سماعت سے محروم افراد کی پاکستان میں تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے، آصف امین فاروقی

سماعت سے محرومی آصف امین فاروقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکی، سماعت سے محرومی پیدائشی مسئلہ تھا جس کا پتہ بعد میں چلا
ابتدائی تعلیم سکھر کے ایک اسکول سے حاصل کی، ڈھرکی اینگرو نارمل اسکول میں تعلیم کا حصول بہت مشکل ثابت ہوا
آصف امین فاروقی نے1987میں جاپان میں منعقدہ 17 ویں انٹرنیشنل چلڈرن آرٹ نمائش میں سلور میڈل حاصل کیا
1999 کے ایشیاء پیسیفک ایونٹ “نیو میلینیم (کولالمپور، ملائشیا) میں شرکت کا اعزاز حاصل کیا
ترکی میں ہونے والے کوکننگ کے مقابلوں میں انھیں دو مرتبہ پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہے

شخصیات ویب نیوز
انٹرویو: ثاقب لقمان قریشی

سماعت سے محرومی آصف امین فاروقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکی

سماعت سے محرومی آصف امین فاروقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکی

آدمی میں ہمت، عزم وارادہ پختہ ہو تو جسمانی معذوری ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ سماعت سے محروم آصف امین فاروقی اس کی بہترین مثال ہیں، سماعت سے محرومی آصف امین فاروقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکی۔ سماعت سے محرومی پیدائشی مسئلہ تھا لیکن اس کا پتہ بعد میں چلا، ابتدائی تعلیم سکھر کے ایک اسکول سے حاصل کی، انٹرتک تعلیم کراچی اور پھر گریجویشن تک تعلیم لاہور سے کی حاصل کی۔ انھوں نے 1987میں جاپان میں منعقدہ 17 ویں انٹرنیشنل چلڈرن آرٹ نمائش میں سلور میڈل حاصل کیا، 1999 کے ایشیاء پیسیفک ایونٹ “نیو میلینیم (کولالمپور، ملائشیا) میں شرکت کا اعزاز حاصل کیا، انھیں ترکی میں ہونے والے کوکننگ کے مقابلوں میں انھیں دو مرتبہ پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہے۔

 ابتدائی تعلیم سکھر کے ایک اسکول سے حاصل کی، ڈھرکی اینگرو نارمل اسکول میں تعلیم کا حصول بہت مشکل ثابت ہوا

ابتدائی تعلیم سکھر کے ایک اسکول سے حاصل کی، ڈھرکی اینگرو نارمل اسکول میں تعلیم کا حصول بہت مشکل ثابت ہوا

تعارف
نام :آصف امین فاروقی
تعلیم: بیچلر آف گرافک ڈیزائننگ۔ اسکے علاوہ حرکت پذیری، فوٹوشاپ اور متعدد کمپیوٹر کورسزکر رکھے ہیں
رہائش: کراچی
ملازمت: سماعت سے محروم افراد کے سینٹر آف ایکسی لینس میں فنانس ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اشاروں کی زبان کے ریسرچ گروپ میں گرافک ڈیزائنرکے طور پر (جو پاکستان ایسوسی ایشن آف دا ڈیف کا ایک پروجیکٹ ہے) بھی تعینات ہیں۔
عہدہ: صدر پاکستان ایسوسی ایشن آف ڈیف (پی۔ اے۔ ڈی)

اعزازات: 1987میں جاپان میں ہونے والی 17 ویں انٹرنیشنل چلڈرن آرٹ نمائش میں سلور میڈل حاصل کیا ۔ 1999 کے ایشیاء پیسیفک ایونٹ “نیو میلینیم (کولالمپور، ملائشیا) میں شرکت کا اعزاز حاصل کیا پ۔ ترکی میں ہونے والے کوکننگ کے مقابلوں میں دو مرتبہ پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہے۔
خاندانی پس منظر
آصف کے والد اینگرو کیمیکل پاکستان لمیٹڈ (سابقہ ایکسون پاکستان لمیٹڈ) میں جنرل اکائونٹ ایڈوائزر کی حیثیت سے سن 2000 میں ریٹائر ہوئے۔ خاندان تین بھائیوں پر مشتمل ہے۔

 آصف امین فاروقی کوترکی میں ہونے والے کوکنگ کے مقابلوں می دو مرتبہ پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہے

آصف امین فاروقی کوترکی میں ہونے والے کوکنگ  مقابلوں می دو مرتبہ پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہے

بڑے بھائی ایم بی اے ہیں، کراچی پورٹ ٹرسٹ میں پبلک ریلیشن ڈیپارنمنٹ کو دیکھتے ہیں جبکہ دوسرے بھائی ڈاکٹر ہیں۔برطانیہ اور آسٹریلیا سے متعدد ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں۔ آج کل ابوظہبی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ تینوں بھائی شادی شدہ ہیں اور بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔
سوال: سماعت سے محرومی کا مسئلہ کس عمر میں پیش آیا؟
یہ پیدائشی مسئلہ تھا لیکن اس کا پتہ بعد میں چلا۔
سوال: ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی اور کن مسائل کا سامنا رہا؟
ابتدائی تعلیم سکھر کے ایک اسکول سے حاصل کی۔ ناتجربہ کار اساتذہ اور تعلیم کے غیر معیاری نظام کی وجہ سے اس سکول کو جلد خیرباد کہنا پڑا۔ کچھ عرصہ ڈھرکی اینگرو میں نارمل بچوں کے اسکول سے بھی تعلیم حاصل کی۔ نارمل بچوں کے اسکول میں گزرا وقت خاصہ مشکل رہا۔ اساتذہ کی بات سمجھ میں نہیں آتی تھی اور اساتذہ اشاروں کی زبان کے الفاظ سمجھنے سے قاصر تھے۔ والدہ کی کوششوں سے کراچی کے ابساءاسکول میں داخلہ کروایا گیا۔ جہاں کے اساتذہ اشاروں کی زبان پر خاصی مہارت رکھتے تھے۔ سکول کا تعلیمی نظام بھی کافی بہتر تھا۔ انٹر تک تعلیم کامیابی کے ساتھ اسی سکول سے حاصل کی۔
سوال: کالج کی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟ گرافک ڈیزائننگ جیسے مشکل مضمون کا انتخاب کیوں کیا؟
انٹر تک تعلیم کراچی میں حاصل کی۔ پھر والد صاحب کا تبادلہ لاہور ہوگیا۔ جسکی وجہ سے خاندان کو لاہور منتقل ہونا پڑا۔ بیچلرز کیلئے لاہور کے اورینٹل کالج آف آرٹس میں داخلہ لیا۔ جہاں صرف ایک میں ہی سماعت سے محروم طالب علم تھا۔
گرافک ڈیزائنر بننے کا شوق بچپن سے تھا۔ ہر وقت کچھ نیا کرنے کی جستجو میں لگا رہتا تھا۔ بیچلر کی ڈگری گرافک ڈیزائننگ میں کی۔ دوران تعلیم بھارت کے دورے کا موقع ملا۔ دورے کا مقصد انڈیا کے اہم ترین تاریخی مقامات کی سیر اور عمارتوں کا جائزہ لینا تھا۔بھارت میں قیام کے دوران گجرات، آگرہ، دہلی اور بہت سے دوسرے شہروں کے تاریخی مقامات کی سیر کا موقع ملا۔

 آصف امین فاروقی نے1987میں جاپان میں منعقدہ 17 ویں انٹرنیشنل چلڈرن آرٹ نمائش میں سلور میڈل حاصل کیا

آصف امین فاروقی نے1987میں جاپان میں منعقدہ 17 ویں انٹرنیشنل چلڈرن آرٹ نمائش میں سلور میڈل حاصل کیا

سوال: کتنی ملازمتیں کر چکے ہیں؟ ملازمت کے حصول میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟ موجودہ ملازمت کتنے عرصے سے کر رہے ہیں؟
گرافک ڈیزائننگ کی اہلیت کی وجہ سے حصول ملازمت میں کسی خاص دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ لکھ کر اپنی بات باآسانی دوسروں تک پہنچا سکتا تھا۔ انیمیشن ، فوٹوشاپ اور آفٹر ایفیکٹس وغیرہ کے متعدد کورس کر رکھے ہیں۔ 1997 سے 2002 تک مائکرووژ ن انک، ایک پرائیویٹ ادارہ کے اسکول آف انیمیشن میں انیمیشن انچارج کی حیثیت سے کام کرتا رہا ہوں۔
(K) گروپ آف کمپنیز ، تکافل پاکستان لمیٹڈ، اور طوایرقی اسٹیل ملز لمیٹڈ میں بھی ملازمت کرچکا ہوں۔ پچھلے دس سالوں سے پی اے ڈی میں بہرے بچوں کو کمپیوٹر گرافکس پڑھا رہا ہوں۔
سوال: پی اے ڈی کیا ہے اور یہ سماعت سے محروم افراد کی کسطرح رہنمائی فراہم کرتا ہے؟
پی اے ڈی کے ساتھ کافی عرصے سے وابستہ ہوں۔ پاکستان ایسوسی ایشن آف دا ڈیف (پی اے ڈی) سابقہ کراچی ڈیف ویلفیئر ایسوسی ایشن (کے ڈی ڈبلیو اے) کا قیام کراچی کے کچھ متحرک (سماعت سے محروم) نوجوانوں نے 1987 میں کیا۔ پی اے ڈی پاکستان کے سماعت سے محروم افراد کی نمائندہ تنظیم ہونے کے ساتھ ساتھ ورلڈ فیڈریشن آف ڈیف (ڈبلیو ایف ڈی) کی بھی ممبر ہے۔اسکا کام سماعت سے محروم افراد کی آواز کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اٹھانا ہے۔ پی اے ڈی ایشیاءپیسفک سینٹر ڈیوپلمنٹ آن ڈس ایبلٹی (اے پی سی ڈی) کے ساتھ ساتھ بہت سی بین الاقوامی تنظیموں کی ممبر بھی ہے۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف ڈیف (پی اے ڈی) اشاروں کی زبان پر تحقیق کرنے کے ساتھ ساتھ سپورٹس کے ایونٹس کا انعقاد بھی کرواتی ہے، اسکے علاوہ سماعت سے محروم بچوں کی تعلیم و بہبود جیسے بہت سے کام کرتی ہے۔ تنظیم نے حال ہی میں سماعت سے محروم افراد کے لئے ڈرائیونگ لائسنس کے اجراءکی منظوری لی ہے۔ جس کی منظوری کیلئے وزیراعلی سندھ، آئی جی پولیس اور بہت سے حکومتی عہدیداروں سے میٹنگنز ہوتی رہی ہیں۔

 سماعت سے محرومی پیدائشی مسئلہ تھا جس کا پتہ بعد میں چلا ، پاکستان میں سماعت سے محروم افراد کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے، آصف امین فاروقی

سماعت سے محرومی پیدائشی مسئلہ تھا جس کا پتہ بعد میں چلا ، پاکستان میں سماعت سے محروم افراد کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے، آصف امین فاروقی

سوال: سائن لینگوج یا اشاروں کی زبان کیا ہوتی ہے؟ اشاروں کی زبان کی تاریخ کیا ہے؟ پاکستان میں اشاروں کی کون سی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے؟
اشاروں کی زبان ابلاغ کی مینول زبان ہے۔ابلاغ کی اس زبان میں ہاتھوں کے اشاروں، چہرے اور جسم کی حرکات و سکنات کے ذریعے پیغام دوسروں تک پہنچایا جاتا ہے۔ اشاروں کی زبان کی تاریخ انسان جتنی پرانی ہے۔ ابتدائی انسان اشاروں کی زبان سے پیغام رسانی کا کام لیتا تھا۔ اسی طرح انسان نے ابتدائی تجارت کے لیئے بھی اشاروں کی زبان ہی کا سہارا لیا۔ ہالی ووڈ کی ابتدائی فلمیں خاموش ہوا کرتی تھیں جن میں اشاروں کی زبان کی مدد سے اداکاری کی جاتی تھی۔ خاموش فلموں کے دور نے سماعت سے محروم افراد کے مسائل کو اجاگر کرنے میں بھر پور کردار ادا کیا۔ آواز والی فلموں کے آنے کے بعد لوگ سماعت سے محروم افراد کے مسائل کو بھولنا شروع ہوگئے۔ جسکی وجہ سماعت سے محروم افراد پردے کے پیچھے چلے گئے اور اسی وجہ سے سماعت سے محروم افراد کے مسائل میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

صف امین فاروقی نے 1999 کے ایشیاء پیسیفک ایونٹ "نیو میلینیم (کولالمپور، ملائشیا) میں شرکت کا اعزاز حاصل کیا

صف امین فاروقی نے 1999 کے ایشیاء پیسیفک ایونٹ “نیو میلینیم (کولالمپور، ملائشیا) میں شرکت کا اعزاز حاصل کیا

اشاروں کی زبان اور بولنے والی زبان میں بہت ذیادہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ گرائمر کے ایک ہی جیسے قوانین لاگو کیئے جاتے ہیں۔ عام تاثر ہے کہ دنیا میں ایک ہی قسم کی اشاروں کی زبان بولی جاتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ دنیا کے ہر ملک کی اپنی اشاروں کی زبان ہے بلکہ بعض ممالک میں ایک سے ذیادہ اشاروں کی زبان بولی جاتی ہے۔ ایتھنال لوگ (Ethanol Log) کے مطابق دنیا میں 137 سے زائد رجسٹرڈ اشاروں کی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جبکہ غیر رجسٹرڈ زبانوں کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
سوال: پی اے ڈی اشاروں کی زبان کے فروغ کیلئے کیا کام کر رہی ہے؟
اشاروں کی زبان کو سماعت سے محروم افراد اپنا سب سے قیمتی اثاثہ تصور کرتے ہیں۔ پاکستان میں اشاروں کی زبان کا باقاعدہ آغاز 2001 میں شروع ہوا۔ اشاروں کی زبان کو ہمہ گیر بنانے کیلئے تحقیق انتہائی ضروری ہے۔ دیہی علاقوں کے لوگ اشاروں کی زبان سے ذیادہ آگہی نہیں رکھتے، جس کے نتیجے میں انھیں تعلیم کے حصول اور اپنی بات دوسروں تک پہنچانے میں شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پی اے ڈی نے ہمیشہ اشارے کی زبان کی تحقیق اور ترقی پر زور دیا ہے اور اس کے لئے پی اے ڈی میں ایک ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ گروپ بھی کام کر رہا ہے۔ پی اے ڈی نے پی آئی یو سی این کے اشتراک سے سماعت سے محروم افراد کیلئے اردو زبان میں گرائمر سمیت اکیس اشاروں کی زبان کی کتابیں شائع کی ہیں۔ جدید تقاضوں سے ہم آہنگی رکھتے ہوئے سائن لینگوئج کی سی ڈیز بھی تیار کی گئی ہیں۔
سوال۔ پاکستان میں سماعت سے محروم افراد کی تعداد کتنی ہے؟
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کی 5فیصد آبادی کسی نہ کسی قسم کے سماعتی مرض میں مبتلا ہے۔ سماعت سے محروم افراد وطن عزیز کی آبادی کا 5فیصد ہیں ، 2017 کی مردم شماری کے مطابق وطن عزیز کی آبادی 200.81 ملین ہے ، اس حساب سے پاکستان میں سماعت سے محروم افراد کی تعداد تقریبا دس ملین بنتی ہے۔
وطن عزیز میں سماعت سے محروم افراد کے حوالے سے قوانین اور پالیسیز تو نظر آتی ہیں لیکن ان پالیسیز پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا جسکی وجہ سے سماعت سے محروم افراد کی بڑی تعداد تعلیم کے زیور سے محروم نظر آتی ہے۔ جن دوستوں نے ان چلینجز کا مقابلہ کرتے ہوئے ڈگریاں حاصل کر لی ہیں انھیں ملازمت کے حصول میں دشواریوں کا سامنا ہے ان افراد کو زندگی کے ہر موڑ پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سوال: پی اے ڈی سماعت سے محروم افراد کی تعلیم اور روزگار کے حوالے سے کون سے اقدامات کر رہی ہے؟
پی۔ اے۔ ڈی کے صرف کراچی میں 700 سے زیادہ ممبر ہیں، ملک بھر کی سماعت سے محروم افراد کی بہت سے تنظیمیں پی۔ اے۔ ڈی سے منسلک ہیں، ہر تنظیم کے اپنے اپنے علاقوں میں سینکڑوں ممبرز ہیں۔ اسطرح پی۔ اے۔ ڈی کا نیٹ ورک نہ صرف ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے بلکہ ہر وقت نمائندہ تنظیموں سے رابطے میں بھی رہتا ہے۔
پی۔ اے۔ ڈی حصول تعلیم، ہنر، روزگار اور مددگار آلات کی فراہمی میں اپنی کمیونٹی کو مدد فراہم کرتی ہے۔ پی اے ڈی کے دروازے ملک بھر کے سماعت سے محروم افراد کی رہنمائی کے لیئے ہر وقت کھلے ہیں۔
پی اے ڈی یوتھ ایکسچینج اینڈ اسٹڈی پروگرام کے تحت سماعت سے محروم طالب علموں کو بھر پور حوصلہ افزائی فراہم کرتا ہے۔ پی اے ڈی کے تعلیمی پروگراموں سے تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم اعلی عہدوں پر کام کر کے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
سوال۔ سماعت سے محروم افراد کی تعلیم کے راستے میں کون کون سی رکاوٹیں حائل ہیں؟
سماعت سے محروم افراد کی تعلیم کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ آگہی کا فقدان ہے۔ اکثر والدین سماعت سے محروم بچوں کو نالائق اور ناکارہ سمجھ لیتے ہیں۔ دوسرا اہم ترین مسئلہ سکولوں کی نامناسب تعداد کا ہے جس کی وجہ سے بیشتر بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں، تیسرا اہم ترین مسئلہ اشاروں کی زبان کی سمجھ کا ہے حکومت میڈیا اور سول سوسائٹی نے اشاروں کی زبان کے فروغ کیلئے کام ہی نہیں کیا جس کی وجہ سے سماعت سے محروم افراد اپنا دکھ درد کسی کو بتلانے سے قاصر ہیں، چھوتھا اہم ترین مسئلہ غربت کا ہے جسکی وجہ سے بہت سے والدین اپنے بچے کیلئے تعلیم، مدد گار آلات اور علاج کی سہولیات فراہم نہیں کر پاتے، پانچواں اور اہم ترین مسئلہ معاشرے کی منفی سوچ اور رویے ہیں جن کی وجہ سے سماعت سے محروم افراد احساس محرومی کا شکار نظر آتے ہیں.
سوال۔ سماعت سے محروم افراد نوکریوں سےکیوں محروم رہ جاتے ہیں؟
خصوصی افراد ملک کی آبادی کا 5٪ ہیں جبکہ تمام صوبوں میں نوکریوں کیلئے مختص کوٹہ دو سے پانچ فیصد کے درمیان ہے جو کہ خصوصی افراد کی آبادی کے تناسب سے ناکافی ہے۔ نوکریوں کیلئے مختص یہ مختصر سا کوٹہ بھی کسی صوبے میں پوری طرح لاگو نہیں ہے، کوٹے کے تحت کی گئی بھرتیوں میں شفافیت ایک سوالیہ نشان ہے۔ غیر سرکاری اور پرائیویٹ نوکریوں کے حصول میں رابطے کا فقدان، اشاروں کی زبان سے ناواقفیت اور منفی معاشرتی رویے بڑی رکاوٹ تصور کیئے جاتے ہیں۔
سوال۔ سماعت سے محروم افراد اور معاشرے میں فاصلے کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟ الیکڑانک میڈیا اس ضمن میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟
متوازن معاشرہ ذات پات، رنگ نسل، قومیت، عقائد اور علاقائیت سے بالاتر ہو کر ہر شخص کو انصاف کی فراہمی اور آگے بڑھنے کے مواقعے فراہم کرتا ہے۔ خصوصی افراد بھی انسانی معاشرے کا ہی حصہ ہیں۔ خصوصی افراد کے حقوق کو انسانی حقوق تسلیم کیئے بغیر متوازن معاشرے کا قیام ناممکن ہے۔
حکومت وقت کو معاشرے میں آگہی کے حوالے سے ایک بڑا پروگرام شروع کرنا چاہیئے۔ پرنٹ، الیکٹرانک میڈیا اور سول سوسائٹی اس ضمن میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ شروع میں جب پی ٹی وی ایک اکیلا چینل تھا۔ سماعت سے محروم افراد کے لئے اشاروں میں بھی خبریں چلتی تھیں۔ توقع کی جارہی تھی کہ نئے چینلز اس میں اضافے کا باعث بنیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جدید میڈیا کے دور میں سماعت سے محروم افراد نمائندگی سے محروم نظر آتے ہیں جسکی وجہ سے معاشرے اور سماعت سے محروم افراد کے درمیان فاصلوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
سوال: شادی کب ہوئی؟ کیا رشتے کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
تعلیم اور روزگار کی وجہ سے شادی کے معاملے میں ذیادہ مشکلات پیش نہیں آئیں سترہ سال پہلے شادی کے بندھن میں بندھے۔ شادی کے وقت والد صاحب نے چوائس دی تھی کہ اگر چاہیں تو بولنے والی لڑکی سے بھی شادی ہوسکتی ہے۔ لیکن میں نے سماعت سے محروم لڑکی کو اپنے لئے پسند کیا۔ اور اپنی زندگی سے بہت مطمئن ہوں۔
سوال۔ آپ کے مشاغل کیا ہیں؟ فارغ وقت کیسے گزارتے ہیں؟

آصف امین فاروقی کو فارغ اوقات میں کمپیوٹر گرافک ڈیزائننگ ، انٹرنیٹ ، سماعت سے محروم برادری سے واٹس ایپ پر رابطہ ، یوٹیوب سے اسلامک لرننگ، اور ٹین پن بولنگ کرنا پسند ہے

آصف امین فاروقی کو فارغ اوقات میں کمپیوٹر گرافک ڈیزائننگ ، انٹرنیٹ ، سماعت سے محروم برادری سے واٹس ایپ پر رابطہ ، یوٹیوب سے اسلامک لرننگ، اور ٹین پن بولنگ کرنا پسند ہے

فارغ اوقات میں کمپیوٹر گرافک ڈیزائننگ ، انٹرنیٹ ، سماعت سے محروم برادری سے واٹس ایپ پر روابط ، یوٹیوب سے اسلامک لرننگ، اور ٹین پن بولنگ کرنا پسند ہے۔
سوال: ترکی میں خصوصی افراد کے کھانا پکانے کے مقابلے کیوں منعقد کیئے جاتے ہیں؟ آپ لوگ کتنی مرتبہ وطن عزیز کی نمائندگی کر چکے ہیں؟
ترکی کے شہر استنبول میں ہر سال خصوصی افراد کی کوکنگ کے بین الاقوامی مقابلے منعقد کرائے جاتے ہیں۔ کھانا پکانے کے ان مقابلوں میں آذربائیجان ، بوسنیا ہرزیگووینا ، تیونس ، مقدونیہ ، مصر ، قطر ، پاکستان ، قازقستان ، کوسوو سمیت مختلف ممالک سے خصوصی افراد کو مدعو کیا جاتا ہے۔ جیوری خصوصی حریفوں کی کھانا پکانے کی مہارت کا اندازہ لگاتی ہے۔ فاتحین کو “گولڈن کوکنگ پاٹ ورلڈ ایوارڈ” پیش کیا جاتا ہے۔ اس تقریب کا اہتمام ترکی کی خاندانی اور سماجی پالیسیوں کی وزارت ، ترکی کی وزارت ثقافت اور سیاحت وزارت اور باسلر بلدیہ کے اشتراک سے کیا جاتا ہے۔ تقریب کے انعقاد کا مقصد خصوصی افراد کی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ اسمیں میں نےاور میری بیگم نے شرکت کی۔ اہلیہ کو اس تقریب میں دو مرتبہ پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہے۔
سوال۔ مستقبل میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟
اپنے مشن کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔ وطن عزیز کے ہر سماعت سے محروم شخص کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں، اپنی کمیونٹی کے ہر تعلیم یافتہ فرد کو روزگار فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ منفی معاشرتی رویوں کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔
سوا؛۔ اپنی کیمونٹی کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
اعتماد ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی مدد سے آپ اپنی تمام مشکلات کا حل نکال سکتے ہیں۔سماعت سے محروم دوست تعلیم اور ہنر پر توجہ دیتے ہوئے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

Facebook Comments

Website Comments

POST A COMMENT.