رپورٹ غلط نکلی، وہ پیدا ہوا تو اسپتال میں کہرام مچ گیا، ماں منہ چھپاکر رونے لگی
رپورٹ اور سارے ٹیسٹ کے بعد ڈاکٹرز نے ماں کو بتایا کہ بچہ نارمل ہے مگر پھر عجب سانحہ ہوگیا
ماں نے اسے جنم دیا تو وہ ایسا بچہ تھا جس کے بازو تھے نا ٹانگیں ۔
شخصیات ویب نیوز
امنگ پیدا کرنے والی کہانی
ڈاکٹرز کی طر ف سے جاری کردہ رپورٹس نے اُ س کی ماں کو بتا یا تھا
آپ کا بچہ بالکل نارمل ہے”۔
مگر4 دسمبر1982ءکو ہسپتال میں کہرام مچ گیا ۔ ہسپتال کا سارا عملہ پریشان تھا۔ جب اُس کے باپ کو بتایا گیا تو وہ ہسپتال چھوڑ کر باہر چلا گیا اُس کی ماں یہ جاننے کے لیے بے تاب تھی کہ اُس کا بچہ کیسا ہے مگر ہسپتال کا عملہ اُسے بتا نہیں رہا تھا۔ مگر ماں کے اصرار پر جب ڈاکٹروں نے بتایا:
آپ نے ایک ایسے بچے کو جنم دیا ہے جس کے نا بازو ہیں نا ٹانگیں۔
یہ خبر سنتے ہی وہ کپڑے میں منہ چھپا کر رونے لگی۔ اُس کے ماں باپ نے اُسے بہت زیادہ پیار دیا ، اتنا پیار کے اُسے کسی چیز کی کمی محسوس نا ہو مگر پھر بھی اُسے اپنی محرومیوں کا اندازہ تھا وہ اسکول میں دوسرے بچوں کی طرح بھاگ نہیں سکتا تھا وہ اُن کے ساتھ کھیل نہیں سکتا تھا۔ وہ اکثر سوچا کرتا تھا : “خدا نے مجھے ایسا کیوں پیدا کیا ؟
“شاید میرے ماں باپ نے کوئی گنا ہ کیا ہو۔۔۔لیکن ساتھ ہی وہ یہ سوچنے لگتا کہ اُن کے گناہ کی سزا خدا نے مجھے کیوں دی”؟
“وہ اکثر سوتے وقت سوچتا کہ صبح جب میں اُٹھوں گا تو اللہ تعالیٰ مجھے ہاتھ اور ٹانگیں عطا کر دے گا”۔
مگر کبھی ایسا ہوتا نہیں تھا۔ پھر اُس کی زندگی میں تبدیلی آنے لگی وہ سوچنے لگا:
“خدا نے کوئی چیز بیکار پیدا نہیں کی ۔۔۔۔کوئی نا کوئی ایسا کام ضرور ہے جو ہاتھ پاﺅں رکھنے والے نہیںکر پا رہے جس کے لیے خدا نے مجھے پیدا کیاہے۔ بس مجھے اپنی پیدائش کے مقصد کو جانناہے”۔
وہ ایک دن کیچن میں اونچی جگہ پر بیٹھا اپنی ماں کو کھانا بناتے ہوئے دیکھ رہا تھا جب اُس کے ذہن میں خیال ہے:
“اگر میں یہاں سے پورے زور کے ساتھ نیچے گروں اور زمین سے ٹکرائوں تو میں مر جائوں گا”؟
وہ اپنی زندگی ختم کرنے کا سوچ رہاتھا جب ایک اور خیا ل نے اُس کے ذہن میں جگہ بنائی:
“اگر میں نا مرا تو مجھے اپنے ماں باپ کو بتانا پڑے گا کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟وہ جو مجھے اتنے پیارسے میری دیکھ بھال کر رہے ہیں میں اُن کے سامنے کیا جواب دوں گا”؟
ایسے ہی وقت گزرتا گیا اور اُس نے 21 سال کی عمر میں Griffith University سے گریجویشن کر لی ۔ اب اُس نے عملی زندگی میں اُتر نا تھا ۔ بہت سوچ بچار کرنے کے بعد اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک Motivational Speaker بنے گا اور دنیا کو Inspire کرے گا۔ اپنے زمانہ ِ طالب علمی میں وہ بہت سے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا۔ اُس کی کوششوں کو دیکھتے ہوئے 1990ءمیں اُسے Australian Young Citizen Award سے نوازا گیا۔ اُس کی رفتار زمانے کی رفتار سے کہیں تیز تھی وہ
آگے بڑھتا گیا۔ دنیا کے دکھ کے مارے انسانوں کو اپنی کہانی سنا سنا کر جینے کی اُمید دیتا گیا۔ دنیا نے اُسے ہاتھوں میں اُٹھا لیا ۔ انسانیت کے لیے اُس کی خدمات کو دیکھتے ہوئے اُسے2005ءمیں Young Australian of the Year Award کے لیے نامزد کیا گیا۔
وہ ایک پروگرام میں تھا جب اُس کے سننے والوں میں سے ایک خوبصورت لڑکی کھڑی ہوئی اوراُس نے سوال کیا:
“آپ نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی”؟
اُس نے جواب دیا:
“ابھی تک کوئی ایسا ملا ہی نہیں”۔
لڑکی نے کہا:
“کیا آپ مجھے سے شادی کریں گے”؟
اور اس طرح دو خوبصورت لوگوں کی داستان ِ حیات چل نکلی۔
2010
میں اُس کی پہلی کتاب Life without Limits: Inspiration for Ridiculously Good Lifeمنظرِ عام پر آئی اس کے ساتھ ساتھ اُس نے Life without limbs کے نام سے ایک ادارہ قائم کر رکھا ہے ۔ وہ اکثر کہتا ہے :
“No arms, No legs, No worries”
وہ اپنے بیگ میں ایک عدد جوتوں کا جوڑا رکھتا ہے وہ اس لیے کہ وہ عجوبوں پر یقین رکھتا ہے۔ 23 سالہ Nick Vujicic بغیر بازوں
اور ٹانگوں کے فٹ بال اور سوئمنگ سمیت بہت سے کھیل کھیلتا ہے اور اپنی زندگی کو مزے سے جی رہا ہے۔ وہ ہر روز ہزاروں لوگوں کو اپنی کہانی سے درس دیتا ہے کہ زندگی اتنی بُری نہیں ہے جتنا ہم اِسے سمجھتے ہیں۔
یہ کہانیا ں سنانے کا مقصد اُن لوگوں میں مثبت سوچ کے ساتھ زندگی کے بارے میں سوچنے کی اُمنگ پیدا کرنا ہے جو مایوسی کی اندھیری کوٹھری میں مرمر کر جی رہے ہیں۔ لوگو! پریشانیوں کواپنے اُوپر سوار مت کر لینا یہ تو آتی ہی جانے کے لیے ہیں اور جاتے جاتے تم کوئی نیا سبق دے جاتی ہیں۔ مشکلات میں سے بھی اپنے کام کی چیز کھوجنا ہی زندگی ہے۔ وقت نے ہر صورت گزرنا ہے سانسوں کی مالا نے ہر پل ٹوٹنا ہے اب یہ تم پر ہے کہ وقت کو تم گزارتے ہو یا وقت تم کو گزارتا ہے ۔
اپنے وجود کے بارے میں جاننے کا جنون اگر آپ کو بے چین کرے تو اِن الفاظ کر پڑھنا اور کچھ پل ٹھہر کر اِ ن کے بارے میں سوچنا ضرور۔
“When there are millions and billions of people in this world. Then Why God has created you?
God wants something special from YOU which the billions cannot do”.
جب تک دم میں دم ہے سوئے منزل بڑھتے رہو۔
“If you want to know. Whether your mission on this planet Earth has been completed?
If you are ALIVE. Then it is NOT”.
POST A COMMENT.