فیض انٹرنیشنل فیسٹیول لاہور میں جاوید اختر اور شبانہ اعظمی کی خصوصی شرکت، میلہ لوٹ لیا

 فیض انٹرنیشنل فیسٹیول میں شرکت کے لیے بھارت کے نامور شاعرجاوید اختر اور معروف اداکارہ شبانہ اعظمی خصوصی طور پر پاکستان تشریف لائے۔ فیض میلے میں نوجوانوں کی بڑی تعداد میں شرکت، پاکستان کے لیےپیار و محبت کا پیغام لے کر آئے ہیں، شبانہ اعظمی اور جاوید اختر کا پاکستان آ مد پر اظہار، دونوں مہمانوں کی گورنر پنجاب چوہدری سرور سے ملاقات

فیض عالمی میلے میں پاکستان بھرسے ادیبوں، شاعروں، فنکاروں ،صحافیوں ، دانشوروںاوردس سے زائد ممالک سے فنون لطیفہ کی شخصیات پر مشتمل غیر ملکی وفود نے شرکت کی، الحمرا آرٹس سینٹر کو فیض کی خوبصورت تصاویر سے سجایا گیا تھا

اردو کے ممتاز پاکستانی شاعر فیض احمد فیض کی یاد میں عالمی ادبی میلہ ” فیض انٹرنیشنل   فیسٹیول“ پاکستان کے شہر لاہور میں منعقد ہوا۔

گورنرپنجاب چوہدری سرور کے ہمراہ جاوید اختر اور شبانہ اعظمی کا گروپ

گورنرپنجاب چوہدری سرور کے ہمراہ جاوید اختر اور شبانہ اعظمی کا گروپ

تین روزہ بین الاقوامی میلے کا انعقاد لاہور کے الحمراآرٹس سینٹر میں کیا گیا تھا۔ اس موقع پر

الحمرا آرٹس سینٹر کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا اور فیض احمد فیض کی تصاویر بھی آویزاں کی گئی تھیں۔

فیض عالمی میلے میں پاکستان بھرسے ادیبوں، شاعروں، فنکاروں ،صحافیوں ، دانشوروں کے علاوہ اوردس سے زائد ممالک سے فنون لطیفہ کی شخصیات پر مشتمل غیر ملکی وفود نے شرکت کی۔ جب کہ بھارت کی معروف اداکار ہ شبانہ اعظمی اور ان کے شوہر نامور شاعر جاوید اختر خاص طور پر فیض انٹرنیشنل فیسٹیول میں شرکت کے لیے پاکستان تشریف لائے۔ شبانہ اعظمی کے والد کیفی اعظمی اور فیض احمد فیض کے درمیان دوستی کا خاص تعلق تھا جب کہ ان کے شوہر جاوید اختر ممتاز ادیب جاں نثار اختر کے بیٹے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کی فیض فیسٹیول میں شرکت خصوصی اہمیت کی حامل تھی۔ اس موقع پر شبانہ اعظمی کاکہنا تھا کہ پاکستان کے لیے پیار اورمحبت کا پیغام لے کر اآئے ہیں۔

شبانہ اعظمی اورجاوید اختر کا تعلق فلمی میدان کے ساتھ ساتھ ادبی گھرانے سے بھی ہے شبانہ اعظمی کے والدکیفی اعظمی ممتاز شاعرتھے تو جاوید اختر کے والد جاںنثار اختر بھی معروف ادیب تھے ۔ نئی نسل میں سے کچھ کچھ تو جاوید اختر کے نام سے واقف ہیں جب کہ ان کے تعارف کے لیے ”فرحان اختر“ کا نام بھی لیا جا سکتا ہے ۔

 فیض فیسٹول کے موقع پر الحمرا آرٹس سینٹر میں کتابوں کے اسٹالز کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ فیسٹیول کے آغاز پر ’کیفی اور فیض‘ کے نام سے ایک خوب صورت نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی اور فیض احمد فیض کی صاحب زادی سلیمہ ہاشمی نے کیفی اعظمی اور فیض احمد فیض کے حوالے سے اپنی یادیں تازہ کیں۔ بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی نے اپنے والد کیفی اعظمی اور فیض احمد فیض کے ذکر پر غزل بھی پڑھی۔

 

 

 گورنرپنجاب چوہدری سرور جاوید اختر اور شبانہ اعظمی کی ملاقات کا منظر

گورنرپنجاب چوہدری سرور جاوید اختر اور شبانہ اعظمی کی ملاقات کا منظر

 ایک اور نشست میں شبانہ اعظمی کے شوہر اور نامور بھارتی شاعر جاوید اختر اور پاکستانی شاعر امجد اسلام امجد کی ادبی گفتگو کو حاضرین نے دلچسپی سے سنا۔ میلے میں ضیا محی الدین کے ساتھ ایک شام مشتاق یوسفی کے نام میں بھی شرکانے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

فیض انٹرنیشنل فیسٹیول میں اجوکا تھیٹر کی جانب سے خصوصی ڈرامہ، مقامی اسکول کے بچوں کی طرف سے رقص پرفارمنس اور ممتاز پاکستانی گلوکارہ طاہرہ سید کی طرف سے گیت بھی پیش کیے گئے۔ ”انکل سرگم سے ملئے“ کے عنوان سے ہونے والے پروگرام میں ممتاز پاکستانی فنکار فاروق قیصر نے حاضرین کے سوالات کے جوابات دیے۔ فیض فیسٹیول میں عاصمہ جہانگیر، منو بھائی اور کلدیپ نئیر کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

 اس مرتبہ فیض میلے کی خاص بات اس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد میں شرکت تھی۔اس میلے کے دوران ایک آرٹ نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا جبکہ رقص کے ذریعے کہانی سنانے کے حوالے سے ورکشاپس بھی منعقد ہوئے۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فیض میلے جیسی تقاریب معاشرے کا سافٹ امیج اجاگر کرنے اور قومی بیانیے کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

الحمرا سینٹر کی دیواریں فیض کی تصویروں سے مزین ہیں

الحمرا سینٹر کی دیواریں فیض کی تصویروں سے مزین ہیں

 فیض فیسٹیول کا آغاز ”کیفی اور فیض“ کے سیشن سے تھا اور جمعہ کے دن ایک یہی

پروگرام طے تھا، جس میں ایک طرف کیفی اعظمی کی بیٹی شبانہ اعظمی اور دوسری طرف فیض احمد فیض کی دختر سلیمہ ہاشمی تھیں جن کے درمیان گفتگو تھی۔ ہال کے دروازے پر  یہ عبارت آویزاں تھی “

“Silence and smile: smile to solve problems and silence to avoid problems.”

 کیفی اور فیض پر سیشن چار بجے تھا۔ الحمرا کے ہال نمبر ”ایک“ میں لگ بھگ 600 نشستیں ہیں ، 80 فیصد ہال بھر چکا تھا۔ کسی تقریب یا پروگرام میں بروقت پہنچنے کی روایت عوام میں کم ہی ہے مگر یہاں شائد جلدی پہنچنے کی ایک وجہ شبانہ اعظمی اور جاوید اختر بھی تھے ۔ ہال کے جلدی بھر جانے کا ڈر ہی عوام کو وقت سے پہلے الحمرا کھینچ لایا تھا۔

ممتاز اداکارہ اور بلند پایہ شاعر کیفی اعظمی کی بیٹی شبانہ اعظمی

ممتاز اداکارہ اور بلند پایہ شاعر کیفی اعظمی کی بیٹی شبانہ اعظمی

 جب جاوید اختر صاحب ہال میں داخل ہوئے تو پہلی نشست پر بیٹھے سامعین انھیں دیکھتے ہی تالیاں بجانے لگے۔ اوپر کی نشست پر بیٹھے عوام نے بھی بھرپور ساتھ دیا تو تالیوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ لوگ اپنی نشست سے ا ±ٹھ کھڑے ہوئے اور بھارت کی اس عظیم شخصیت کا استقبال کرنے لگے۔

 عدیل ہاشمی سنجیدہ اردو بولتے ہوئے بالکل اچھے نہیں لگ رہے تھے۔ شاید مِزاح ہی ان کی شخصیت کا خاصا ہے۔ اسٹیج پر میزبانی عدیل ہاشمی کے ذمے تھی۔ جاویداختر اپنے خاص اسی لباس میں تھے، جو ان کی پہچان ہے یعنی کرتے اور پاجامے میں ملبوس اور کاندھے پر شال ڈالے ہوئے تھے۔ شبانہ اعظمی نے ساڑھی پہن رکھی تھی اور بالوں میں ایک پھول سجا رکھا تھا۔

 ہاشمی اور شبانہ اعظمی کی گفتگو پر مبنی کیفی اعظمی اور فیض احمد فیض کا سیشن شروع ہوا۔ یوں لگتا تھا جیسے فیض اور کیفی کا زمانہ لوٹ آیا ہو۔ سلیمہ ہاشمی نے فیض کی کتاب ”دستِ صبا“ کے انتساب سے پردہ اٹھایا۔ یہ انتساب کسی کلثوم نامی خاتون کے نام تھا۔سلیمہ ہاشمی نے بتایا کہ فیض صاحب جب انتسا ب اپنی اہلیہ ”ایلس “کے نام کرنے لگے، تو سوچا ایلس نام بہت عجیب لگے گا۔ سو ایلس کا مسلمان نام جو فیض کی والدہ نے ”کلثوم“ رکھا تھا، فیض نے انتساب میں وہی نام استعمال کیا ،جب کہ ایلس کو کلثوم نام بالکل پسند نہ تھا۔ انھیںشبنم اور ریحانہ نام پسند تھے۔ دستِ صبا جب قریہ قریہ پہنچی تو لوگ چہ میگوئیاں کرتے۔ بھلا یہ خاتون کلثوم کون ہے اور اس سے فیض کا کیا چکر ہے؟ لوگ سوچتے کہ بھلا یہ کلثوم کون ہے جس سے فیض صاحب کا عشق رہا؟ لوگوں کو اس بات کی بالکل خبر نہ تھی کہ یہ ایلس کا ہی اسلامی نام ہے جو فیض کی والدہ نے رکھا ہے۔

بھارت کے ممتاز شاعر جاوید اختر

بھارت کے ممتاز شاعر جاوید اختر

سلیمہ ہاشمی نے کہا کہ جب خاندان ہی کی ایک خاتون نے سلیمہ سے پوچھا کہ بھلا یہ کلثوم کون ہے!جس سے تمھارے ابا نے چھپ چھپا کر نکاح کیا ہوا ہے؟ یہ بات جب ایلس تک پہنچی، تو وہ بہت خوش ہوئیں جب کہ اول اول وہ اس نام کے انتساب سے کچھ خوش نہیں تھیں۔

ایک بار فیض صاحب سلیمہ کی لگاتار نوکری کرنے سے تھوڑا تنگ آئے توکہنے لگے: ”سلیمہ!یہ جاب کرتے کرتے تم تھکتی نہیں ہو کیا؟ ہمیں دیکھو، ہم نے پانچ برس فوج کی نوکری کی، پانچ برس صحافت کی، پانچ برس جیل کاٹی، پانچ ہی برس جلا وطن رہے۔ ہم نے تو کوئی کام بھی پانچ برس سے زیادہ نہیں کیا۔“

 سلیمہ ہاشمی نے جب اپنی بات پوری کی، تو ساتھ والی نشست پر براجمان شبانہ اعظمی نے کہا: ”فیض صاحب نے ایک کام تو عمر بھر کیا،یعنی شاعری۔“ اور یوں ہال میں تالیوں کی گونج سنائی دینے لگی۔

شبانہ اعظمی نے فیض صاحب کے ساتھ اپنی ایک ملاقات کا حال بتایا۔ یہ قصہ وہ پہلے بھی اپنے کسی انٹرویو میں سنا چکی ہیں لیکن اس باران کے منہ سے سن کر یہ قصہ بہت پُرلطف لگا۔ انھوں نے بتایا کہ پہلی بار فیض صاحب سے ملی، تو خوشی کی انتہا نہ تھی۔ شبانہ اعظمی نے فیض صاحب سے کہا، مجھے آپ کے سارے شعر یاد ہیں۔ میں آپ کی بہت بڑی فین ہوں۔ فیض صاحب نے جواباً کہا، اچھا! پھر ہمیں بھی تو معلوم ہونا چاہیے۔ شبانہ نے یہ شعر سنایا

دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے

یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

فیض صاحب نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے کہا: ”ارے یہ تو میر کا شعر ہے۔“ شبانہ نے فوراً شعر پڑھا

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

جیسے اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

فیض صاحب نے سگریٹ کا ایک گہرا کش لیا اور کہا: ” میر تقی میر تک تو بات ٹھیک تھی، مگر بہادر شاہ ظفر کو میں شاعر نہیں سمجھتا۔“

خیر! یہ تو فیض صاحب سے پہلی ملاقات کی گھبراہٹ تھی جس نے شبانہ کو ان کے شعر ایک لمحے کے لیے بھلاوے دیے تھے، جب کہ الحمرا کے ہال میں بیٹھا ہوا ایک ایک شخص گواہ ہے کہ جس طرح نظم ”بول کہ لب آزاد ہیں ترے “ شبانہ جی نے پڑھی، ویسی شائد ہی کسی نے ترنم سے پڑھی ہو۔ ان کی آواز ایک سحر طاری کر گئی۔ یقینا یہ کیفی کی دختر کا اپنے والد کے دوست کے لیے ایک عظیم خراجِ عقیدت تھا۔

 

الحمرا ہال میں زندہ دلانِ لاہور کے ساتھ پورے پاکستان سے آئے ہوئے شائقین کا اک منظر

الحمرا ہال میں زندہ دلانِ لاہور کے ساتھ پورے پاکستان سے آئے ہوئے شائقین کا اک منظر

 شبانہ کی والدہ شوکت اعظمی کی کیفی اعظمی سے محبت کی داستان بھی انتہائی دلچسپ اور حسین ہے۔ایک کیمونسٹ شاعر اپنی محبت میں کس قدر شگفتگی رکھتا ہے، یہ تب معلوم ہوا جب شبانہ نے شوکت اعظمی کی کیفی سے پہلی ملاقات کا ذکر کیا۔ یہ 1940کی دہائی تھی۔ ایک مشاعرے میں کیفی اعظمی، سردار جعفری اور مجروح سلطانپوری موجود تھے۔شوکت اس زمانے میں بھی ایک ماڈریٹ خاتون تھیں۔انھیں دقیانوسی مرد بالکل ناپسند تھے۔کیفی نے مشاعرے میں نظم ”عورت“پڑھی۔ یہ کیفی کی عورت کے حوالے سے ایک آزاد خیال اور وسعتِ فکر کی حامل نظم ہے۔ شوکت مشاعرے میں کیفی سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکیں اور دل میں ٹھان لیا کہ شادی تو اسی شخص سے کروں گی جو عورت کی آزادی پر یقین رکھتا ہے۔ مشاعرہ ختم ہوا۔ کیفی کے گرد لڑکیوں نے گھیرا ڈال رکھا تھاگویاکیفی اعظمی لڑکیوں کے گرداب میں پھنسے ہوئے تھے۔ شوکت کو شرارت سوجھی۔ ڈائری نکالی، اس کے پہلے صفحے پر سردار جعفری سے آٹو گراف لیا اور پھر کیفی سے آٹو گراف لینے کے لیے ڈائری کا وہی صفحہ آگے کر دیا جس پر پہلے سے سردار جعفری کے دستخط موجود تھے۔ کیفی نے اس صفحے پر ایک مہمل شعر لکھ،جس کا کوئی مفہوم نہ تھا۔ اس پر شوکت کو غصہ آیا، تو جل کر کیفی سے پوچھنے لگی کہ بھلا یہ کیا حرکت ہے؟ایسے بھی کوئی آٹوگراف دیتا ہے کیا؟ کیفی جواباً کہنے لگے کہ آپ نے بھی تو پہلے آٹوگراف سردار جعفری سے لیا۔ ایسی حرکت کا ایسا ہی جواب دیا جا سکتا ہے۔

شبانہ اعظمی نے کیفی کی نغمہ نگاری کا ذکر کرتے ہوئے بتایا: ”ابا کہتے تھے کہ فلم کے لیے گیت لکھنا ایسے ہے جیسے پہلے قبر کھود دی جائے اور پھر کہا جائے کہ اب اس میں مردہ گاڑو۔ کیوں کہ فلمی گیت کی دھن پہلے بنتی ہے اور اس پر بول دھن کے مطابق بعد میں لکھے جاتے ہیں۔ میری نغمہ نگاری اس لیے کامیاب چل رہی ہے کیوں کہ میں مردے اچھے گاڑ لیتا ہوں۔“

مدیحہ گوہر کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ”اجوکا تھیڑ“ کے فنکاروں نے اسی شام سات بجے ایک پنجابی اسٹیج پلے”کالا مینڈھا بھیس“پیش کیا۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔

فیض فیسٹول کے دوسرے روز کا پہلا سیشن تھا ”محبت کی زبان“امجد اسلام امجد اور جاوید اختر کے درمیان گفتگو پر مبنی تھا اور میزبانی معروف شاعرہ عنبرین صلاح الدین کے سپرد تھی۔ پہلے روز کی طرح ہال وقت سے پہلے ہی کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ جاوید اختر کی شاعری اپنی جگہ مگران کی شخصیت ان کی شاعری سے بہت آگے اور بلند مقام پر نظر آتی ہے۔ جاوید اخترصاحب جب بولتے ہیں، تو ان کا تجربہ اور گہرا مطالعہ سننے والے کو متاثر کیے بنا نہیں رہتا۔ کہنے لگے کہ ”شاعری صرف محبت کی ہی نہیں بلکہ ضمیر کی آواز بھی ہے۔ سو شاعر کا کام ہے کہ اس کی شاعری حقیقت دکھاتی ہو نہ کہ سچ پر پردے ڈالتی ہو۔“

بات شعری تراجم کی چلی، تو مثال دی کہ اگر آپ عِطر ایک شیشی سے دوسری میں ڈالیں تو چند قطرے پہلی والی شیشی میں رہ جاتے ہیں۔یہی حال زبان کا ہے۔ چاہے انگریزی نظم کا اردو ترجمہ کیا جائے یا اردو سے انگریزی،پوری طرح مفہوم اور احساس کا منتقل ہونا ممکن نہیں۔

ایک اور کمال کی بات یہ بتائی جو ہم جیسوں نے پہلے نہیں سنی تھی کہ انگریزی زبان کے جملے کا مفہوم اس کے آخری لفظ میں چھپا ہوتا ہے۔اگر وہ لفظ نہ ہو، تو جملہ سمجھ میں نہیں آتا، جیسے
“I am looking for you ”
اس جملے میں “you” نکال دو تو جملہ بے معنی اور “I am going home” میں سے home نکال دیا جائے، تو جملہ ادھورا ہے۔

نئی نسل نے ”شعلے“ فلم تو دیکھ رکھی ہے، مگر انھیں شائد یہ معلوم نہ ہو کہ اس کا اسکرین پلے جاوید اختر نے ہی لکھا تھا۔ یہ وہ واحد بھارتی فلم ہے جس کے ڈائیلاگ اب تک اتنے ہٹ ہیں کہ آج کے ڈراموں، فلموں اور اعلیٰ کامیڈی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔

جاوید اختر کہنے لگے کہ ایک اعتراض تو اس فلم پر یہ ہوتا تھا کہ فلاں سین ا ±س انگریزی فلم سے کاپی ہے اور فلاں سین ا ±س فلاں فلم سے۔اگر یہ کاپی ہوتا، تو میں نے اب تک شعلے جیسی کامیاب کوئی درجن بھر فلمیں تو بنا لی ہوتیں، کیوں کہ کاپی کرنا تو آسان کام ہے۔گبّر آج بھی زندہ ہے۔شاید تنقید والوں کو سوچنا چاہیے۔

اس حوالہ سے امجداسلام امجد صاحب نے کہا کہ جاوید بھائی آپ نے ناقدین کو کسی زمانے میں ایک لاجواب جواب دیا تھا، وہ دہرا دیں۔ جاویداخترصاحب نے کہا: ”دیکھیں بھئی،اگر تو کسی ایک جگہ سے کوئی چیز کاپی کی جائے اسے “plagiarism” کہتے ہیں اور اگر دس جگہ سے کوئی چیز کاپی کی جائے، تو اسے ریسرچ کہتے ہیں۔

جاوید اختر صاحب کی حسِ مزاح بھی کمال کی ہے۔ پہلی نشست پر جو مہمانانِ گرامی موجود تھے، جنھیں جاوید صاحب بھی جانتے تھے انھوںنے جاوید اخترصاحب سے کچھ نظمیں سنانے کی گزارش کی۔ جس پروہ بولے، دیکھیں میںنے آئندہ سال پھر پاکستان آنے کا وعدہ کیا ہے۔ کچھ نظمیں اگلے برس کے لیے رہنے دیں۔ مہمانِ خصوصی نے کہا کہ کیا معلوم میں اگلے برس زندہ نہ رہوں۔جاوید صاحب نے فوراً جملہ کسا: ”آپ تو یونہی بس ہر سال امید دلاتے رہتے ہیں۔“

”صحافت میں سیاست “کے موضوع پر وسعت اللہ خان اور ماروی سرمد سے حامد میر نے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا۔ موضوع تھا فیک نیوز۔

 شبانہ اعظمی اور جاوید اختر نے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور سے بھی خصوصی ملاقات کی ، گورنر ہاوس لاہور میں ہونے والی اس ملاقات کے دوران باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، اس موقع پر گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کا کہنا تھا کہ پاکستان امن پسند ملک ہے اور اپنے ہمسایہ ممالک سے برابری کی بنیاد پر اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ گورنر پنجاب نے کہا کہ دونوں ممالک میں ثقافتی وفود کے تبادلوں سے ایک دوسرے کے تجربات سے استفادے اور سیکھنے کے مواقع ملتے ہیں۔ شبانہ اعظمی اور جاوید اختر نے گورنر پنجاب کوسینیٹ کے ضمنی انتخابات جیتنے پر مبارکباد دی۔ شبانہ اعظمی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پیار اور محبت کا پیغام لے کر آئے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان عوامی سطح پر رابطے ہونے چاہئیں۔ ملاقات کے دوران سلیمہ ہاشمی بھی موجود تھیں

Facebook Comments

POST A COMMENT.