علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی شخصیت وشاعری کی تین جہتیں، تصور پاکستان، ملت اسلامیہ اورقرآن

علامہ ڈاکٹر محمد اقبال  کی شخصیت و شاعری کی تین جہتیں تصور پاکستان، ملت اسلامیہ اور قرآن

علامہ ڈاکٹر محمد اقبال  سے ہر پاکستانی خواہ مسلمان ہو یا غیرمسلم، ادیب وشاعر ہو، سیاست داں یا عام آدمی سہ گونہ رشتوں اور ایک خصوصی نسبت کے ساتھ منسلک ہے

علامہ ڈاکٹر محمد اقبال عالمی ملت اسلامی اور امت مرحومہ کی عظمت و سطوت پارینہ کے سب سے بڑے مرثیہ خواں ہیں اوراس کے احیا و نشاة ثانیہ کے سب سے بڑے حدی خواں بھی

شخصیات ویب نیوز

تحریر : سلیم آذر

28اپریل 2023جمعہ 7شوال 1444ھ

علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے ساتھ  پاکستان میں بسنے والا ہر پاکستانی خواہ وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم ، ادیب وشاعر ہو، سیاست داں یا عام آدمی ان کے ساتھ سہ گونہ رشتوں اور ایک خصوصی نسبت کے ساتھ منسلک ہے۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال  کی شخصیت وشاعری کی تین جہتیں ہیں، اول یہ کہ مملکت خداداد سرزمین جس میں ہم آزاد وخودمختار قوم کی حیثیت سے مقیم ہیںاس کا وجود وقیام علامہ مرحوم ہی کے تخیل وتصور کا رہین منت ہے۔ ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انھوں

 نے 1930ئ  میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔

دوسرے یہ کہ وہ عالمی ملت اسلامی اور امت مرحومہ جس سے ہم سب منسلک ہیں اس دور میں اس کی عظمت و سطوت پارینہ کے سب سے بڑے مرثیہ خواں بھی اقبال ہیں اوراس کے احیا و نشاة ثانیہ کے سب سے بڑے حدی خواں بھی اقبال ہی ہیں۔ تیسرے یہ کہ وہ دین حق جس کے ہم سب نام لیوا ہیں۔ اس دور میں خصوصاً جدید تعلیم یافتہ طبقے میں اس کے اسرار ورموزکے سب سے بڑے رازداں بھی اقبال ہیں اوراس کی روح باطنی وجسد ظاہری دونوں کے تجدیدواحیا کے عظیم ترین نقیب کی حیثیت بھی اقبال ہی کو حاصل ہے۔

علامہ اقبال کی شخصیت وشاعری کی تین جہتیں ، تصور پاکستان، ملت اسلامیہ اورقرآن ہے، ان کا نمایاں کارنامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے جو انھوں نے 1930ءمیں مسلم لیگ کے الہ آباد اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے میں پیش کیا

علامہ اقبال کی شخصیت وشاعری کی تین جہتیں ، تصور پاکستان، ملت اسلامیہ اورقرآن ہے، ان کا نمایاں کارنامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے جو انھوں نے 1930ءمیں مسلم لیگ کے الہ آباد اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے میں پیش کیا

علامہ اقبال کے ساتھ یہ سہ گونہ تعلق ہرپاکستانی کو حاصل ہے۔اس کے ساتھ ہی روح اقبال سے ایک چوتھی خصوصی نسبت قرآن حکیم ہے جو نہ صرف احیائے اسلام کی لازمی شرط اورایمان کا اصل منبع اورسرچشمہ ہے۔ گویا ملت اسلامی کی نشاة ثانیہ اورتشکیل جدید کی کوشش ہو یا احیائے اسلام اور غلبہ دین کی جدوجہد دونوں کا اصل منبع اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلمانوں کا قرآن حکیم کے ساتھ صحیح تعلق دوبارہ استوار ہو۔

 چنانچہ علامہ اقبال کے کلام میں امت مسلمہ کے احیا کی نہ صرف امید بلکہ واضح پیغام بھی موجود ہے

نکل کے صحرا سے جس نے روما سلطنت کو الٹ دیا تھا

سنا ہے قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

اور

اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا

ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا

اور

سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

 ملت اسلامیہ کے ترجمان سے قبل علامہ کی شاعری کے دور اول میں ان کا جذبہ حب الوطنی چھلکا پڑتا ہے بلکہ ہندی قوم پرستی کے آثار بھی ملتے ہیں مثلاً

ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

 لیکن پھر وہ عالمی ملت اسلامی کے ترجمان کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں اور کہتے ہیں

چین وعرب ہمارا ہندوستان ہمارا

مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

 فکروتخیل کی یہ دو انتہا علامہ اقبال کی شخصیت وفن کے ساتھ ساتھ مسلمان ہند سے ان کے اخلاص کی عمدہ مثال بھی ہے کیوںکہ ایک طرف تو تصور پسندی( Idealism) اور دوسری طرف حقیقت پسندی (Realism) یہ ثابت کرتی ہے کہ علامہ ایک جانب اگرفکروخیال کی بلندی کو چھورہے ہیں اورعالمی ملت اسلامیہ کی ترجمانی کررہے ہیں تو دوسری جانب وہ اپنے نزدیکی ماحول کے تلخ حقائق سے بھی بے تعلق نہیں ہیں اورمسلمانان ہند کے مسائل کاایسا بصیرت افروز حل بھی تجویز کرتے ہیں جواس وقت کی سپرپاورز کو کئی برسوںکے بعد بالآخر ماننا ہی پڑتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انگریز اورہندو علامہ کی اس تجویز سے ہٹ کر ہندوستان میں دوقومی مسئلے کا کوئی دوسرا حل تلاش نہیں کرپائے تھے اور انہیں بالآخر اسی تجویز پر عمل درآمد کرنا پڑا تھا۔ یہ علامہ اقبال کی بصیرت اورتدبر کا بین ثبوت ہے۔

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (9 نومبر 1877ئ  تا 21 اپریل 1938ئ  ) بیسویں صدی کے معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاست دان، صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے تاہم بنیادی وجہ شہرت ان کی شاعری ہے، وہ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ ”دا ری کنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام“ کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔

وہ 9 نومبر 1877 (بمطابق 3 ذیقعد 1294ھ) کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔ مختلف تاریخ دانوں کے مابین علامہ کی تاریخ ولادت پر کچھ اختلافات رہے ہیں لیکن سرکاری طور پر 9 نومبر 1877 کو ہی ان کی تاریخ پیدائش تسلیم کی جاتی ہے۔

انھوں نے 6مئی 1893 میں میٹرک کیا ، 1895میں ایف اے کے بعدگریجویشن کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور انگریزی ، فلسفہ اور عربی کے مضامین منتخب کیے۔ انگریزی اور فلسفہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتے اور عربی پڑھنے اورینٹل کالج جاتے جہاں مولانا فیض الحسن سہارنپوری ایسے بے مثال استاددرس دیتے تھے۔

 اس وقت تک اورینٹل کالج گورنمنٹ کالج ہی کی عمارت کے ایک حصّے میں قائم تھا اور دونوں کالجوں کے درمیان بعض مضامین کے سلسلے میں باہمی تعاون اور اشتراک کا سلسلہ جاری تھا۔1898 میں علامہ اقبال نے بی اے پاس کیا اور ایم اے (فلسفہ)میں داخلہ لے لیا۔یہاںپروفیسر ٹی ڈبلیوآرنلڈ کاساتھ میسّر آیا جنھوں نے آگے چل کر اقبال کی علمی اور فکری زندگی کا ایک حتمی رخ متعین کر دیا۔ اس دوران میں شاعری کا سلسلہ بھی چلتا رہا ، مگر مشاعروں میں نہ جاتے تھے۔ نومبر1899 کی ایک شام کچھ بے تکلف ہم جماعت انھیں حکیم امین الدین کے مکان پر ایک محفلِ مشاعرہ میں کھینچ کرلے گئے۔ بڑے بڑے سکّہ بند اساتذہ شاگردوں کی کثیر تعداد سمیت شریک تھے۔ سننے والوں کا بھی ایک ہجوم تھا۔ اقبال بالکل نئے تھے ، اس لیے ان کا نام مبتدیوں کے دور میں پکارا گیا۔ غزل پڑھنی شروع کی، جب اس شعر پر پہنچے کہ

موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے

قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے

تو اچھے اچھے استاد اچھل پڑے۔ بے اختیار ہو کر داد دینے لگے۔ یہاں سے اقبال کی بحیثیت شاعر شہرت کا آغاز ہوا۔

 اورینٹل کالج میں اپنے چار سالہ دورِ تدریس میں اقبال نے اسٹبس کی ”ارلی پلائجنٹس“اور واکر کی ”پولٹیکل اکانومی“کا اردو میں تلخیص و ترجمہ کیا ، شیخ عبدالکریم الجیلی کے نظریہ توحیدِ مطلق پر انگریزی میں ایک مقالہ لکھا اور ”علم الاقتصاد“کے نام سے اردو زبان میں ایک مختصر سی کتاب تصنیف کی جو1904 میں شائع ہوئی۔ اردو میں اپنے موضوع پر یہ اولین کتابوں میں سے ہے۔

1903میں گورنمنٹ کالج میں انگریزی کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔ بعد میں فلسفے کے شعبے میں چلے گئے۔ 25 دسمبر1905کواعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے داخلہ لے لیا، بیرسٹری کے لیے لنکنزاِن میں داخلہ لیا۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

ان کے استادوں میں سر عبدالقادر،وائٹ ہیڈ ، میگ ٹیگرٹ ، وارڈ ، براون اور نکلسن ایسی نادر روزگار اور شہرہ آفاق ہستیاں شامل تھیں۔

 براون اور نکلسن عربی اور فارسی زبانوں کے ماہر تھے۔ نکلسن نے اقبال کی فارسی مثنوی ”اسرار خودی“کا انگریزی ترجمہ بھی کیا جو اگرچہ اقبال کو پوری طرح پسند نہیں آیا مگر اس کی وجہ سے انگریزی خواں یورپ کے شعری اور فکری حلقوں میں اقبال کے نام اور کام کا جزوی سا تعارف ضرور ہوگیا۔ تعلیم مکمل ہوتے ہی وہ یورپ میں مزید نہیں رکے اور وطن واپس آگئے۔

لندن میں قیام کے دوران میں علامہ اقبال نے مختلف موضوعات پر لیکچروں کا سلسلہ بھی شروع کیا ، مثلاً اسلامی تصوّف ، مسلمانوں کا اثر تہذیب یورپ پر ، اسلامی جمہوریت ، اسلام اور عقلِ انسانی وغیرہ بدقسمتی سے ان میں ایک کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ملتا۔ ایک مرتبہ آرنلڈ لمبی رخصت پر گئے تو اقبال ان کی جگہ پر لندن یونیورسٹی میں چند ماہ کے لیے عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔

علامہ اقبال عالمی ملت اسلامی اور امت مرحومہ کی عظمت و سطوت پارینہ کے سب سے بڑے مرثیہ خواں ہیں اوراس کے احیا و نشاة ثانیہ کے سب سے بڑے حدی خواں بھی

 مصور پاکستان

علامہ اقبال بنیادی طور پر سیاست داں نہ تھے بلکہ انتہائی کوشش کے باوجود بھی وہ اپنے مزاج کو عملی سیاست کے ساتھ سازگار نہ بناسکے۔ اس کے باوجود انھوں نے برصغیر پاک وہند کی مسلمان قوم کے مستقبل کے بارے میں جو کچھ سوچا اوران کے مسائل کا جو حل پیش کیاوہ ان کی بیدار مغزی اورمعاملہ فہمی بلکہ سیاسی تدبر کا شاہکار ہے۔ 1930 سے قبل تو سوال ہی کیا پیدا ہوتا اس کے بعد بھی ایک طویل عرصے تک ہندوستان کی تقسیم کا خیال تک کسی کے ذہن میں نہیں آسکتا تھا۔ یہ صرف علامہ اقبال ہی کی نگاہ دور رس و دور بین تھی جس نے حالات کے رخ اورزمانے کی رفتارکو پہچان کر مسلمانان ہند کے جملہ مسائل کا حل اسے قرار دیا کہ ہندوستان کے کم از کم شمال مغربی گوشے میں واقع مسلم اکثریت کے علاقوں پر مشتمل مسلمانوں کی ایک آزاد اور خودمختار مملکت قائم کی جائے۔

علامہ اقبال ملت اسلامی اور امت مرحومہ کی عظمت و سطوت پارینہ کے سب سے بڑے مرثیہ خواں ہیں اوراس کے احیا و نشاة ثانیہ کے سب سے بڑے حدی خواں بھی

پاکستان کے ساتھ علامہ اقبال کا تعلق صرف ”مصور “ کا نہیں۔ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ اگرچہ خود عملی سیاست کے مرد میداں نہ تھے تاہم حالات کی صحیح نباضی اوران کی سیاسی بصیرت کا دوسرا شاہکار یہ ہے کہ انھوں نے اس وقت کے حالات میں مسلمان ہند کے قومی مقدمے کی پیروی کے لیے صحیح ترین وکیل ڈھونڈ نکالا اوران کی نگاہ دور رس نے مسلمان ہند کی قیادت عظمیٰ کے لیے قائداعظم محمد علی جناح کو منتخب کرلیا۔ اوریہ علامہ اقبال کے غایت خلوص واخلاص کا بین ثبوت اوران کے انکسار و تواضع کی دلیل قاطع ہے کہ انھوں نے اس قائد کے ساتھ ان کی تنظیم کے ایک صوبائی صدر کی حیثیت سے کام کرنا بھی منظور کرلیا حالانکہ ان کے مزاج کو اس قسم کے کامو ں کے ساتھ کوئی طبعی مناسبت نہ تھی۔ اس طرح علامہ مرحوم نے نہ صرف یہ کہ تصور پاکستان پیش کیابلکہ اس خاکے میں رنگ بھرنے کی عملی جدوجہد کے ابتدائی مراحل میں بنفس نفیس شرکت بھی کی گویا ”تحریک پاکستان“ کے کارکنوں کی فہرست میں شامل ہوگئے۔اس اعتبار سے علامہ اقبال کا ایک عظیم احسان ہراس مسلمان کی گردن پر ہے جو پاکستان کی فضا میں ایک آزاد شہری کی حیثیت سے سانس لے رہا ہے۔ افسوس کہ ہم نے بہ حیثیت قوم خود پاکستان کی قدر نہ کی تو علامہ کے احسان کو کیا یاد رکھتے

Facebook Comments

POST A COMMENT.