چڑھی وہ ساری دنیا میں جغرافئائی تبدیلی و معاشرتی تغیر کا دور تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جس سے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریاں انسانی معاشرت کو بھسم کر دینے کے درپے تھیں۔ اس دور میں سماجی، معاشی، معاشرتی، مذہبی تبدیلی جغرافیائی توڑ پھوڑ تبدیلی اور قوموں کے خاتمے کا سبب تھیں۔ ایسے میں جہاں قومیں اپنی ثقافت میں دراڑ ڈالتا تغیر دیکھ رہی تھیں، اپنی سماجی ، دینی اور روایتی طرز معاشرت کے ساتھ ساتھ اپنی لسانی تہذیب کے بھی آثار مٹتے دیکھ رہی تھیں وہاں اردو زبان اپنی پوری آن کے ساتھ پنپ کر ایک تن آور درخت بننے کو تیار تھی۔
یہ دور مغلیہ سے پہلے کی داستان ہے۔ جب دور مغل شروع ہوا تو اردو کا پودا زمین میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکا تھا۔ یہ زبان لشکری زبان کے طور پر سامنے آرہی تھی۔ ہندی ، گجراتی، پنجابی ، بنگلہ، مراٹھی ، پشاجی، لاہوری سرائیکی، اور ترکی و فارسی کے ساتھ عربی کے رنگ و صوت تو اس میں موجود تھے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ مغرب کے پرتگالی، ہسپانوی، ولندیزی، المانی اور فرانسیسی الفاظ و القاب کی قربت و تلفظ و معنی بھی اردو زبان کی وسعت میں اضافہ کر رہے تھے۔ یہ زبان فقیروں سے شہنشاہوں تک ، خانقاہوں و مزاروں سے دفتر و سپاہ تک اپنے پہنچنے کے راستے خود عوام و خواص کے ساتھ ساتھ بنائے جارہی تھی۔ اس زبان کا ارتقائی پہلو ہی اس زبان کے محفوظ و کامیاب مستقبل کی پیش گوئی کر رہا تھا۔ آج یہ زبان اس دنیا کی ابتدائی دس بڑی زبانوں میں شمار کی جاتی ہے۔ جس کے بولنے اور سمجھنے والے دنیا کے ہر براعظم میں کہیں کثیر اور کہیں نمایاں طور پر موجود ہیں۔
جرمنی میں چمنِ لسان اردو زبان کے حوالے سے اس کا سفر طویل اس لیے نہیں ہے کہ یہ زبان دنیا کی نئی زبانوں میں شمار کی جاتی ہے۔ ترک قوم جب دوسری جنگ آزادی کا ملبہ اٹھانے اور اس اجڑے دیار کی از سرِنو تعمیر کے لیے یہاں پہنچی تو اپنے ساتھ لفظ “ اردو “ ساتھ لے کر آئی جس کے معنی ” لشکر “ کے ہیں۔ کئی اردو کے الفاظ اور حروف کے صوتی اثرات یہاں اردو زبان کے باقاعدہ آنے سے پہلے ہی آ چکے تھے۔ بعد ازاں بر صغیر پاک و ہند سے آنے وا لے اغیارِ وطن نے الفاظ و جملے ہی نہیں بلکہ کلام و تحریر بھی روز مرہ کی گفتگو اور بول چال کے ساتھ یہاں پہنچائی جو وقت کے ساتھ ساتھ ادب و شاعری اور زبان کی دوسری ثقافتی و روایتی روش کو اپناتے ہوئے مشاعرے ، محفل افسانہ ، زبان کی تعلیم ، نغمے و گائیکی اور مذہبی قصہ گوئی و روایت و حکایت گوئی کی شکل میں ڈھلا اور آج اس کا یہ سفر درسگاہوں جامعات اور کتب خانوں تک جا پہنچا ہے۔
ایک بات جو اور قابل غور ہے کہ اردو زبان نے اپنی تحریری شناخت کے لیے عربی حروف ہی کو کیوں چنا؟ جب اس زبان میں مغربی زبانوں کی آمیزش تھی یا یہ ہندی کے سب سے قریب تھی تو کیا وجہ تھی کہ خط ِعربی ہی کو اردو نے اپنی تحریری شناخت کا اظہار بنایا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ انڈو جرمانک لینگوئج ہونے کی وجہ سے اردو زبان کی تحریری شناخت کا پہلا حق دیو ناگری رسم الخط کو ملنا چاہئے تھا کیونکہ ہندی زبان کی گرائمر اور الفاظ و القاب ہی نہیں بلکہ بیشتر حروف کے صوتی اثرات بھی ایک دوسرے سے سب سے زیادہ قریب تر ہیں اور ایک ہی جغرافیائی سطح پر بسنے والی قوم کے زیر استعمال ہیں۔ لیکن اردو نے خاص طور پر عربی کا انتخاب اس لیے کیا کہ عربی کے اہم خط جو دنیا بھر کی مختلف عرب قوموں کے زیر استعمال ہیں جس میں نستعلیق اور خط کوفی سب سے زیادہ شہرت رکھتے ہیں۔ خط کوفی کا استعمال افریقہ سے لے کر یعنی سعودی عربیہ ،یمن ،متحدہ عرب امارات اور کئی ممالک میں ایشیا تک کے مشرقی ممالک سے اپنا ناتہ جوڑتا ہے جبکہ نسخ و نستعلیق عراق ایران افغانستان اور جنوبی ایشیا کے ممالک کے زیر اثر مستعمل ہے۔

 شاعر، افسانہ نگار، سفرنامہ نگار اور نثر نگار عشرت معین سیما نے زیر نظر مضمون ایک اردو کیلی گرافی سے متعلق سیمنار میں پڑھا تھا

شاعر، افسانہ نگار، سفرنامہ نگار اور نثر نگار عشرت معین سیما نے زیر نظر مضمون ایک اردو کیلی گرافی سے متعلق سیمنار میں پڑھا تھا

زبان کے تہذیبی اور لسانی پہلو کے حوالے سے اردو زبان کا رسم الخط جن آوازوں کو واضح کرتا ہے وہ زبان کے تابع ہیں یعنی عربی و فارسی جو کہ اس دور کی وہ معروف زبانیں تھیں جن میں تحریری ابلاغ کی نشانیاں واضح ہیں اور برصغیر پاک و ہند کے عوام کے ساتھ ساتھ یہ زبان انڈو جرمانک زبان کے حوالے سے دنیا بھر کی مقبول زبانوں کے ساتھ صوتی طور پر بھی ابلاغ کے لیے مانوسیت اور ہم آہنگی رکھتی تھی، لہٰذا اس زبان کو اردو کی شناخت دے کر اس کی انفرادیت کو ممکن بنایا گیا۔ ہندوستان میں کئی لسانی تنظیموں کا مطالبہ رہا ہے کہ اس زبان کو مذہب کے سائے سے نکالنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے خط کو رومن میں تبدیل کرکے یا دیوناگری لپی میں منتقل کرکے اسے برصغیر کی زبان کی شناخت دی جائے۔ کیونکہ ترکی زبان بھی رومن خط لینے کے بعد یورپ سمیت تمام دنیا میں پھیلی ہے ختم نہیں ہوئی۔
میرے خیال سے یہ مطالبہ حقیقتاً زبان کی ترقی کے بجائے اس خطے کی سیاست کا ایک حصہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ زبان اگر روح ہے تو اس کا خط اس روح کا بدن ہے۔ زبان کو زندہ رکھنے کے لیے اسے سیاست کی بنیاد پر استعمال کیا جائے گا تو اس کی ترقی و کامرانی متاثر ہوگی۔ اردو زبان کے لیے عربی رسم الخط کا استعمال اس بات کا مظہر ہے کہ اردو زبان نے اپنے حروف کو نہ صرف پوری دنیا کے گرد گھما پھرا کر نمایاں کیا ہے بلکہ اسے دنیا بھر کی زبانوں سے قریب تر لانے اور قابل فہم بنانے و سیکھنے کی ترغیب پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ایک آسان اکتسابی عمل سے گزرنے کے لیے بھی راہیں آسان کی ہیں

Facebook Comments

POST A COMMENT.