دو دوست اور دو بگلے

دوشریر دوستوں کی کہانی

حافظ محمد دانش عارفین حیرت۔ لاہور

”بلال! بات سنو۔“ عمر نے مسجد سے نکلتے ہی آواز لگائی۔
”ہاں! بولو کیا بات ہے؟“ عمر کی آواز سن کر بلال نے رکتے ہوئے کہا۔
”تمہیں پتا ہے ناں ماموں تکہ والے کا جو باغ ہے؟“ عمر نے قریب آ کر سرگوشی کی۔
”ہاں! پتا ہے پھر؟“ بلال نے ناسمجھی سے جواب دیتے ہوئے پوچھا۔
”بتاتا ہوں، تم میرے ساتھ آﺅ۔“ عمر نے مسکراتے ہوئے کہا اور بلال کو ایک طرف لے جانے لگا۔
”میرے ذہن میں ایک منصوبہ ہے۔“
”کیسا منصوبہ؟“ بلال نے جوش سے پوچھا۔ عمر نے اسے سارا منصوبہ بتادیا۔
بلال اور عمر دونوں دوست تھے جو انارکلی کی جامع مسجد، تلوار والی، کے مدرسے میں حفظِ قرآن کے طالب علم تھے۔ دونوں بہت ذہین اور بلا کے شرارتی تھے۔ اس لیے آئے دن کوئی نہ کوئی شرارت کرتے رہتے تھے۔
”ٹھیک ہے شہزادے! چلتے ہیں۔“ عمر کی ساری بات سن کر بلال نے جوش سے کہا اور دونوں ساتھ چل پڑے۔ ان کے قدم ماموں تکہ والے کے باغ کی طرف اٹھ رہے تھے۔
ماموں تکہ والے کا باغ کیا تھا، پورا جنگل تھا۔ باغ کے چاروں طرف اونچے درخت تھے۔ ان درختوں میں مختلف اقسام کے پھل لگے ہوئے تھے۔ کیاریوں میں بھی خوب صورت پھول، پودے لگے ہوئے تھے۔ باغ میں مختلف قسم کے جانور بھی تھے۔ مرغیاں، بطخیں، بگلے، گائیں، بھینسیں اور بکریاں یہاں وہاں چلتی پھرتی نظر آتیں۔ بطخ اور بگلوں کے لیے ایک کونے میں صاف ستھرا حوض موجود تھا۔ گائیں، بھینسیں اور بکریاں بھی اسی حوض سے پانی پیتیں۔ ایک شخص ان تمام جانوروں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتا تھا۔ وہ گائیوں، بھینسوں کو نہلاتا، ان کا دودھ دوہتا۔ مرغیوں، بطخوں کو دانہ ڈالتا۔ جب کہ ایک دوسرا آدمی باغ کے پھلوں، پھولوں اور پودوں کی کاٹ چھانٹ کرتا۔ بلال اور عمر یہ تمام باتیں اچھی طرح جانتے تھے۔ پوری معلومات حاصل کرنے کے بعد ہی وہ ماموں تکہ والے کے باغ کے باہر کھڑے تھے۔ ان دونوں کا منصوبہ تھا کہ وہ وہاں سے دو عدد بڑے بگلے اٹھا کر لے جائیں گے اور جانوروںکے کسی تاجر کے ہاتھ فروخت کر دیں گے۔ دونوں نے اِدھر اُدھر دیکھا اور آس پاس باغ کی رکھوالی کرنے والے دونوں اشخاص میں سے کسی کو نہ پا کر دیوار پھلانگی اور باغ کے اندر پہنچ گئے۔ اندر پہنچ کر انہیں لگا کہ وہ کسی باغ میں نہیں بلکہ ایک خوب صورت جنگل میں آگئے ہیں۔ کیاریوں کے پودے بہت اونچے تھے جس کی وجہ سے وہ کیاریوں کے اُس پار نہیں دیکھ سکتے تھے۔ انہوں نے بگلوں کی تلاش شروع کردی۔ کیاریوں کے درمیان بنی راہداری سے گزرتے ہوئے وہ دونوںحوض تک پہنچ گئے۔
”ارے یہ کون لوگ ہیں؟“ ایک بگلہ انہیں دیکھ کر کڑکڑایا۔
”میرا خیال ہے، ہمیں یہاں سے بھاگ جانا چاہیے۔ ان دونوں کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں۔ معلوم نہیں یہ ہمارے ساتھ کیا کرنے والے ہیں ۔“ دوسرا بگلہ کڑکڑایا۔
اس کی بات سن کر سارے بگلے کڑ کڑاتے ہوئے بھاگنے لگے۔ ان میں سے کچھ بگلوں نے پانی میں چھلانگ لگا دی۔
”بلال ! بگلے بھاگ رہے ہیں۔ ہمیں جلد سے جلد دو بگلے پکڑنے ہیں۔“ عمر چلایا۔
بلال نے کوئی جواب نہیں دیا اور ایک بھاگتے ہوئے بگلے کو پیچھے سے جا کر پکڑ لیا۔ عمر نے بھی پھرتی دکھائی اور حوض میں کودتے ہوئے ایک بگلے کو پکڑلیا۔
دونوں بگلے چیخنے لگے: ”بچو! مہربانی کر کے ہمیں چھوڑ دو۔ چوری کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اسلام میں چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ ایسا مت کرو۔ تم دونوں تو مدرسے کے طالب علم ہو۔ حفظِ قرآن کرنے والے بچوں کو ایسی شرارتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ خدا کے لیے ہمیں چھوڑ دو۔“
مگر ان دونوںنے بگلوں کی بات پر کان نہیں دھرا۔ بلال نے اپنے بگلے کی چونچ اپنے ہاتھ سے پکڑ کر بند کردی۔اس کی دیکھا دیکھی عمر نے بھی اپنے بگلے کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ اس طرح دونوں بگلے خاموش تو ہوگئے مگر وہ دل ہی دل میں کہہ رہے تھے: ”اچھے بچو! تم دونوں غلطی کر رہے ہو۔ شرارت مت کرو، نقصان اٹھاﺅ گے۔“
اتنے میں بگلوںکا شور سن کر جانوروں کی حفاظت کرنے والا آدمی بھی وہاں آگیا۔ اسے دیکھتے ہی دونوں ایک کیاری میں چھپ گئے۔ آدمی اِدھر اُدھر دیکھ کر واپس چلا گیا۔ اُن کی قسمت اچھی تھی کہ رکھوالا ان کے چھوٹے قد کی وجہ سے ان کو نہیں دیکھ سکا۔ اس کے جانے کے بعد ان دونوں نے واپسی کی راہ لی۔ مگر یہ کیا؟ انہیں اپنے چھوٹے قد اور کیاریوں میں لگے اونچے پودوں کی وجہ سے واپسی کا راستا ہی نظر نہیں آرہا تھا۔ ان کے لیے اس باغ نما جنگل سے نکلنا بہت مشکل تھا۔ ایسے میں بلال کو ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے اپنا بگلہ عمر کو پکڑایا اور کیاریوں کے اس پار دیکھنے کے لیے اونچا اُچھلا اور چاروں طرف دیکھ کر اندازہ لگا لیا کہ دروازہ کس طرف ہے۔ اب اس نے عمر کو بلایا اوردونوں نے دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔
وہاں سے باہر نکل کر دونوں اپنی کام یابی پر خوب ہنسے۔ پھر جانوروںکے ایک تاجر کے ہاتھ بگلے فروخت کیے اور گھر آگئے۔ اگلے دن جب وہ مدرسے پہنچے تو باغ کا رکھوالا قاری صاحب کے پاس پہلے ہی موجود تھا۔ دراصل کل جس وقت وہ دونوں باغ سے باہر نکلے تھے، اس وقت وہ رکھوالا انہیں دیکھ کر پہچان گیا تھا اور اب شکایت لیے قاری صاحب کے پاس آگیا تھا۔ چوںکہ دونوں کی شرارتیں پورے انارکلی میں مشہور تھیں۔ لہٰذا، قاری صاحب نے دونوں کی اچھی خاصی پٹائی کی اور حکم دیا کہ ”رکھوالے کے بگلے واپس لے کر آﺅ۔“
دونوں بگلے واپس لینے تاجر کے پاس پہنچے۔ دونوں پریشان تھے کیوںکہ کل وہ ان سے بگلے نہیںخرید رہا تھا۔ انہوں نے زبردستی محض 80 روپوں میں فروخت کیے تھے۔ اب اس نے ان سے بگلوں کی واپسی کے تین سو روپے مانگ لیے۔ دونوں نے اس کی منت سماجت شروع کی تو اس نے کہا کہ ”اچھا چلو، سو روپے لے آﺅ تو مَیں بگلے دے دوں گا۔“
دکان دار کی بات سن کر دونوں نے اپنے اپنے جیب خرچ کے دس دس روپے نکالے اور ان 80 روپوں میں ملا کردکان دار کو دے دیے جو انہوں نے کل بگلے فروخت کر کے حاصل کیے تھے۔ دونوں بگلے لے کر واپس بھاگے تو بگلے پھر کڑکڑانے لگے:
”دیکھا بچو! ہم نے کہا تھا ناں کہ چوری مت کرو، نقصان اٹھاﺅ گے۔ ہوگیا نا، تم دونوں کا نقصان۔ تمہیں اپنے جیب خرچ کے پیسے دے کر ہمیں واپس خریدنا پڑا۔ آج تم دونوں بھوکے رہو گے۔“
دونوں دل ہی دل میں شرمندہ ہو رہے تھے۔ وہ بگلے لے کے مدرسے میں آئے اور قاری صاحب نے انہیں باغ کے رکھوالے کے حوالے کیا، ساتھ ہی دونوں سے معافی مانگنے کے لیے بھی کہا۔ دونوں نے نہ صرف رکھوالے بلکہ اپنے قاری صاحب سے بھی معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ ”آئندہ کے لیے ایسی شرارتوں سے توبہ ہے۔“

Facebook Comments

POST A COMMENT.