پاکستان کی معیشت میں سندھ ڈیری فارمنگ اور زرعی صنعتیں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیں

پاکستان کی سب سے بڑی شہری آبادی والا صوبہ سندھ 24سے زائد قیمتی معدنیات ،زرعی صنعتوں کا حامل ہے
پاکستان کی مجموعی قومی آمدنی کا 33فی صد، کل ٹیکسوں کا 77فیصد انکم ٹیکس اور 62فیصد سیلز ٹیکس سندھ سے حاصل ہوتا ہے
دودھ دینے والے مجموعی11.58کروڑ مویشیوں میں سے 28فیصد بھینسیں، 27فیصد گائیں، 24 فی صدبھیڑیں، 28فی صداونٹ سندھ میں پائے جاتے ہیں

شخصیات ویب نیوز

رپورٹ : محمد معز

پاکستان کی معیشت کا زراعت، معدنیات ، لائیواسٹاک اور ڈیری صنعتوں پر زیادہ انحصار ہے بل کہ یہ سیکٹرز ملکی معیشت کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ملک کی بیشتر دیہی آبادی لائیو اسٹاک سیکٹر سے منسلک ہے اوراپنی آمدن کا 40فیصد حصہ گوشت اور دودھ کی پیداوار سے حاصل کرتی ہے جب کہ کل افرادی قوت کاقریباً 44فی صد زرعی شعبے سے وابستہ ہے۔ چوں کہ ملک میں صنعتوں کا بڑا حصہ بھی زرعی بنیاد پراستوار ہے۔ اس لحاظ سے صوبہ سندھ ملک کی مجموعی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔
سندھ ایک طرف تو 24سے زیادہ قیمتی معدنیات سے مالا مال ہے جن میں ملک کے 60فی صدآئل فیلڈز، 44فی صد گیس فیلڈزکے علاوہ پاکستان کا 56فی صدآئل اور 55فی صدیومیہ گیس کی پیداوار بھی شامل ہے۔ 185ارب ٹن کے لگ بھگ کوئلے کے ذخائر بھی موجود ہیں،ملک کے 54فی صد ٹیکسٹائل یونٹس، 45فی صد شوگر ملیں، 20فی صد پلپ اینڈ پیپر ملیں، 35فی صد خوردنی تیل سندھ میں پایا جاتا ہے۔ ملک کی مجموعی قومی آمدنی کا 33فی صد جب کہ پاکستان کے کل ٹیکسوں کا 77فی صدنکم ٹیکس اور 62فی صد سیلز ٹیکس سندھ سے حاصل ہوتا ہے۔ بڑے پیمانے کی صنعتوںکا 34فی صد اور چھوٹے پیمانے کی صنعت کی پیداواری استعدادکا 25فی صد سندھ سے حاصل ہوتا ہے۔ شہری آبادی کے لحاظ سے سندھ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کی شہری آبادی کا تناسب 49 فی صد ہے جب کہ ملک کے بقیہ حصے کی شہری آبادی کا تناسب 32.5فی صد ہے۔

پاکستان دودھ پیدا کرنے والے ممالک بھارت، چین اور امریکا کے بعد چوتھا بڑا ملک ہے

پاکستان دودھ پیدا کرنے والے ممالک بھارت، چین اور امریکاکے بعد چوتھا بڑا ملک ہے

سندھ کا دارالحکومت کراچی نہ صرف صنعتی ، تجارتی اور مالیاتی حب ہے بل کہ یہاں ایک نہایت مضبوط صنعتی بنیاد بھی استوار ہے ، بہتر انفرااسٹرکچر، تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت، جدیدمواصلاتی سہولتیں، جدید مالیاتی خدمات پر مشتمل سیکٹر موجود ہے جو ملکی و غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے بہترین ترغیب کا باعث ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بڑی کثیرالقوی کمپنیاں سندھ میں بھاری سرمایہ کاری کو ترجیح دیتی ہےںاور کامیابی سے کام کر رہی ہیں۔
اس کے علاوہ کراچی میں دو قدرتی بندرگاہیںبھی ہیں جن کا ملکی درآمدات و برآمدات کے فروغ میں اہم کردار ہے جب کہ سمندری پودوں سے آراستہ سندھ کی 350کلو میٹر طویل ساحلی پٹی نہ صرف فش فارمنگ بلکہ مچھلیوں کی قدرتی افزائش اور برآمدات کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے ۔ پاکستان کی مچھلیوں کی کل برآمدات میں سندھ کا حصہ 48فی صد ہے جب کہ سمندری مچھلی کا 71فی صد اور تازہ پانی کی مچھلی کا 65فی صدحصہ بھی سندھ سے حاصل ہوتا ہے۔ ملک کا لائیواسٹاک سیکٹر مجموعی طور پر11کروڑ58لاکھ سے زائد(دودھ دینے والے ) مویشیوں پر مشتمل ہے جن میں بھینسیں، بھیڑیں، بکریاں اور اونٹ شامل ہیں ۔ ان مویشیوں کی تعدا د پہلے 10کروڑ 68لاکھ بیان کی جاتی تھی۔ ان دودھیلے جانوروں میں سے بھینسوں کی تعداد 2 کروڑ84 لاکھ ہوگئی ہے ، پہلے2 کروڑ63 لاکھ تھی ، بکریاں 5 کروڑ 56 لاکھ تھیں جو اب بڑھ کر6 کروڑ 19 لاکھ اور بھیڑوں کی تعداد2 کروڑ49 لاکھ کے مقابلے میں 2 کروڑ 55 لاکھ بیان کی جاتی ہے جب کہ سندھ میں مجموعی طور پر ملک کی 28فی صد بھینسیں، 27فی صد گائیں، 24فی صد بھیڑیں، 28فی صد اونٹ پائے جاتے ہیں۔پنجاب میں دیہی مرغیوں کی تعداد4کروڑ 15لاکھ سے زائد ریکارڈ کی گئی ہے جب کہ ملک کی 40فی صد پولٹری سندھ میں پائی جاتی ہے۔ صوبہ سندھ میں موجود چار کروڑ سے زائد مویشی اور پولٹری انڈسٹری ملک کی ڈیری صنعت کے لیے نہایت موزوں ہیں۔
لائیو اسٹاک خصوصاً ڈیری فارمنگ پاکستان کے فارمنگ سسٹم کا اہم حصہ ہے ۔ پاکستان میں 11 کروڑ 58 لاکھ سے زائد مویشیوں سے مجموعی طور پر سالانہ صرف35 بلین (ارب)لیٹر دودھ حاصل ہوتا ہے، دودھیلے جانوروں (گائے، بھینس) سے اوسطاً 4 تا 6 لیٹر دودھ یومیہ فی جانور پیدا ہوتا ہے جو نہ صرف انتہائی کم اور غیر نفع بخش بلکہ خطے کے دیگر ممالک سے بہت کم ہے۔ پاکستان میں فی مویشی دودھ کی یومیہ اوسط پیداوار4 تا 6 لیٹر کے مقابلے میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈاور امریکا میں یومیہ اوسط پیداوار20 تا 25 لیٹر ہے جس کی وجہ اس شعبے میں ماہرین اور جدید ٹیکنالوجی کی کمی بتائی جاتی ہے۔ماہرین کے مطابق انہی جانوروں سے اسی خرچے کے ساتھ دودھ کی سالانہ پیداوار کودگنا یا80 ارب لیٹرتک بڑھایا جا سکتا ہے ۔
اعلی جانوروں کی فارمنگ اور یومیہ فی جانور دودھ کی کم پیداوار کے باوجود پاکستان ڈیری فارمنگ کے لحاظ سے دنیا میں اہم مقام رکھتا ہے اور دودھ پیدا کرنے والے ممالک بھارت، چین اور امریکا کے بعد چوتھا بڑا ملک ہے، ڈیری فارمنگ میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ اس سیکٹر میںسرمایہ کاری کے ذریعے سالانہ 25 فیصدزائد آمدنی حاصل کی جاسکتی ہے۔دودھ مختلف ڈیری پراڈکٹس بشمول دہی، پنیر، مکھن یا دوسری اشیامیں تبدیل ہوتا ہے لہٰذا جانور پالنے والے چھوٹے کسانوں کو فارم کی سطح پر دودھ کی پراسیسنگ اور ویلیو ایڈیشن کے مواقع سے فائدہ ا±ٹھانا چاہئے۔ جانوروں کی بہتر پیداوار کے لیے اعلیٰ نسل کے جانور ضروری ہیں۔ دودھ کی پیداوار میں اضافے کے لیے جدید پیداواری ٹیکنالوجی کے استعمال اور فارم سے صارف تک پہنچنے کے دوران ضائع ہو جانے والی 40فیصد خوراک کو بچانے کے لیے بہترین ہینڈلنگ، پیکنگ، اسٹوریج اور ٹرانسپورٹیشن پر توجہ دینا ہوگی۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.