میراحمد نوید کون ہے؟ وہ کیا رائے ہے جس پران کے مخالفین اوردوست یکساں متفق ہیں

میر احمد نوید کون ہے، شاعر، ادیب، فلسفی ، باتونی، پاگل یا سچا وکھرا انسان

میراحمد نوید 14 اکتوبر 1958 کو کراچی میں پیدا ہوئے، ان کا نام سید احمد حسنین جعفری ہے لیکن وہ میر احمد نویدکے قلمی نام سے جانے جاتے ہیں ذیل میں ان سے منفرد انٹرویو ملاحظہ فرمائیں، امید ہے قارئین احمد نوید کے تیکھے جوابوں سے لطف اندوز ہوں گے

گفتگو : سلیم آذر

میر احمد نوید کون ہے، شاعر، ادیب، فلسفی ، باتونی، پاگل یا سچا وکھرا انسان

میر احمد نوید تو پاگل ہے۔ یہ وہ رائے ہے جس پر احمد نوید کے مخالفین اور حمایت کرنے والے یکساں متفق ہیں۔ مجھے اس رائے سے اتفاق نہیں تھا بلکہ ایسی بات سننا بھی مجھے ناگوار محسوس ہوتا لیکن جب میں نے عالمی ادب کا مطالعہ کیا ،خاص طور پر جرمنی کے فلسفی و شاعر فریڈرک نطشے کو پڑھا تو اس رائے سے متفق ہوگیا۔ میں جان گیا تھا کہ جس آدمی میں اپنے مقصد کے حصول کا جنون ہو اورکسی بھی جبر کے آگے جھکنے کے بجائے جو حالات بدلنے کے لیے ان کے خلاف سینہ سپر ہوجائے اور بدترین حالات بھی اسے مایوسی سے دوچار نہ کرسکتے ہوں تو ایسے لوگوں کو زمانہ پاگل ہی کہتا ہے۔ میں آج اعتراف کرتا ہوں کہ احمد نوید ان معنوں میں واقعی پاگل ہیں۔ وہ نہ مایوس ہوتے ہیں، نہ تھکتے ہیں، جھکتے ہیں اور نہ سمجھوتہ کرتے ہیں۔

میر احمد نوید

میر احمد نوید

 احمد نوید سے میرا پہلا تعارف ان کے ایک شعر سے ہوا 

 سب نے رد کر دیا تو میں نے

 اپنے ہونے کا اعتراف کیا

اس شعر نے میرے دل پر خاص اثر کیا اورمجھے اس شعرکے خالق سے ملنے کااشتیاق پیدا ہوا مگر اتفاقات ایسے رہے کہ ملاقات کی کوئی صورت نہیں بن پائی۔ ایک روز میں اپنے عزیز دوست اور معروف شاعر خورشید عالم سے ملنے انچولی سوسائٹی پہنچا تو وہاں میراحمد نوید سے باقاعدہ ملاقات ہوگئی۔ وہ وہاں ایک ہوٹل میں باقاعدگی سے بیٹھا کرتے تھے۔ ٹھکانہ معلوم ہوا اور تعارف بھی ہوگیا تو ملاقاتیں بھی روز ہونے لگیں۔ ہم رات گئے تک ساتھ رہتے اور ہرموضوع پر کھل کر باتیں کرتے تھے جس سے احمد نوید کے پرت آہستہ آہستہ اترتے چلے گئے مگر قابل ذکر بات یہ تھی کہ ہر پرت پہلے سے زیادہ روشن اور خوش کن تھا۔ میں نے تعلیم کے بعد صحافت کا پیشہ اختیار کیا بار ہا سوچا کوشش بھی کہ احمد نوید کا انٹرویو کیا جائے، میراحمد نوید انٹرویو سے بچتے ہیں، میرے اصرار کے باوجود آمادہ نہ ہوئے ۔ ان سے طویل ملاقاتوں کے دوران میںنے احمد نوید کے بارے میں جو کچھ سمجھا اور جانا اس کی روشنی میں چند سوالات مرتب کیے، یہ سوالات ان سے ملاقاتوں کے دوران میرے ذہن میں پیدا ہوئے مگر ہر بار کوئی ایسی صورت حال رہی کہ میں سوال نہ کرسکا یا میں نے سوال کرلیاتو وہ جواب نہ دے سکے یا بات گول کرگئے۔ ایک روز میں نے انہیں آرٹس کونسل میں گھیر لیا اور انہیں لے کرگل رنگ (ریسٹورینٹ)کے الگ تھلگ گوشے میں بیٹھ گیا ،کاغذ پر تحریروہ سارے سوالات ان کو تھما دیے اوراصرار کیا کہ وہ ایک ایک کرکے سارے سوالوں کے جواب دیتے جائیں، جب تک وہ جواب نہیں دیں گے میں ہرگز انہیں کہیں جانے نہیں دوںگا ۔ اس بار وہ ضدنہ کرسکے اوراپنے جوابات مجھے لکھوا دیے۔ میراحمد نوید کے تیکھے جوابات سے آپ یقیناً لطف اندوز ہوں گے۔

میراحمد نوید کے ہمراہ ناول و افسانہ نگار عفت نوید اور دیگر شعرا خواتین کا گروپ

میراحمد نوید کے ہمراہ ناول و افسانہ نگار عفت نوید اور دیگر شعرا خواتین کا گروپ

سوال:۔ شاعری کب شروع کی؟

جواب: جب آدم کا خمیر مختلف عناصر سے گوندھا جارہا تھا میں اس وقت بھی شاعر تھا۔

سوال: کہاں پیدا ہوئے؟

جواب: ارے کیا پوچھتے ہیں ارسطو کی اسٹیٹ کے نکالے ہوئے ہیں۔ افلاطون کی ری پبلک کے ستائے ہوئے ہیں۔ ہمارا کیا پیدا ہونا اور کیا مرنا۔

سوال: اجداد کا تعلق کہاں سے ہے؟

جواب: میں لعل شہباز قلندر کا پڑپوتا یعنی ان کی 29ویں پشت ہوں یہ میرا ددھیال ہے اور میرانیس کا پرنواسہ یعنی ان کی چھٹی پشت ہوں۔ یہ میرا ننھیال ہے۔

سوال: تعلیم کہاں سے حاصل کی؟

جواب: میرے والد بزرگوار سید غلام الثقلین جعفری جو عربی، فارسی اور انگریزی بہت اچھی جانتے تھے، انہوں نے مجھے بارہ تیرہ سال کی عمر میں ہومر کی اوڈیسی سے لے کر ایلیٹ کی ویسٹ لینڈ تک اور عربی میں حسان، ہمیری فرذوق، کمیت اور دعبل تک اور فارسی میں فردوسی، حافظ، عرفی، بیدل، رومی تک اور اردو شاعری میں میر، غالب، اقبال اور انیس پڑھا دیے تھے بلکہ رٹا دیے تھے یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں گیارہوں جماعت کا طالب علم تھا ،ہمارے عبداللہ کالج ( اب خواتین کالج) میں بیت بازی کا مقابلہ ہوا۔ مجھے شعروں کے معیار کی بنیاد پر اول انعام دیا گیا اور انعام کے طور پر اس زمانے کے پاپولر شاعر کا مجموعہ دیا گیا جس کا نام تھا دستِ صبا میرے حافظے میں جو شاعری تھی اس کو سامنے رکھ کر جب میں دستِ صبا کا مطالعہ کرتا تھا تو میں یہ سوچتا تھا یا وہ شاعری ہے جو میرے حافظے میں ہے یا یہ شاعری ہے جو دستِ صبا کی صورت میں میرے سامنے ہے۔

سوال: اقبال کے بعد شاعری کے منظر نامے کو کیسا پاتے ہیں؟

جواب: اقبال کے بعد میں پورا شاعر دیکھنے کو ترس گیا اقبال سے پہلے یہ تھا کہ اقبال شاعر تو شاعر، غالب شاعر تو شاعر، میر شاعر تو شاعر اقبال کے بعد یہ ہوا کہ یہ سیاسی اور سماجی شعور کے شاعر ہیں یہ فیض ہیں یہ فلسفی شاعر ہیں یہ راشد ہیں، یہ رومانی شاعر ہیں ،یہ اختر شیرانی ہیں یہ فطرت کے شاعر ہیں ، یہ میرا جی ہیں یہ انقلابی شاعر ہیں، یہ جوش ہیں جو عوامی شاعر ہیں، یہ حبیب جالب ہیں، میرے خیال میں ایک شاعر بہ یک وقت سیاسی، سماجی، فلسفی، رومانی، فطری انقلابی، عوامی شاعر ہوتا ہے یعنی یہ سارے دریا جس سمندر میں آکر گرتے ہیں وہ مکمل شاعر ہوتا ہے۔ اقبا ل کے بعد شاعری پڑھنے کو ترس گیا پھر یا تو شاعری نے سلمیٰ کی سانوی سلونی رنگت پر گفتگو کی یا شہناز کے دل آویز خطوط پر یعنی انسانی دانش کے سفر کے ہزاروں سال نے اقبال تک جو موڑ کاٹا تھا 1936 نے اس پر قصائی کا بغدہ چلا دیا اور یہ سارے شاعر سلمیٰ کے چاروں طرف رقص کرنے لگے اور اس سلسلے کو بریک کردیا جو اقبال تک آیا تھا اور بریک ڈانس شروع کردیا اور یوں اردو شاعری کا ایک مائیکل جیکسن وجود میں آیا ،اس شاعر کا نام اس لیے نہیں لوں گا کہ وہ بیورو کریسی کا پسندیدہ شاعر ہے ۔ویسے ہی مجھ پر زندگی تنگ ہے میں مزید تنگ نہیں کرنا چاہتا اور یوں دستِ صبا سے لے کر وصی شاہ کے آخری مجموعے تک کے احوال میں، سلمیٰ، شہناز اور فارہا شاعروں کا موضوع بحث ہیں۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ یوں بھی رومان برتنے کی چیز ہے نہ کہ پڑھنے کی، ہاں علم، حکمت، اور فلسفہ پڑھنے کی چیزیں ہیں۔

سوال: سیاست میں کوئی دلچسپی؟

جواب: کوئی دلچسپی نہیں، سیاست حق کو حالات کے تابع کرنے کی کوشش کا نام ہے جب کہ حکمت حالات کو حق کے تابع کرنے کا، سیاست میں اولیت حالات کو ہے حکمت میں حق کوجب کہ حالات کو تغیر ہے اور حق کو ثبات۔

سوال: مذہب سے کوئی دلچسپی؟

جواب: مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں، ہاں دین سے ہے جو آدم سے خاتم النبی تک ایک ہی ہے، اسی لیے میں اپنا شمار نہ تو کسی فرقے میں کرتا ہوں نہ کسی مذہبی جماعت میں۔

سوال: موجودہ صورت حال کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟

جواب: ہمارے دور کا فرد کوما میں جاچکا ہے یعنی جس فرد کے پروٹیکشن کے لیے معاشرہ تشکیل دیا جاتا ہے یا اخلاقی اور معاشرتی قوانین وضع کیے جاتے ہیں افسوس وہ سارے قوانین فرد کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے اس کی عزت ،مال اور آبرو کے درپے ہیں یعنی فرد سے معاشرہ جنم لیتا ہے پھر یہی معاشرہ ایک دن فرد کو نگل لیتا ہے۔ یہی تہذیبوں کا بننا اور مٹنا ہے۔ یہ تہذیب اپنے دن پورے کرچکی ہے، ہاں اس کی خاکستر سے ایک نئی تہذیب جنم لے گی جو آدم کا خواب ہے اور وجہ ¿ خلقتِ آدم

جہاں تھی تہذیب اب نشاں ہے نشاں بگولوں کے درمیاں

غبار ہوتے ہوئے نشاں سے نیا زمانہ بنا رہا ہوں

سوال: اپنے زمانے کو کیسا دیکھتے ہیں؟

جواب: جس پر اپنے زمانے کی حقیقت نہیں کھلتی اس پر کسی زمانے کی حقیقت نہیں کھلتی۔ ہر زمانہ اپنی حقیقت ساتھ لے کر آتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ حقیقت ہر زمانے سے جڑی ہوئی ہوتی ہے۔ تاریخ سے انسان کو نہیں سمجھا جاسکتا ہاں انسان سے تاریخ کو سمجھا جاسکتا ہے۔

سوال: آپ انسان کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

جواب: جو کتاب ہر کتاب سے زیادہ دستیاب ہےوہ انسان ہے اور جو کتاب سب سے کم پڑھی اور سمجھی جاتی ہے وہ بھی انسان ہے، یعنی وہ انسان ہی ہے جس کے لیے اتنے صحیفے اور اتنی کتابیں وجود میں آئیں۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ مُلّا کا کام کائنات اور موجودات کو اللہ کے گرد گھمانا ہے کہ ان سب کا خالق اللہ ہے جب کہ اللہ کا کام کائنات اور موجودات کو انسان کے گرد گھمانا ہے کہ انسان کائنات کا جوہر ہے یعنی کائنات اور موجودات کا خالق تو اللہ ہے مگر وجہ تخلیق انسان ہے۔

سوال: کیا معاشرے کو شاعر کی ضرورت ہے؟

جواب: آپ شاعر کی بات کر رہے ہیں انہیں تو پیغمبروں ولیوں اور نبیوں کی ضرورت نہیں۔ عیسیٰ ؑ کو انہوں نے پھانسی چڑھا دیا، محمد کو طائف میں پتھر مارے، مولا حسینؓ کو انہوں نے قتل کردیا، آپ کہہ رہے ہیں انہیں شاعروں کی ضرورت ہے ۔خود انہوں نے جس کو پردہ کرنے کے بعد خدائے سخن کہا یعنی میر تقی

میر ان کی قبر کا نشان محفوظ نہیں ہے، مرزا غالب کا زندگی میں کیا حال کیا، وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں کیوں کہ شاعر محبت کا پیامبر ہوتا ہے اس لیے پتھر کھا کر دعا دینا اس کی سرشت ہے اسی لیے وہ اپنے وقت کا عالم ہوتا ہے۔ میں نے کہیں لکھا تھا جسے انسان سے جتنی محبت ہے وہ اتنا بڑا عالم ہے۔ انسان سے دوری علم سے دوری ہے۔

سوال: عالم کیا ہوتا ہے؟

جواب: عالم نہ ہوش مند ہوتا ہے نہ دیوانہ۔ یہ اور بات ہے کہ ہوش مند اسے دیوانہ سمجھتے ہیں جب کہ دیوانے اسے ہوش مند۔

سوال: مادیت کو آپ کس طرح سے دیکھتے ہیں؟

جواب: بے روح معاشی فلسفہ انسان کو پیٹ کے ایک جہنم سے نکال کر دوسرے جہنم میں جھونک دیتا ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں اگر بھوکے رہو گے تو سوچ نہیں سکتے ،میں یہ کہتا ہوں اگر سوچو گے نہیں تو بھوکے ہی رہو گے۔

سوال: آپ کی پسندیدہ شخصیات کون ہیں؟

جواب: دیو جانس کلبی، بہلولِ دانا اور کبیر داس۔

سوال: آپ کے پسندیدہ شاعر کون ہیں؟

جواب: اردو میں میری تقی میری، فارسی میں بیدل اور لعل شہباز قلندر، عربی میں فرذوق، انگریزی میں جان ڈن ، ہندی میں کبیر داس، سندھی میں شاہ بھٹائی، پنجابی میں شاہ حسین اور میاں محمد۔

سوال: آپ کی زندگی میں کوئی ایسا شخص جس سے آپ متاثر ہوئے ہوں؟

جواب: ہاں ایک ایسا شخص میری زندگی میں آیا جس نے میری ظاہری باطنی مدد کی اور جس کی ہمراہی میں میں نے انائے مطلق تک سفر طے کیا وہ ہیں سید سخی باوا صدا حسین جلالی قلندری بخاری ہاشمی القرشی۔

سوال: اپنے بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے؟

جواب: میں ان تمام ادب دوستوں اور محبت کرنے والوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے محبت، احترام اور مان دیا اور مجھے اتنا سیراب کردیا کہ مجھ میں نام ونمود کی کوئی خلش نہیں رہنے دی۔

٭٭٭

Facebook Comments

POST A COMMENT.