مہدی حسن خاں صاحب، دنیائے موسیقی کے عظیم فنکار کی داستان ِ حیات

 

مہدی حسن اس عظیم فنکار کا نام ہے جنہیں ان کی گائیکی کی عظمت  کے حوالے سے دنیا انھیں ’’ خان صاحب ‘‘ کے نام سے پکارتی ہے

مہدی حسن جیسے فنکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، ان کے انتقال نے موسیقی کی دنیا اور ان کے مداحوں میں گہری سوگواری پھیلا دی مگر ان کی آواز کے سحر کا جشن رہتی دنیا تک برقرار رہے گا

وہ بچپن ہی سے اس قدر ریاض کرتے کہ لوگ والد صاحب سے پوچھتے ”خاں احب آپ کا چھوٹا بیٹا( مہدی حسن کہیں پاگل تو نہیں، بازارسے جب گزرتا ہے تواس کاسر ہلتا رہتا ہے، چٹکی بجتی رہتی ہے۔ منہ ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔ کسی کی طرف نہیں دیکھتا،شکل بنتی رہتی ہے۔ والد صاحب مسکراتے اور جواب دیتے” نہیں یہ اپنے کام میں لگا رہتا ہے۔ ہر وقت اپنے ذہن میں (میوزک کی) طرز بناتا رہتا ہے۔“ میری تعلیم (ریاض ) کا سلسلہ صبح تین چار بجے سے پہلے شروع ہوکر رات گئے تک جاری رہتا۔

مہدی حسن کہتے کہ میں آٹھ برس میں ذہنی طور پہ چالیس برس کا تھا

مہدی حسن خان صاحب  (18 جولائی1927 تا 13 جون 2012

13 جون کو مہدی حسن کی برسی کے حوالے سے
موسیقی کی دنیا کے عظیم فنکار کی داستان ِ حیات

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

مشی گن ،ڈیٹرائیٹ،امریکا میں مقیم نامورپاکستانی قلم کار
گوہر تاج
کی سلسلہ وار پراثر اور منفرد تحریر

ابتدائی دور:۔ قریباً سات دہائی سے بھی قبل کا ذکر ہے کہ را جستھان (بھارت) کے نامور گوّیوں کے گھرانے کا چھ سالہ کم سن بچہ جو اپنے… استاد عظیم خاں کا منہ چڑھا تھا بڑے زعم میں اپنے باپ سے مخاطب ہوا۔” اجی آپ کیا گاتے ہیں میں بھی گا سکتا ہوں… میں ایک ” خیال“ بنا کر لایا ہوں۔“( موسیقی کی ایک قسم)پوچھنے پہ اس بچے نے ” پوربی زبان“میں اپنا تین تال پہ بنایا ہوا خیال سنایا۔

امریکا میں مقیم پاکستان کی نامور قلم کار گوہر تاج منفرد موضوعات پر مدلل اور پراثر مضامین لکھنا ان کی شناخت ہے وہ اردو اور انگریزی زبان میں یکساں مہارت سے لکھتی ہیں۔ زیر نظر مضمون ان کی تحقیق اور فن سے محبت کا ثبوت ہے

امریکا میں مقیم پاکستان کی نامور قلم کار گوہر تاج
منفرد موضوعات پر مدلل اور پراثر مضامین لکھنا ان کی شناخت ہے وہ اردو اور انگریزی زبان میں یکساں مہارت سے لکھتی ہیں۔ زیر نظر مضمون ان کی تحقیق اور فن سے محبت کا ثبوت ہے

تو جارے بگلا جا
آوت ہے بڈھا تیرا
اڑا وٹ ہے بگلا

اس کا الاپا راگ سن کر کلاسیکی موسیقی کے استاد باپ نے بلاتاخیر اسی دن سے اولاد کو اپنی شاگردی میں لے کر باقاعدہ موسیقی کی تعلیم دینا شروع کر دی۔
اپنے والد استاد عظیم خاں اور چچا اسماعیل خاں کی زیرِ تربیت ” قدرتی طور پر سُروں کی بیش بہا دولت سے مالا مال” یہ بچہ مُسلسل ریاض سے ایک دن اپنے کمال کو پہنچا اور موسیقی کی دنیا میں گائیکی (بالخصوص غزل کا) ” بے تاج شہنشاہ “ قرار پایا۔
اس عظیم فنکار کا نام ”مہدی حسن“ ہے۔جنہیں ان کی گائیکی کی عظمت کے حوالے سے دنیا”خان صاحب“ کے نام سے پکارتی ہے۔ان کی نیم کلاسیکی راگوں میں گُندھی غزلوں کی گائیکی کا انداز سب سے منفرد ہے۔جو انہیں اپنے دور کے تمام فنکاروں سے جدا کرتا ہے۔ ان کی فنی مہارت کی مثال دشتِ غزل میں چابکدستی سے چوکڑیاں بھرنے والے اس غزال کی سی ہے جس کے پیش ر و تو بہت سے ہیں مگر ہم سر کوئی نہیں۔ان کی گائیکی کم از کم پچاس برسوں سے موسیقی کی دنیا میں راج کر رہی ہے۔ ان کے انتقال کی خبر نے موسیقی کی دنیا میں گہری سوگواری پھیلا دی مگر ان کی آواز کے سحر کا جشن رہتی دنیا تک برقرار رہے گا۔بلاشبہ مہدی حسن جیسے فنکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
مہدی حسن کی پیدائش راجستھان (بھارت) کی ریاست منڈاوا (جے پور) کے ایک چھوٹے سے گا ¶ں لونا میں 18 جولائی 1927ءمیں ہوئی۔ان کا تعلق منڈاوا (موجودہ جے پور) کے مہاراجہ کے دربار میں سے وابستہ خاص گوّیوں سے تھا اور ان کی دادا پرداد ” خاندانی کلاوت“ (کلا کا مطلب فن ہے اور وت استاد کو کہتے ہیں۔) جو مہاراجوں کے گھرانوں کو موسیقی کی تعلیم دیا کرتے رہے تھے اور دھرپد گائیکی (جو ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی قدیم ترین صفت کہی جاتی ہے) کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ مہدی حسن صاحب اسی کلادت گھرانے کی سولہویں پیڑھی ہیں۔یہ وہ دور تھا کہ جب غیر منقسم برصغیر کی ریاستوں کے مہاراجے اور جاگیردار اپنے علاقوں کے

میں بچپن ہی سے اس قدر ریاض کرتا تھا کہ لوگ والد صاحب سے پوچھتے ”خاں احب آپ کا چھوٹا بیٹا( مہدی حسن کہیں پاگل تو نہیں، بازارسے جب گزرتا ہے تواس کاسر ہلتا رہتا ہے، چٹکی بجتی رہتی ہے۔ منہ ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔ کسی کی طرف نہیں دیکھتا،شکل بنتی رہتی ہے

میں بچپن ہی سے اس قدر ریاض کرتا تھا کہ لوگ والد صاحب سے پوچھتے ”خاں احب آپ کا چھوٹا بیٹا( مہدی حسن کہیں پاگل تو نہیں، بازارسے جب گزرتا ہے تواس کاسر ہلتا رہتا ہے، چٹکی بجتی رہتی ہے۔ منہ ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔ کسی کی طرف نہیں دیکھتا،شکل بنتی رہتی ہے

فنکاروں، شاعروں اور گوّیوں کی سرپرستی کیا کرتے تھے۔ مہدی حسن صاحب کے گھرانے کو راجستھان کے مہاراجہ (جے پور ریاست) کی سرپرستی حاصل تھی۔ان کے دادا انعام خان صاحب مہاراجہ بان سنگھ کے درباری اور خاص گوّیے تھے۔مہاراجہ کی جانب سے اپنی ریاست کے فنکاروں کی دوسری ریاست یا ممالک جانے کی منادی تھی۔یہ ان کی راجپوت راٹھور انا کی عزت کے منافی بات تھی کہ کسی اور کی سرپرستی میں ان کی ریاست کے فنکار کی سرپرستی ہو۔ تاہم ان کے دادا نے راجہ سے برودا نیپال جانے کی اجازت طلب کی۔ساتھ ہی ان کو یہ بھی سمجھایا گیا کہ ”یہ تو ان کی عزت کی بات ہے کہ ان کا گوّیا کسی دوسری ریاست کااستادبن کر جا رہا ہے۔“ تو بات مہاراجہ کو سمجھ آ گئی اور یوں علی امام خان نیپال کے راجہ کے استاد کے درجے پہ فائز ہو کر روانہ ہوئے اورکئی دوسری ریاستوںاندور،بروداہ وغیرہ میں فن کا مظاہرہ کیا۔ ادھر پوپی میں مہدی حسن صاحب کے والد عظیم خان اور چچا اسماعیل خان نے وہاں کی چھوٹی ریاستوں مثلاً منکا پور، میسور ، سی پی، جٹاپور اوربجوال وغیرہ میں موسیقی کی استادی اور فن کے مظاہرہ کابیڑااٹھایا۔
استاد عظیم خان نے دو شادیاں کیں۔مہدی حسن ان کی پہلی بیوی کی اولاد ہیں۔ ان کے علاوہ بڑے بھائی پنڈت غلام قادر اور ایک بہن بھی تھیں لیکن ابھی مہدی حسن صرف آٹھ برس کے تھے کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔والد نے دوسری شادی کی جس کے نتیجہ میں دو لڑکیاں اور دو لڑکے اور ہوئے۔ جب موسیقار باپ کو بیٹے کا فن اور رجحان چھ سال کی عمر سے ہی نظر آنے لگا تو انہوں نے سخت تربیت شروع کر دی۔اور یوں صبح تین چار بجے فجر کی نماز سے قبل ہی سے موسیقی کی تعلیم اور وابستہ عملی سرگرمیاں شروع ہو جاتیں لیکن یہ دلچسپی یکطرفہ نہیں تھی، مہدی حسن کو بھی موسیقی سے دیوانگی کی حد تک عشق تھا۔1970 ءمیں یاسمین طاہر کو دیے ریڈیو انٹرویو میں وہ کہتے ہیں۔
”بچپن میں ایک دفعہ والد صاحب نے بازار میں سودا سلف لینے کے لیے بھیج دیا کہ جا ¶ سگریٹ پان لے آ ¶۔ بازار سے گزرتے ہوئے لوگ مجھے حسنِ انداز میں دیکھتے تھے، وہ والد صاحب سے پوچھنے پر مجبور ہو گئے کہ ” خاں صاحب یہ آپ کا چھوٹا بیٹا کہیں پاگل تو نہیں؟“
انہوں نے کہا ”ایسی کوئی بات نہیںتو انہیں لوگوں نے بتایا” جب وہ (مہدی حسن) بازار سے گزرتا ہے۔اس کاسر ہلتا ہے، چٹکی بجتی رہتی ہے۔منہ ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔کسی کی طرف نہیں دیکھتا۔شکل بنتی رہتی ہے۔ جس پر والد صاحب نے کہا ” نہیں یہ اپنے کام میں لگا رہتا ہے اورذہن میںہر وقت (میوزک کی)طرز بناتا رہتا ہے۔“
مہدی حسن خان صاحب نے پہلی بار اپنے فن کا مظاہرہ آٹھ سال کی عمر میں اپنے بڑے بھائی پنڈت غلام قادر کے ساتھ مہاراجہ بروداہ کے دربار میںعاملہ کا بنگلہ، ڈی سی ہا ¶س (غیر منقسم پنجاب) میں 1935 میں کیا۔چالیس منٹ کے اس فنی مظاہرے میں دھرپد، خیال ،گائیکی میں بسنت پچھم راگ پیش کیا گیا۔

 مہدی حسن جیسے فنکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے انتقال سے موسیقی کی دنیا میں اب تک گہری سوگواری طاری ہے مگر ان کی آواز کے سحر کا جشن رہتی دنیا تک برقرار رہے گا

مہدی حسن جیسے فنکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے انتقال سے موسیقی کی دنیا میں اب تک گہری سوگواری طاری ہے مگر ان کی آواز کے سحر کا جشن رہتی دنیا تک برقرار رہے گا

یہ ہی وہ دن تھا جب انہیں” درباری گوّیوں“ میں شمار کیا جانے لگا۔ ان کی شمولیت اور فن کا اعتراف سونے کے کڑے پہنا کر کیا گیا۔اس کم عمری کا تقاضا شرارتیں اور چلبلاہٹ تھی جو وہ کرتے تھے لیکن بقول مہدی حسن ساتھ” میں آٹھ برس میں ذہنی طور پہ چالیس برس کا تھا۔“ دس برس کی عمر میں ان کے ” لنگوٹیا یاروں“ کی عمر میں ان سے تگنی بلکہ چگنی ہوتی تھیں۔کم عمری میں بھی وہ خاں توکل خاں جیسے بزرگ اور سلجھے موسیقاروں کو پسند کرتے تھے۔بچپنے میں بھی ان کا سارا وقت (ماسوا تین چار گھنٹوں کی نیند کے) تعلیم و تربیت کے حصول میں صرف ہوتا۔ علی الصبح تین چار بجے صبح سے پہلے شروع ہونے والی تعلیم کا سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا۔
اس دوران گھر میں استاد ہندی اور سنسکرت کی تعلیم دینے آتے تھے۔مہاراجوں نے ان کے والد عظیم خان صاحب کو مشورہ بھی دیا کہ ان کو کالج بھیجا جائے تو انہوں نے صاف کہا۔” ان کو جو تعلیم ملنی چاہیے وہ ہم دے رہے ہیں،ان کو نہ ہمیں وزیربنانا ہے نہ منشی“ اس طرح اردو غزل کے اس اہم گائیک نے اردو زبان پاکستان میں اپنے شوق سے پڑھی اور ریڈیو پاکستان کی ملازمت کے دوران مسلسل مشق سے زبان اور تلفظ کی ادائیگی کو بہتر سے بہتر کیا۔ مہارت سے گائی مقبول غزلیں ان کی محنت کا ثبوت ہیں۔

مہدی حسن راجستھان (بھارت) کی ریاست منڈاوا (جے پور) کے گائوں لونا میں 18 جولائی 1927ءمیں ہوئے ۔ان کا تعلق منڈاوا (موجودہ جے پور) کے مہاراجہ کے دربار میں سے وابستہ خاص گوّیوں سے تھا ان کی دادا پرداد ” خاندانی کلاوت“ (کلا کا مطلب فن ہے اور وت استاد کو کہتے ہیں۔) جو مہاراجوں کے گھرانوں کو موسیقی کی تعلیم دیا کرتے تھے

 مہدی حسن راجستھان (بھارت) کی ریاست منڈاوا (جے پور) کے گائوں لونا میں 18 جولائی 1927ءمیں ہوئے ان کا تعلق منڈاوا (موجودہ جے پور) کے مہاراجہ کے دربار میں سے وابستہ خاص گوّیوں سے تھا ان کی دادا پرداد ” خاندانی کلاوت“ (کلا کا مطلب فن ہے اور وت استاد کو کہتے ہیں۔) جو مہاراجوں کے گھرانوں کو موسیقی کی تعلیم دیا کرتے تھے

مضمون جاری ہے

Facebook Comments

POST A COMMENT.