فیشن ڈیزائننگ کیسے اورکہاں سے سیکھیں ،نوجوانوں اور خواتین کے لیے مفید شعبہ

 فیشن کے بڑھاوے میں افراد کی نقل مکانی اور مختلف معاشروں کے ملاپ نے اضافہ کیا

 فیشن کی دنیا پر پندرہویں صدی تک اٹلی معاشرت کے اثرات رہے، سولہویں صدی میں ہسپانوی انداز چھایا رہا اور اس دور میں کشمیری شال بھی شامل رہی

سترہویں صدی میں فرانس کا غلبہ ہوا جو تین سو سال تک عورت کے فیشن کا مرکز رہا، یہیں سے فیشن کی دنیا میں مقابلے کا رجحان پیدا ہوا

فیشن میں اب زیورات، بالوں کے ڈیزائن ، جوتے، موزے، ٹائی، رومال، بیلٹ، ہیڈ بیگ، دستانے، ٹوپی، انڈر گارمنٹس، چھتریوں اور چشموں کا استعمال بھی شامل ہے

اسداللہ غنی

اسد اللہ غنی

اسد اللہ غنی

فیشن کی تاریخ

افراد کی نقل مکانی اور مختلف معاشروں کے ملاپ نے فیشن کے بڑھاوے میں اضافہ کیا۔ برطانیہ میں اون کی صنعت اور اٹلی کی ریشم کی صنعت نے ڈیزائننگ میں انقلاب آفریں ابتدا کی۔ 1423 میں وینس کے حکمراں ڈوجے (Dogs) نے ریشم، بروکیڈ، ویلویٹ اور ساٹن کی اضافی پیداوار سے ریڈی میڈ ملبوسات کی تیاری شروع کی۔ پندرہویں صدی عیسوی تک فیشن کی دنیا پر اٹلی معاشرت کے اثرات رہے۔ سولہویں صدی عیسوی میں ہسپانوی انداز چھایا رہا اور اس دور میں کشمیری شال بھی شامل رہی۔ ملکہ الزبتھ اول نے اپنے لباس پر سونے کے نوادرات اور زیورات جڑوائے۔

فیشن کی دنیا پرسولہویں صدی میں ہسپانوی انداز چھایا رہا اور اس دور میں کشمیری شال بھی شامل رہی

فیشن کی دنیا پرسولہویں صدی میں ہسپانوی انداز چھایا رہا اور اس دور میں کشمیری شال بھی شامل رہی

سترہویں اور اٹھارویں صدی میں فیشن کی دنیا میں فرانسیسی اثرات نمایاں رہے۔ فرانس عرصہ تین سو سال تک عورت کے فیشن کا مرکز رہا۔ اب یہیں سے  اس شعبے  میں مقابلے کا رجحان پیدا ہوا۔ اٹھارویں صدی میں عورت کا لباس نہایت ڈھیلا ڈھالا ہوتا تھا پھر یہ آہستہ آہستہ تنگ اور کم ہوتا گیا۔ اٹھارویں صدی میں مرد کا لباس ریشمی ہوتا تھا جو کہ سوتی اور جینز (Jeans) میں تبدیل ہوگیا۔ 1801 میں جوزف میری جیکارڈ کی مشہور ایجاد جیکارڈ لوم اور1846 میں امریکی موجد آئزک کی سلائی مشین کی ایجادات کے بعد فیشن کی دنیا میں انقلاب برپا ہوگیا، پھر 1873 میں ڈینیم بلیو جینز بنائی گئی۔ 1894ءمیں مصنوعی ریشے سے ساٹن، بروکیڈ ویلویٹ اور جرسی کا کپڑا بنالیا گیا۔ 1884 میں فیشن ڈیزائننگ سے متعلق پہلا کیٹلاگ طبع ہوا۔

 خواتین کی کھیلوں میں شرکت سے فیشن کو عروج ملا

خواتین کے کھیلوں میں شمولیت کے بعد فیشن نے نئی کروٹ لی۔ جسمانی ساخت کی فٹنس کا بے حد خیال رکھا جانے لگا۔ 19ویں صدی میں مردوں کے لباس میں عورتوں کی بہ نسبت کم تبدیلی ہوئی اور لباس کے علاوہ فیشن میں زیورات، بالوں کے ڈیزائن، جوتے، موزے، ٹائی، رومال، بیلٹ، ہیڈ بیگ، ہاتھوں کے دستانے، ٹوپی، انڈر گارمنٹس، چھتریوں اور چشموں کا استعمال بھی شامل ہوگیا۔

دنیا کی پہلی بوتیک

 دنیا میں پہلی بوتیک شاپ 1950 میں میری کوانٹ نے لندن میں قائم کی۔ اس کا نظریہ تھا کہ لوگ اپنا فیشن خود ڈیزائن کریں۔ 1960 میں جینز اور منی اسکرٹ بہت مشہور ہوئیں۔ 1965 میں سفاری جیکٹ کا استعمال عام ہوا، جو مرد اور عورتوں میں یکساں مقبول ہوئی۔ نیو یارک امریکا کا، پیرس فرانس کا، لندن برطانیہ کا اور مانٹریال کینیڈا کے فیشن کیپٹل سٹی ہیں۔ ان شہروں میں جنوری اور جولائی کے مہینوں میں فیشن شو منعقد کیے جاتے ہیں۔ فیشن انڈسٹری میں ٹیڈی(Teddy) بیگی اور Casual کی اصطلاحات کا رواج عام ہوا۔

پاکستان میں فیشن کے تربیتی ادارے

فیشن کی دنیا میں مسابقت کے رجحان کا مقابلہ کرنے کے لیے وزارت پیداوار کے ذیلی ادارے ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے کراچی میں فیشن اپرل ڈیزائن ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ اور لاہور میں پاکستان اسکول آف فیشن ڈیزائن بنائے جن کا مقصد ضرورت کے تحت عام مارکیٹ اور صنعتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس شعبے میں ہنرمند اور تربیت یافتہ افراد تیارکرنا تھا۔ چناں چہ پاکستان کاٹن فیشن اپرل مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کے تعاون سے فیشن اپرل ڈیزائن ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (FADIN) کا قیام 1997ءمیں عمل میں لایا گیا۔

اس ادارے میں طلبہ و طالبات کے طبعی رجحان کے مطابق مختلف کورسز کروائے جاتے ہیں۔ ایک سالہ ڈپلوما کورس میں گارمنٹ انڈسٹری سے متعلق مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ اہل اور تجربہ کار اساتذہ کی زیرنگرانی تربیت حاصل کرنے کے بعد باآسانی اندرون و بیرون ملک روزگار مل جاتا ہے۔ اس ادارے میں نہایت معمولی فیس کے عوض جدید ترین مشینوں پر تربیت دی جاتی ہے۔ اس ادارے میں موضوع کے اعتبار سے قریباً ہر عنوان پر کتابیں اور رسالے لائبریری میں موجود ہیں۔ ایک سالہ ڈپلوما کورس چار ماہ کی مدت کے تین سمسٹرز پر مشتمل ہے۔

جن میں لباس کی تیاری، فیشن کی تشریح، ڈرائنگ و ڈیزائن، پروڈکشن مینجمنٹ، مرچنڈائزنگ اور پلاننگ ڈیولپمنٹ اور پروسیسنگ جیسے مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ زیر تعلیم طلبہ و طالبات کو انڈسٹری میں ٹریننگ کے لیے کورس مکمل ہونے کے بعد ادارے میں قائم پلیسمنٹ بیورو کے ذریعے مختلف صنعتی اداروں میں نوکری کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے۔ مستحق طلبہ و طالبات کے لیے اسکالر شپ کا بھی اہتمام کیا گیا ہے نیز مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق سیمینار اور ورک شاپس منعقد کیے جاتے ہیں۔ ہفتے اور اتوار کو ایگزیکٹو کلاسز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

لاہور میں قائم شدہ ادارہ پاکستان اسکول آف فیشن ڈیزائن میں چار سالہ ڈگری پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس کا الحاق فرانس کے مشہور ادارے La Chamber syundicate De Is Counture Porisienne France سے کروایا گیا ہے۔ اس ادارے میں جدید ترین لیبارٹریز، ورکشاپس اور اسٹوڈیو موجود ہیں۔ فارغ التحصیل طلبہ میں مشہور فیشن ڈیزائنر رضوان بیگ، ماہین اور حسن شہریار کے علاوہ دیگر طلبہ نے ماریابی، کرما، ایس کے آر لباس میرزا اور ان فرانس نامی فیشن ہاﺅسز بنالیے۔ مزید معلومات کے لیے www.psfd.org مطالعہ کریں۔

افراد کی نقل مکانی اور مختلف معاشروں کے ملاپ نے فیشن کے بڑھاوے میں اضافہ کیا۔

افراد کی نقل مکانی اور مختلف معاشروں کے ملاپ نے فیشن کے بڑھاوے میں اضافہ کیا۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.