عائشہ بیگ عاشی معروف شاعرہ ہیں ۔ ان کا یہ شعر بہت مقبول ہوا ہے
ردیف ِ مستقل ہوں میں غزل کی
میں کیوں بدلوں گی کیا میں قافیہ ہوں
خوشہ شاعری
عائشہ بیگ عاشی
مثلِ دریا یہ جو چڑھتا ہے اُتر جاتا ہے
وقت اچھا ہو بُرا ہو یہ گزر جاتا ہے
آنکھ سے اشک بلا وجہ نہیں بہتے ہیں
حد گزر جانے سے برتن بھی تو بھر جاتا ہے
۔۔۔۔۔
خمارِ عشق رکوع و سجود میں موجود
سبھی حدود سے باہر حدود میں موجود
میرے خیال مری سوچ میں تصور میں
رہینِ روح ہے لیکن وجود میں موجود
۔۔۔۔۔۔
بس اپنی ذات پہ منہائی کا عمل رکھا
جُڑا ہوا ہے تبھی میرا خانداں اب تک
۔۔۔۔۔
اشک بن کر اُبل رہے ہو تُم
میری آنکھوں میں جل رہے ہو تُم
تُم سویرا ہو زندگی کا مری
شام میں کیسے ڈھل رہے ہو تُم
دل میں آتش فشانِ الفت ہے
اور اُس سے نکل رہے ہو تُم
POST A COMMENT.