سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو خصوصی عدالت نےسزائے موت کا حکم دے دیا

سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم دے دیا

خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا، ایک جج کا فیصلے سے اختلاف، پرویز مشرف نے آئین کو پامال کیا، خصوصی عدالت

شخصیت ویب نیوز
رپورٹ: سید ماجد علی
سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم دے دیا۔سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت اسلام آباد کی خصوصی عدالت میں ہوئی۔ مشرف کے وکلائ سلمان صفدر اور رضا بشیر عدالت میں پیش ہوئے۔ خصوصی عدالت نےتاریخی فیصلہ سناتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئےسزائے موت کا حکم دے دیا۔ عدالت نےمختصر فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیے کہ مشرف نے 3نومبر 2007 کو آئین پامال کیا۔خصوصی عدالت نے دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا۔ ایک جج نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ فیصلہ جسٹس سیٹھ وقار نے سنایا جبکہ تفصیلی فیصلہ 48 گھنٹے میں جاری کیا جائے گا۔دوران سماعت وکیل رضا بشیرنےمو¿قف اپنایا کہ 342 کا بیان ریکارڈ کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی ہے،پرویز مشرف کو فیئر ٹرائل کا حق ملنا ضروری ہے، مشرف کو دفاع کا حق ملنا چاہیے۔ جسٹس نذر اکبر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ 342 کے بیان کا حق ختم کر چکی ہے،پرویز مشرف چھ مرتبہ 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کا موقع ضائع کر چکے،استغاثہ اور آپ دونوں ہی مشرف کا دفاع کر رہے ہیں۔ جسٹس وقار احمدنے ریمارکس دیے کہ عدالت نے کہا تھا مشرف کو جب چاہیں پیش کر دیں۔ رضا بشیربولےپرویز مشرف کی صحت اس قابل نہیں کہ وہ پیش ہو سکیں،دفعہ 342 کے بیان کے بغیر مشرف کا دفاع کیسے کروں؟ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ آپ دفاع نہیں کر سکتے اس کا مطلب ہے آپکے دلائل مکمل ہو گئے۔ رضا بشیر نے کہا کہ عدالت 15 سے 20 دن کا وقت دے مشرف بیان ریکارڈ کرائیں گے۔ جسٹس وقار احمد نے کہا342 کے بیان کیلئے کمیشن بنانے کی درخواست کا جائزہ لیں گے۔دوران سماعت پراسکیوٹر علی ضیائ باجوہ نے مو¿قف اپنایا کہ مشرف کیخلاف تحقیقاتی ٹیم کے دو ارکان کے بیان ریکارڈ نہیں ہوئے، عدالت میں ایک درخواست تحقیقاتی ٹیم کے ارکان کی طلبی کی بھی ہے،ایسے ٹرائل پر دلائل کیسے دوں جو آگے چل کر ختم ہوجائے،عدالت حکومت کو درخواستیں دائر کرنے کا وقت دے،ملزم کا دفعہ 342 کا بیان بھی ریکارڈ نہیں ہو سکا۔ جسٹس نذر اکبر نے ریمارکس دیے کہ آپ وہ بات کر رہے ہیں جو ملزم کے دلائل ہونے چاہیں، عدالت صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پابند ہے۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ آپ حتمی دلائل نہیں دے سکتے تو روسٹم سے ہٹ جائیں۔
یاد رہے کہ 31مارچ 2014 کو عدالت نے مشرف پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ 19جون 2016 کو پرویز مشرف کو مفرور قرار دیا گیا تھا۔خصوصی عدالت 20نومبر 2013 کو قائم کی گئی تھی جبکہ خصوصی عدالت کی 6بار تشکیل نو ہوئی تھی۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.