بدنصیبی تخت کی جانب چلی شاہ زادی دشت کی جانب چلی

بدنصیبی تخت کی جانب چلی
شاہ زادی دشت کی جانب چلی

 

 کراچی کی معروف شاعرہ ماہ نور خانزادہ کی دو خوب صورت غزلیں

 

بدنصیبی تخت کی جانب چلی
شاہ زادی دشت کی جانب چلی

آسماں سرگوشیوں سے بھر گیا
کہکشاں جب گشت کی جانب چلی

چاندنی کو کیا پڑی تھی شب کی شب
چاند ایسے مست کی جانب چلی

Maah Noor Khanzada Poetess

آنکھ کو پہچانتا کوئی نہ تھا
جب دل کم بخت کی جانب چلی

سرزنش کا خوف تھا نہ موت کا
فوج ہارے وقت کی جانب چلی

نور کا منہ دیکھنے کی چاہ میں
ظلمت شب ہست کی جانب چلی.

٭٭٭

بدنصیبی تخت کی جانب چلی
شاہ زادی دشت کی جانب چلی

آسماں سرگوشیوں سے بھر گیا
کہکشاں جب گشت کی جانب چلی

چاندنی کو کیا پڑی تھی شب کی شب
چاند ایسے مست کی جانب چلی

آنکھ کو پہچانتا کوئی نہ تھا
جب دل کم بخت کی جانب چلی

سرزنش کا خوف تھا نہ موت کا
فوج ہارے وقت کی جانب چلی

نور کا منہ دیکھنے کی چاہ میں
ظلمت شب ہست کی جانب چل

معروف شاعرہ ماہ نور خانزادہ

خودغرض اور دشمن کا ہم راز ہے
جو تمھارا ہمیشہ سے دم ساز ہے

ہم نے سیکھا نہیں سر جھکانا مگر
سر کٹانا تو الفت میں اعزاز ہے

کان سن کے جسے مست و بے کیف ہیں
ہو نہ ہو وہ فقط تیری آواز ہے

پیٹ خالی مگر خوش لباسی غضب!

یہ بھی لوگوں کی غربت کا انداز ہے

میرے مرنے کا دکھ چاند تاروں کو ہے
چاند تارو! یہ دنیا بھی ناساز ہے

چھینا جھپٹی نہیں بلکہ احساں کرے
نور ایسا یہاں کوئی شہباز ہے؟؟

Facebook Comments

POST A COMMENT.