ثمینہ قریشی ، اک عظیم خاتون، پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کی سینئر نیوز ایڈیٹر

 ثمینہ قریشی کا تعلق لکھنو سے ہے، 1970میں ایم اے صحافت کرنے کے بعد ٹیلی وژن کو اپنا کیریئر بنایا

 ثمینہ قریشی کاتحریری ٹیسٹ اور انٹرویو ایک جرمن ٹیم نے کیا ، پھر جرمن ماہرین ہی نے انھیں تربیت بھی دی تھی

 صحافت کی بلندیوں کو چھونے والی ثمینہ قریشی کو پی ٹی وینے اقوام متحدہ میں بین الاقوامی خواتین کانفرنس کی رپورٹنگ کے لئے میکسیکو بھیجا

ثمینہ قریشی کو سی این این کی پہلی کوآرڈی نیٹر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، انہوں نے سی این این کے لیے 100سے زائد نیوز رپورٹس بنا کر پہلا سی این این ایوارڈ حاصل کیا

 نیوزپروڈیوسر کی حیثیت سے گروپ پانچ سے چھ میں سب سے پہلے ترقی کی، پی ٹی وی کی وہ پہلی خاتون صحافی ہیں جنہوں

 نے برلن، جرمنی سے ٹی وی پروڈکشن کورس کیا،ایک دستاویزی فلم پر ٹیلی و ژن سے پہلا ایوارڈ بھی انہوں نے حاصل کیا

 انہیں پی ٹی وی کی تاریخ میں طویل ترین مدت تک سینئر نیوز ایڈیٹر رہنے کا اعزاز حاصل ہے

19جون 2021، 8ذیقعدہ 1442ھ

شخصیات نیوز ڈیسک

 پی ٹی وی: بیتے دنوں کی کہانی

تحریر: شبیر ابن عادل

 ثمینہ قریشی کا تعلق لکھنو سے ہے، 1970میں ایم اے صحافت کرنے کے بعد ٹیلی وژن کو اپنا کیریئر بنایا

ثمینہ قریشی کا تعلق لکھنو سے ہے، 1970میں ایم اے صحافت کے بعد ٹیلی وژن کو اپنا کیریئر بنایا

جب میں نے 12جو ن 1985میں پاکستان ٹیلی وژن جوائن کیا تو اس وقت کراچی مرکز کے جنرل منیجر عبدالکریم بلوچ تھے، ان کے بہت سے پروگرام زمانہ ءطالب علمی سے دیکھتے آئے تھے۔ ان سے تفریح کے علاوہ سندھی زبان سیکھنے کا بھی موقع ملا تھا اور سندھ کی مالامال ثقافت کے بارے میں بھی آگہی ہوئی تھی۔

اس زمانے میں ثمینہ قریشی صاحبہ کراچی مرکز کی سینئر نیوز ایڈیٹرتھیں، ان کا تعلق لکھنو ¿ سے تھا۔ مجھے بہت خوشگوار حیرت ہوئی کہ جس دور میں اخبارات میں خواتین نہ ہونے کے برابر تھیں، ایک خاتون پی ٹی وی کراچی مرکز میں نیوز کی سربراہ تھیں اور نہ صرف سربراہ تھیں۔ بلکہ پورے آفس کو بہت عمدگی سے چلارہی تھیں۔

انہوں نے 1970میں ایم اے صحافت کرنے کے بعد ٹیلی وژن کو اپنا کیریئر بنایا اور معاون پروڈیوسر کی حیثیت سے ٹیلی وژن کے ایک ایسے شعبے میں قدم رکھا، جو کراچی کے علاقے شر ف آباد میں پی ٹی وی اسٹیشن کے قریب ایک مکان میں قائم تھا، میری مراد ایشین ٹیلی وژن سروس یا اے ٹی ایس سے ہے، جہاں ابتدائی برسوں میں پی ٹی وی کے لئے نیوز کوریج کی جاتی تھی۔ ان کاتحریری ٹیسٹ اور انٹرویو ایک جرمن ٹیم نے کیا تھا اور پھر جرمن ماہرین ہی نے انہیں تربیت بھی دی تھی۔

 ثمینہ قریشی کاتحریری ٹیسٹ اور انٹرویو ایک جرمن ٹیم نے کیا ، پھر جرمن ماہرین ہی نے انھیں تربیت بھی دی تھی

ثمینہ قریشی کاتحریری ٹیسٹ اور انٹرویو ایک جرمن ٹیم نے کیا ، پھر جرمن ماہرین ہی نے انھیں تربیت بھی دی تھی

انہوں نے تمام کٹھن اور آزمائشی مراحل سے گزرنے کے بعدانہوں نے صحافت کی ان بلندیوں کو چھولیا جہاں پاکستان سمیت دنیا بھر کی خاتون صحافیوں کو بھی ان کی ترقی پر فخر ہونے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی وی نے اقوام متحدہ میں بین الاقوامی خواتین کانفرنس کی رپورٹنگ کے لئے ثمینہ قریشی کو میکسیکو بھیجا۔ انہوں نے ٹیلی ویڑن ہی کو اپنا گھر بنالیااور مکان کو گھر بنانے کا فن تو عورت کو آتا ہی ہے۔

کراچی کی ثمینہ قریشی اور اسلام آباد کے شکورطاہر کا شمار ٹیلی و ژن کے ان ذہین صحافیوں میں ہوتاہے جنہوں نے نیوزپروڈیوسر کی حیثیت سے گروپ پانچ سے چھ میں سب سے پہلے ترقی کی۔ ثمینہ قریشی پی ٹی وی کی وہ پہلی خاتون صحافی ہیں جنہوں نے برلن، جرمنی سے ٹی وی پروڈکشن کورس کیا۔ایک دستاویزی فلم پر ٹیلی و ژن سے پہلا ایوارڈ بھی انہوں نے حاصل کیا جو ادارت کے شعبے میں ان کی اعلیٰ کارکردگی اور بے مثال خدمات کا اعتراف ہے۔

پی ٹی وی کے ابتدائی برسوں میں دنیا کے مختلف ملکوں کے درمیان مصنوعی سیارے سے نیوز فلموں کے تبادلے کی سہولت میسر نہیں تھی، بلکہ فضائی راستے سے نیوز فلموں کا تبادلہ ہوا کرتاتھا۔ ا س کام میں کئی کئی دن لگ جاتے تھے اور اسی طرح پاکستان کی خبریں اور فلمیں کئی کئی دن کی تاخیر سے بیرون ملک پہنچتی تھیں۔ اس زمانے میں فلموں کے تبادلے کے لئے ایک علیحدہ شعبہ قائم تھا اور ثمینہ قریشی وہ پہلی خاتون افسر ہیں، جنہیں کوآرڈی نیٹر یعنی پاکستان ٹیلی وژن کے لئے پہلا رابطہ افسر مقرر کیا گیا۔

 خاص طورپر ا ±س دور میں سرکاری نیوز کوریج کے علاوہ ایک نیا عنصر ہماری کوریج میں شامل ہوگیا تھا، یعنی ایم کیوایم۔ وہ نئی نئی تشکیل پائی تھی (1986میں) اس کی کوریج بہت مشکل کام ہوا کرتی تھی۔ کیونکہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اکثر اپنی نیوز کانفرنس اور جلسوں میں پی ٹی وی سے شکوہ کیا کرتے تھے کہ سرکاری لوگوں کے لئے تو نیا ویڈیو کیمرہ اور ہمارے لئے وہ پرانا گھسا پٹا ”گھِر گھِر کرنے والا“ کیمرہ۔ کئی مرتبہ میں نے دیکھا کہ مس ثمینہ اپنے آفس میں کسی سے فون پر بات کررہی ہیں، کبھی تو ہم انہیں بات کرتا دیکھ کر چلے جاتے اور کبھی وہ اشارے سے ہمیں بیٹھنے کا کہتیں تو معلوم ہوتا کہ وہ الطاف بھائی سے بات کررہی تھیں۔

 صحافت کی بلندیوں کو چھونے والی ثمینہ قریشی کو پی ٹی وینے اقوام متحدہ میں بین الاقوامی خواتین کانفرنس کی رپورٹنگ کے لئے میکسیکو بھیجا

صحافت کی بلندیوں کو چھونے والی ثمینہ قریشی کو پی ٹی وینے اقوام متحدہ میں بین الاقوامی خواتین کانفرنس کی رپورٹنگ کے لئے میکسیکو بھیجا

ایم کیو ایم کی نارمل نیوز کوریج کے علاوہ ان کی اپیل پر شہر میں آئے دن کی ہڑتالیں اور ہنگامے، اس کے علاوہ جنرل ضیا کے دور میں ہونے والے بم دھماکے، علی گڑھ کالونی اور شہر کے بعض علاقوں میں مہاجروں کے قتل عام کی وجہ سے کراچی مرکز خاصا دباو ¿ میں آگیا تھا اور اس سارے معاملے کو ایک باہمت خاتون بہت عمدگی سے چلارہی تھیں۔

وہ صبح دس بجے سے رات دس بجے تک آفس میں کام کرتی تھیں۔ میں جب سہ پہر آفس میں آتا تو انہیں موجود پاتا اور جب رات ساڑھے نو بجے واپس جاتا تو بھی وہ آفس کے معاملات نمٹا رہی ہوتیں۔

 اس زمانے میں روزانہ صبح سب سے پہلے پی ٹی وی کے تمام مراکز کے انچارج راولپنڈی ہیڈکوارٹرز میں ڈائریکٹرنیوز سے ٹیلی فونک میٹنگ کرتے۔ اور اس دن ہونے والے تمام نیوز کوریج سے آگا ہ کرتے۔ اس موقع پر ہر مرکز سے رات نوبجے کے خبرنامے کے لئے خبروں کی تعداد اور دورانئے کا تعین کیا جاتا۔ ان میں کراچی سے خبروں کے دورانئے کا سب سے بڑا حصہ ہوتا تھا۔ یعنی پندرہ سے پچیس منٹ تک۔ اور خبرنامے کے بعد تجارتی خبریں بھی کراچی ہی سے ہواکرتی تھیں۔ اس کی وجہ جیسا کہ میں نے پہلے بتائی کہ غیرملکی فلمیں اور خبریں کراچی ہی آیا کرتی تھیں اور جب صدر یا وزیر اعظم غیرملکی دوروں پر جاتے تو ان کی سرگرمیوں کی ویڈیوز کی سیٹلائیٹ فیڈ بھی کراچی ہی موصول ہوتی تھی۔ کبھی کبھار خبرنامہ شروع ہونے سے صرف پندرہ منٹ قبل ہی نیوز فیڈ موصول ہوتی۔ ایسے میں اسے صرف پندرہ منٹ کے اندراسے ایڈٹ کرنا، اور اس کی خبربناکر خبرنامے کے ابتدائی حصے میں شامل کرنا۔ اس حوالے سے کسی قسم کی کوتاہی ناقابل معافی جرم تھا۔ اس دوران ایڈیٹنگ اور نیوز روم میں قیامت کا سماں ہوتا۔

عام دنوں میں کراچی ٹی وی مرکز کے کنٹرول روم میں روزانہ تین نیوز فیڈز موصول ہوتیں، ایشیا وڑن ون اور ٹو(بالترتیب بیس اور دس منٹ دورانیہ کی) اور وزنیوز (Visnews)جس کا دورانیہ بیس منٹ ہوا کرتا تھا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ایشیا وڑن ایشیائی ملکوں یعنی بھارت، پاکستان، چین، جاپان، انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگاپور اور ہانگ کانگ کی نیوز فلموں پر مشتمل ہوتی تھی۔جبکہ وزنیوز کا دائرہ کار پوری دنیا پر محیط تھا وہ مختلف ملکوں کے تمام اہم نیوز ایونٹس کی کوریج بھیجتی تھی۔ جس میں سیاسی، معاشی، کھیل اور دلچسپ خبریں بھی شامل ہوتی تھیں۔ ان نیوز فیڈز کو نیوز پروڈیوسر دیکھتے اور پھر پی ٹی وی کے پنڈی ہیڈکوارٹرز میں ذمہ داروں کو آگاہ کرتے اور اہم غیرملکی خبریں انگریزی خبروں کے لئے منتخب کیا کرتے تھے۔ ان کی اسکرپٹس تیزی کے ساتھ تیار کی جاتیں، کچھ پروڈیوسر ان فلموں کو ایڈٹ کرنے کے لئے کنٹرول روم جاتے۔ ان کی اسکرپٹس فلموں کے ساتھ سنکرونائز کرکے تیار کی جاتیں، یعنی جیسا دکھایا جارہا ہے، ویسا ہی پڑھا بھی جارہا ہو۔ اورنیوز کاسٹرز کو اس کی ریہرسل بھی کرائی جاتی۔ یہ سارا کام نیوز فیڈ موصول ہونے کے صرف ایک گھنٹے کے اندر اندر انجام دیا جاتا۔

 اسی طرح نو بجے کے خبرنامے میں وزنیوز کی فلموں کا بڑا حصہ استعمال کیا جاتا تاکہ ناظرین کو بین الاقوامی واقعات سے باخبر رکھا جاسکے۔ مس ثمینہ قریشی نے نیوز فیڈز کے لئے مختلف پروڈیوسرزکو تعینات کیا تھا، لیکن وہ خود بھی باقاعدگی سے نیوز فیڈز دیکھا کرتی تھیں۔ یا تو وہ کنٹرول روم میں یہ کام کرتیں یا نیوز روم میں ٹی وی مانیٹر پر یہ فیڈ دیکھا کرتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے آفس کے اوقات کا ایک تہائی وقت ان نیوز فیڈز کو دیکھنے میں صرف کرتی ہیں۔ پی ٹی وی جوائن کرنے کے بعد میں بھی ان سیٹلائیٹ فیڈز کو بہت دلچسپی سے دیکھاکرتا تھا، کیونکہ زیادہ تر غیرملکی خبروں کو اردو کے قالب میں میں ہی ڈھالتا تھا۔ ان نیوز فیڈز کے علاوہ دنیا بھر میں کھیلوں کے اہم مقابلوں کی تفصیلی نیوز بھی موصول ہوتیں۔کبھی ان کی ریکارڈنگ اور کبھی براہ راست۔

 نیوزپروڈیوسر کی حیثیت سے گروپ پانچ سے چھ میں سب سے پہلے ترقی کی، پی ٹی وی کی وہ پہلی خاتون صحافی ہیں نے برلن، جرمنی سے ٹی وی پروڈکشن کورس کیا،ایک دستاویزی فلم پر ٹیلی و ژن سے پہلا ایوارڈ بھی انہوں نے حاصل کیا

نیوزپروڈیوسر کی حیثیت سے گروپ پانچ سے چھ میں سب سے پہلے ترقی کی، پی ٹی وی کی وہ پہلی خاتون صحافی ہیں نے برلن، جرمنی سے ٹی وی پروڈکشن کورس کیا،ایک دستاویزی فلم پر ٹیلی و ژن سے پہلا ایوارڈ بھی انہوں نے حاصل کیا

ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کی وجہ سے کراچی میں ہونے والے بہت سے واقعات قومی دلچسپی کے حامل ہواکرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ کراچی مرکز کو خبرنامے کا بڑا حصہ ملتا۔ لیکن پنڈی کے مقابلے میں کراچی میں نیوز پروڈیوسرز اور اسسٹنٹ نیوز پروڈیوسرز کی تعداد چوتھائی سے بھی کم تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس دور میں کراچی مرکز کے پروڈیوسرز کو شدید دباو ¿ میں کام کرنا پڑتا تھا۔ وہ رپورٹنگ بھی کرتے اور نیوز اسٹوری کی تلاش میں مختلف مقامات جاتے، اسپاٹ کیمرہ رپورٹنگ کرتے، اپنی خبریں تیار کرتے اور وڑیول ایڈٹ کرتے۔ اس کا انحصار خبروں اور واقعات پر ہوا کرتا تھا۔

ثمینہ قریشی نے خود کو پی ٹی وی کے لئے وقف کردیا تھا، نہ تو شہر میں ہونے والی سماجی تقریبات میں شرکت کرتیں اور نہ ہی اپنی فیملی تقریبات میں۔ بس پی ٹی وی اور وہ۔ ایک مرتبہ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ شبیر، آپ صرف سخت محنت سے اپنی جگہ بناسکتے ہیں، اس کے علاوہ ترقی کا کوئی اور راستہ نہیں۔ اس لئے اگر الیکٹرانک میڈیا میں ترقی کرنا ہے تو آپ کو بھرپورمحنت، پیشہ ورانہ مہارت اور درست وقت پر فوری فیصلے کی عادت ڈالنا ہوگی۔

ثمینہ قریشی صاحبہ 1980سے 1990تک کراچی مرکز کی سینئر نیوز ایڈیٹر رہیں۔اس کے بعد وہ ترقی پاکر کنٹرولر نیوز بنادی گئیں۔ اس طرح انہیں پی ٹی وی کی تاریخ میں طویل ترین مدت تک سینئر نیوز ایڈیٹر رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ پی ٹی وی کے کسی مرکز میں اب تک کوئی اتنی طویل مدت تک سینئر نیوز ایڈیٹر نہیں رہا۔اس زمانے میں جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ کراچی مرکز کی اہمیت بہت زیادہ تھی، دیہہ مندرو کے ارتھ اسٹیشن پر سیٹلائیٹ فیڈ آتی تھی اور ہم کراچی مرکز میں اسے ریکارڈ کرتے اور اس میں سے دنیا بھر کی نیوز کوریج میں سے اپنے کام کی خبریں نکالتے۔ جن میں سیاسی اور کھیلوں کی خبریں ہوا کرتی تھیں۔

 ثمینہ قریشی کو سی این این کی پہلی کوآرڈی نیٹر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، انہوں نے سی این این کے لیے 100سے زائد نیوز رپورٹس بنا کر پہلا سی این این ایوارڈ حاصل کیا


ثمینہ قریشی کو سی این این کی پہلی کوآرڈی نیٹر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، انہوں نے سی این این کے لیے 100سے زائد نیوز رپورٹس بنا کر پہلا سی این این ایوارڈ حاصل کیا

ثمینہ قریشی صاحبہ کو سی این این کی پہلی کوآرڈی نیٹر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ انہوں نے سی این این جیسے ادارے کے لئے 100سے زائد نیوز رپورٹس بنا کر پہلا سی این این ایوارڈ حاصل کیا، جسے پی ٹی وی کے ”کرتا دھرتا“ افراد نے کبھی اہمیت نہ دی اورنہ ہی کسی ایوارڈ کا مستحق قرار دیا۔ پی ٹی وی کی بربادی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اس میں ٹیلنٹ کے بجائے رنگ ونسل اور زبان کی بنیاد پر تفریق کی گئی، اس وقت مجھے محسن بھوپالی کا وہ شعر یا د آرہا ہے

 نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھئے

منزل انہیں ملی، جو شریک سفر نہ تھے

اس دور میں مقامی خبروں کے علاوہ شام چھ بجے انگریزی خبریں اور رات نو بجے خبرنامہ ٹیلی کاسٹ ہوتا۔ ہر گھنٹے بعد کے بلیٹن شروع نہیں ہوئے تھے۔ کچھ عرصے بعد

ثمینہ قریشی کا اسلام آباد ٹرانسفر ہوگیا تھا۔

 انہیں پی ٹی وی کی تاریخ میں طویل ترین مدت تک سینئر نیوز ایڈیٹر رہنے کا اعزاز حاصل ہے


انہیں پی ٹی وی کی تاریخ میں طویل ترین مدت تک سینئر نیوز ایڈیٹر رہنے کا اعزاز حاصل ہے

Facebook Comments

POST A COMMENT.