تعلیمی نظام کی خامی، نقل کی آزادی، عقل ،علم شعوراور اہلیت سے عاری ڈگری یافتہ

تعلیمی نظام جو لارڈ میکالے نے محکوم قوم کو غلامی میں پختہ کرنے کے لیے بنایا تھا پاکستان میں وہی نظام جاری رکھا گیا، ر ہی سہی کسر نقل کے رجحان نے پوری کردی

تعلیمی نظام جو لارڈ میکالے نے محکوم قوم کو رسم غلامی میں پختہ کرنے کے لیے بنایا تھا تاکہ ایسے لوگ تیار ہوں جو بے شک نام کے مسلمان ہوں مگر ذہنی طور پر مسلمان نہ رہیں اور ان کی سوچ اور فکر فرنگیانہ ہو۔ اور وہ کبھی انگریزوں کی غلامی سے نکلنے کا سوچ بھی نہ سکیں۔ نظریاتی ملک پاکستان کی تشکیل کے بعد نظام تعلیم بدلنے کی بجائے لارڈ میکالے کا تیار کردہ نظام ہی جاری رکھا گیا، ر ہی سہی کسر نقل کے رجحان نے پوری کردی جس نے تعلیمی نظام کو کھوکھلا کردیا
تعلیمی نظام میں کسی بھی قوم کی ترقی کا رازپوشیدہ ہے۔ تعلیمی نظام جس قدر پختہ اور عمدہ ہو گا، قوم اسی قدر مضبوط اورترقی یافتہ ہو گی
نظام تعلیم کمزور ہو تو اس قوم کے زوال میں کسی کو شک نہیں ہو سکتا

 طارق محمد ۔ حیدرآباد

 تعلیمی نظام میں کسی بھی قوم کی ترقی کا رازپوشیدہ ہے۔ تعلیمی نظام جس قدر پختہ اور عمدہ ہو گا، قوم اسی قدر مضبوط اورترقی یافتہ ہو گی۔ تعلیم کے بغیر کسی قوم نے بھی ترقی نہیں کی۔ جس قوم کو بھی ترقی کے بلند مدارج پر دیکھاگیا اور اس کی وجوہ پر غور کیا گیا تو اس ترقی کا سبب تعلیم ہی نظر آیا۔ اس کے ساتھ ہی نظام تعلیم کمزور ہو تو اس قوم کے زوال میں کسی کو شک نہیں ہو سکتا۔

امتحانات میں نقل ہورہی ہے

امتحانات میں نقل ہورہی ہے

ہم مسلمانوں کے لیے وحی کے ذریعے جو پہلا سبق دیاگیا وہ علم اور پڑھنے کے متعلق تھا۔ ابتدائے اسلام کے مسلمان اور عرب اس درس علم پر عمل کر کے ساری دنیا کے امام بن گئے۔ اور ان کے بعد ہمارے اسلاف نے اپنی زندگی اور اپنے علمی کارناموں سے ثابت کیا کہ ترقی کا راستہ علم ہی ہے۔

پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے۔ اور اس کے لیے ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جو اس کے بنیادی نظریے کے موافق ہو مگر تشکیل پاکستان کے بعد نظام تعلیم بدلنے کی زحمت نہ کی گئی اور اسی نظام کو باقی رکھا گیا جو لارڈ میکالے نے ایک محکوم قوم کو رسم غلامی میں پختہ کرنے کے لیے بنایا تھا تاکہ ایسے لوگ تیار ہوں جو بے شک نام کے مسلمان ہوں مگر ذہنی طور پر مسلمان نہ رہیں اور ان کی سوچ اور فکر فرنگیانہ ہو۔ اور وہ کبھی انگریزوں کی غلامی سے نکلنے کا سوچ بھی نہ سکیں۔

نئے نظام تعلیم اور قومی مقاصد سے ہم آہنگ نظام تعلیم تو دور کی بات اسی فرسودہ نظام میں اتنی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں کہ نوجوانوں کے پاس بڑی ڈگریاں ، بڑی بڑی اسناد  تعلیمی نظام کی خامی، نقل کی آزادی، عقل ،علم شعوراور اہلیت سے عاری ڈگری یافتہ ونے کے باوجود ان کے پاس علم اور علم کاشعور تک نہیں۔

لارڈمیکالے تو کلرک پیدا کرنا چاہتا تھا مگر اب اس نظام سے کلرکی کی اہلیت بھی پیدا نہیں ہوتی اور اس کی بے شمار وجوہ میں ایک بڑا سبب نقل ہے۔ تعلیمی نظام کو کھوکھلا کرنے میں نقل نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ سب سے پہلے کتابوں کی گائیڈز، ٹیسٹ پیپرز،خلاصے اور لکی سیریز وجود میں آئیں۔ اور ان کا استعمال اپنی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے نہیں بلکہ ان پر نقل کا دارو مدار بن چکا ہے۔ اور اصل کتب تو طلبا شاذو نادر ہی دیکھتے ہیں۔

ایک نوعمر لڑکی میتھمیٹکس کے امتحان میں فارمولا نقل کررہی ہے

ایک نوعمر لڑکی میتھمیٹکس کے امتحان میں فارمولا نقل کررہی ہے

 چند سال قبل تک نقل کا رجحان عموماً میٹرک اور اس کے بعد کے امتحانات میں دیکھنے میں آتا تھا مگر اب یہ خطرناک رجحان بڑھتے بڑھتے مڈل لیول اور اسکول کے امتحانوں تک آگیا ہے۔ طلبا کو یقین ہے کہ امتحان شفاف نہیں ہوں گے اور نقل ضرور ہو گی لہٰذا سارا سال فضول مشاغل میں گزار دیتے ہیں اور آخرمیں نقل کے سہارے کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ اسکول کے اوقات کے بعد گھر میں پڑھنے کا تصور آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ٹیوشن سنٹرز میں پڑھنے والے طلبا اپنے سنٹرز منتخب کرنے سے پہلے یہ ضرور دیکھتے ہیں کہ ان اساتذہ کی رسائی امتحانی بورڈز تک کتنی ہے؟

 نقل کی کئی وجوہ ہیں۔اساتذہ کی کمی کے باعث کورس پڑھانے والا نہیں ہوتا لہٰذا آخر میں نقل ہی کارآمد ثابت ہو تی ہے۔ بعض اوقات استاد موجود ہوتا ہے مگر اس صلاحیت کا اہل نہیں ہوتاکہ اچھے طریقے سے طلبا کو پڑھا سکے۔ایف۔ ایس۔ سی میں حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز میں داخلہ ہوتا ہے لہٰذا اس امتحان میں نقل کا تناسب بہت زیادہ ہو تا ہے۔ اس امتحان میں طلباباقاعدہ منصوبہ بندی سے نقل کا انتظام کرتے ہیں اور وہ لوگ بھی اس مکروہ کام میں مصروف ہوتے ہیں جن پر گمان بھی نہیں ہوتا۔ یوں سارا امتحانی نظام مشکوک اور غیر شفاف ہو جاتا ہے۔ انہی پس پردہ محرکات کے باعث ہی ا ساتذہ میں وہ جوش و جذبہ نہیں رہتا جو کبھی استاد کا خاصہ ہوتا تھا۔

 طالب علم استاد کی نظر بچا کر نقل کے مواد کا تبادلہ کررہے ہیں

طالب علم استاد کی نظر بچا کر نقل کے مواد کا تبادلہ کررہے ہیں

پورا سال گھوم پھر کر اور آوارہ گردی کرتے رہنے والے کو پتہ ہوتا ہے کہ امتحان میں نقل کے باعث کامیابی یقینی ہے۔ اگر انہیں یقین ہو کہ امتحان شفاف ہوں گے تو وہ پڑھنے پر مجبور ہوں گے۔ کورس کا طویل ہونا بھی بعض اوقات نقل کے رجحان کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہو تا ہے۔ تعلیمی اداروں کی طویل تعطیلات کے باعث کورس مکمل نہیں ہو سکتا اس لیے طلبا میں نقل کا رجحان بڑھتا ہے۔ اب کئی مسائل کی وجہ سے معاشرے میں شفاف امتحانات کا رجحانات ختم ہوتا جا رہا ہے۔

نقل کے نقصانات سے طلبا کے ساتھ ساتھ معاشرہ بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ نقل کے ذریعے پاس ہونے والے نوجوان معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ ان کے پاس سند تو ہوتی ہے مگر کسی کام کے اہل نہیں ہوتے اور ملازمت کے حصول میں ناکام رہتے ہیں اور منفی سرگرمیوں کی جانب مائل ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات جرائم اور خود کشی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اس میں قصور کس کا ہے ؟ حکومت کا، اساتذہ کا، طلباکا یا معاشرے کا ؟ حقیقت پسندانہ تجزیہ کیاجائے تو من حیث المجموعی سارا معاشرہ بگاڑ کا شکار ہے اور نقل کے لیے بھی سارے طبقات قصور وار ہیں۔

نقل کے نقصانات میں زیادہ نقصان ان غریب طلباکو ہوتا ہے جو سارا سال اپنی محنت اور کوشش سے تیاری کرتے ہیں مگر نقل کے باعث نالائق طلبازیادہ نمبر لے لیتے ہیں اور محنتی طلباکی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ نقل کا ایک نقصان پیپرز کی چیکنگ کے دوران بھی غیر شعوری طور پر ہو تا ہے کہ بعض ممتحن حضرات کے ذہنوں میں پہلے سے یہ موجود ہوتا ہے کہ امتحان میں نقل ہوئی ہے لہٰذا پرچوں کی چیکنگ میں محتاط نہیں ہوتے اور اس کا نقصان بھی عموماً ان ہی طلبا کو ہوتا ہے جو اپنی محنت اور تیاری کے ساتھ امتحانات میں شریک ہوتے ہیں۔

یہ دیکھا گیا ہے کہ میٹرک اور اس کے بعد کے اعلیٰ درجات میں نقل کا رجحان زیادہ ہوتا جاتا ہے اور کوئی امتحان اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل داو ¿ پر لگ گیا ہے۔

امتحانی نظام میں انفرادی سطح پر بورڈ، یونیورسٹی میں کئی بار کوششیں ہوئی ہیں۔ اگر ان کوششوں کی پذیرائی عوامی سطح پر کی جائے تو مجموعی بہتری کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔

حکومت اور خصوصی طور پرمحکمہ تعلیم توجہ دے تو تعلیمی بہتری کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اساتذہ اپنے طلبا میں تعلیم کے ساتھ ساتھ نقل سے نفرت پیدا کریں۔ والدین کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نقل کی لعنت سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ والدین خود اپنے بچوں کے لیے نقل کا انتظام کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ جب تک معاشرے کا ہر فرداپنی ذمے داری کو دیانت داری سے ادا نہیں کرے گا مکمل سدھار ممکن نہیں۔

نقل کے خاتمے کے لیے ایک عمدہ طریقہ یہ ہے کہ میرٹ پر ملازمتوں کا حصول یقینی بنایا جائے۔ اگر ہر طالب علم کو یقین ہو کہ مطلوبہ قابلیت و اہلیت کے بغیر ملازمت کا حصول کسی طرح ممکن نہیں تو یقیناً وہ محنت کی جانب راغب ہو گا اور نقل سے دور رہے گا مگر بد قسمتی سے اس امر کی جانب کبھی توجہ نہیں دی گئی اور ملازمتوں میں بھی سفارش اور رشوت کاکلچر ہی فروغ پا چکا ہے۔

میڈیابھی نقل کے رجحان کے خلاف مو ¿ثر کام کر سکتا ہے۔ آج میڈیا کی آواز بہت مو ¿ثر ہو چکی ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نقل کے تمام ذرائع کی مذمت کی جائے اور اسے معاشرتی برائی قرار دے کر اس کے خلاف لڑنے کا عہد کیاجائے تو اس کے مثبت اثرات جلد ظاہر ہوسکتے ہیں۔

جب تک طلباحقیقی معنوں میں تعلیم حاصل کرکے میدان عمل میں نہیں آئیں گے ملک کی تقدیر نہیں بدل سکتی لہٰذا اپنی اور ملک کی حقیقی ترقی کے لیے جلد از جلد اس بات کا ادراک کر لینا ضروری ہے۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.