الحاج شمیم الدین ، سیاسی، مذہبی، سماجی اور ادبی حلقوں کی یکساں مقبول شخصیت ، وفات پاگئے

الحاج شمیم الدین  17مارچ 1931کو صبح سات بجے بروز منگل بدایوں میں پیدا ہوئے اور منگل ہی کے دن 23مارچ 2021 کو کراچی میں انتقال کرگئے
مرحوم نے پاکستان ہجرت کے بعد اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ”بنیادی جمہوریت“ کے انتخابات سے کیا
انھوں نے بدایوں سے کراچی ہجرت ہی نہیں اسے بسانے کے لئے بھی انتھک کوششیں کیں
بنیادی جمہوریت کے بعد ضیاءالحق کے دَور میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو انھیں پورے سندھ میں سب سے زیادہ ووٹ ملے
سندھ اسمبلی کے رکن، صوبائی وزیراور وزیر اعلیٰ سیّد غوث علی شاہ کے زمانے میں انھوں نے قائم مقام وزیر اعلیٰ کے فرائض بھی انجام دیے
سابق جنرل سیکریٹری مسلم لیگ سندھ اور پاکستان اسلامک فورم کے سربراہ اور سرپرست تھے، ان کے گھر پر پر اول دن سے آج تک ”پاکستان ہاﺅس“ کی تختی لگی ہے
سندھ میں پہلی مرتبہ نظام زکوٰة کا جو بنیادی ڈھانچا تیار کیا گیا انہی کی کاوشوں کا مرہون منت ہے
مرحوم نہایت وضع دار انسان تھے، تعلق اور رشتے نبھانا ان کی سرشت میں داخل تھا، فالج کے حملے سے صاحب فراش رہنے کے باوجود اپنے سارے کام خود کرتے
’دبستان بدایوں“ کے تحت شائع ہونے والی ادبی کتابوں اور رسالے کی تدوین واشاعت کا اہتمام کرتے تھے
ہمہ صفت اور ہمہ جہت شخصیت الحاج شمیم الدین کے انتقال پر سینئر صحافی، کالم نگار قلم کار حمیرا اطہر کی یاد داشت

شخصیات ویب نیوز
منگل 22شعبان 1442ھ 6اپریل 2021
تحریر : حمیرا اطہر
تصاویر : وقار شیرانی

الحاج شمیم الدین سے سینئر صحافی، مصنف، کالم نگار اور نامور پبلشر رشید بٹ ملاقات کررہے ہیں، مرحوم الحاج شمیم الدین نے پاکستان ہجرت کے بعد اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ”بنیادی جمہوریت“ کے انتخابات سے کیا اور بدایوں سے کراچی ہجرت ہی نہیں اسے بسانے کے لئے بھی انتھک کوششیں کیں

الحاج شمیم الدین سے سینئر صحافی، مصنف، کالم نگار اور نامور پبلشر رشید بٹ ملاقات کررہے ہیں، مرحوم الحاج شمیم الدین نے پاکستان ہجرت کے بعد اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ”بنیادی جمہوریت“ کے انتخابات سے کیا اور بدایوں سے کراچی ہجرت ہی نہیں اسے بسانے کے لئے بھی انتھک کوششیں کیں

23 مارچ جب پورے ملک میں یوم پاکستان کی مناسبت سے خوشیوں کی لہر جاری تھی کہ کراچی کے سیاسی، مذہبی، سماجی اور ادبی حلقوں کی ایک مقبول شخصیت الحاج شمیم الدین کی وفات کی روح فرسا خبر نے فضا سوگوار کر دی۔ وہ میرے والد اطہر نادر کے دیرینہ دوست تھے، اِس ناتے مجھے اپنی بھتیجی مان کر ”چچا“ کہلواتے تھے۔ ابا کی زندگی تک ان کا ہمارے گھر میں آنا جانا رہا۔ ایک دو مرتبہ مَیں بھی ابا کے ساتھ ا±ن کے گھر گئی۔ پھر وہ فالج میں مبتلا ہو گئے، ادھر ابا بھی وفات پا گئے تو چچا سے جیسے رابطہ ہی ختم ہو گیا۔ عرصہ دراز کے بعد جب مَیں صحافت کے خار زار میں مختلف اخبارات و رسائل سے ہوتی ہوئی روزنامہ ”جناح“ کراچی میں ہفت وار میگزین ”کراچی رنگ“ کی انچارج بنی تو دو تین شماروں کے بعد ہی ایک روز اچانک ”شمیم چچا“ کا فون آگیا۔ نہ جانے کیا کیا باتیں ہوئیں۔ تاہم، اتنا یاد ہے کہ فون بند کرنے سے پہلے یہ طے پایا کہ جلد ہی مَیں اپنے شوہر رشید بٹ صاحب کے ساتھ ان کے در ِ دولت پر حاضری دوں گی اور وہ اپنی یاد داشتوں پر مشتمل کتاب ”یادوں کے دیئے“ کی دونوں جلدیں مجھے بھجوائیں گے۔ دوسرے ہی دن ان کا ہرکارہ ایک پلندہ لئے دفتر میں حاضر تھا جس میں مذکورہ کتابوں کے علاوہ ”دبستان بدایوں“ کے تحت شائع ہونے والی کچھ اور کتابیں بھی شامل تھیں۔ مَیں نے اس میں سے کراچی ہجرت اور اسے بسانے کے لئے ان کی کوششوں سے متعلق کچھ یاد داشتیں ”کراچی رنگ“ میں شائع کیں۔ پھر ایک روز رشید بٹ صاحب کے ساتھ ان سے ملاقات کے لئے گئی۔ ان کی خوشی دیدنی تھی۔ چلتے ہوئے مزید کچھ کتابیں اور ایک ہزار روپے بھی دیئے۔ روپے کے لئے میرے تکلف کرنے پر بولے، تم میری بھتیجی ہو۔ رشید بٹ میرے داماد ہوئے۔ تم دونوں پہلی مرتبہ میرے گھر آئے ہو، کیا خالی ہاتھ جانے دوں گا؟“ اِس پیار بھری سرزنش کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اب ایسے وضع دار اور خاندانی روایات کے امین کہاں ملیں گے۔ پھر ان سے فون پر تو اکثر بات ہو جاتی، جانا کم کم ہی ہو سکا۔ آخری مرتبہ شاید دو برس پہلے ملاقات ہوئی، جب انہوں نے اپنے ادبی حلقے کے کچھ دوستوں کو افطار پر بلایا۔ ہمارے مشترک دوست وقار شیرانی کی مہربانی کہ انہوں نے ہم میاں بیوی کو لے جانے اور لانے کی ذمے داری لے کر ”ثواب دارین“ کمایا۔ اور ہمیں پھر ایک ہزار روپے ایڈوانس عیدی کی مد میں ملے۔

الحاج شمیم الدین فالج حملے کے بعد صاحب فراش ہیں، سینئر صحافی، کالم نگار قلم کار حمیرا اطہر ان کی عیادت کررہی ہیں، مرحوم نے بنیادی جمہوریت سے سیاسی سفر شروع کیا، ضیاءالحق دَور میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو انھیں پورے سندھ میں سب سے زیادہ ووٹ ملے، وہ سندھ اسمبلی کے رکن، صوبائی وزیراور وزیر اعلیٰ سیّد غوث علی شاہ کے زمانے میں قائم مقام وزیر اعلیٰ بھی رہے

الحاج شمیم الدین فالج حملے کے بعد صاحب فراش ہیں، سینئر صحافی، کالم نگار قلم کار حمیرا اطہر ان کی عیادت کررہی ہیں، مرحوم نے بنیادی جمہوریت سے سیاسی سفر شروع کیا، ضیاءالحق دَور میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو انھیں پورے سندھ میں سب سے زیادہ ووٹ ملے، وہ سندھ اسمبلی کے رکن، صوبائی وزیراور وزیر اعلیٰ سیّد غوث علی شاہ کے زمانے میں قائم مقام وزیر اعلیٰ بھی رہے

الحاج شمیم الدین نے پاکستان آنے کے بعد اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ”بنیادی جمہوریت“ کے انتخابات سے کیا پھر بلدیہ کے کو نسلر منتخب ہوئے۔ اس کے بعد ضیاءالحق کے دَور میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو پورے سندھ میں انہیں سب سے زیادہ ووٹ ملے۔ بعد ازاں سندھ اسمبلی کے رکن بن گئے۔ ایک زمانے میں وزیر بھی ہوئے اور وزیر اعلیٰ سیّد غوث علی شاہ کے زمانے میں ایک مختصر مدت کے لئے قائم مقام وزیر اعلیٰ کے فرائض بھی انجام دیئے۔ اِس کے علاوہ سابق جنرل سیکریٹری مسلم لیگ سندھ اور پاکستان اسلامک فورم سربراہ اور سرپرست بھی رہے۔
اپنی کتاب میں الحاج شمیم الدین نے اپنی زندگی کی مکمل داستان بیان کی ہے۔ تقسیم ہند کے وقت بدایوں میں خوف و ہراس کی جو فضا تھی، اس کو یوں قلم بند کیا ہے:
”بڑی بوڑھیاں قرآن حکیم کے نسخے اور جوان عورتیں چھوٹے بچوں، گہنوں، زیورات، جڑ ی جمع پونجی کی پوٹلی سینے سے لگائے ہوتیں۔ لڑکیوں کو محلّے کے ایسے دومنزلہ گھروں کی چھتوں پر پہنچا دیا جاتا جن کے زینے پختہ نہیں ہوتے تھے۔ لکڑی کی سیڑھی کے ذریعے انہیں اوپر پہنچا کر دوپٹا باندھ کر سیڑھی اوپر کھینچ لی جاتی تھی۔ چھتوں پر اینٹ، پتھر اور ٹوٹی ہوئی اینٹیں جمع کر لی جاتی تھیں۔ پانی کی بڑی بڑی ٹنکیوں اور بالٹیوں میں مرچیں گھول کر رکھ لی جاتیں، کہیں کہیں تیزاب کی بوتلیں بھی رکھی رہتی تھیں۔“
ہجرت کے وقت ان کی عمر محض بیس سال تھی۔ وہ اپنی والدہ، اہلیہ، دو بھائیوں اور ایک بہن کے ہمراہ پاکستان کے لئے روانہ ہوئے۔ گھر کا سامان اونے پونے بیچا اور بہت کچھ مفت بانٹ دیا۔ کچھ زیورات اور چوبیس ہزار روپے نقد لے کر یہ قافلہ چلا۔ لیکن باڑمیر جنکشن پر وہ رقم بلوائیوں نے چھین لی البتہ ”ترس“ کھا کر 100روپے فی کس کے حساب سے واپس کر دی۔ زیورات کو والدہ نے صراحی میں چھپائے تھے تو یہ ان کی دستبرد سے محفوظ رہے۔ پاکستان پہنچ کر یہ قافلہ سجدہ ریز ہوا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ لیکن پتھورو جنکشن پر کھلے آسمان کے نیچے پہلا سوال یہ پیدا ہوا کہ اب زندگی کہاں اور کیسے گزاری جائے؟ طے پایا کہ گھر والے ایک دو روز یہیں ٹھہریں اور وہ کراچی جا کر کسی واقف کار کے ذریعے رہائش کا بندوبست کر کے واپس آئیں۔ چناںچہ سامان اٹھا کر پلیٹ فارم کے باہر کھلی ریتیلی زمین پر گنجان جھاڑیوں کے درمیان رکھا، سائے کے لئے ایک چادر تان دی۔ وہاں اور بھی کئی سو افراد اِسی طرح قیام کئے ہوئے تھے۔ٍ دیار غیر میں عزیزوں کی تلاش پیدل کئی دن تک جاری رہی۔ آخرکار ایک دن مزار قائد کے عقب میں جہاں مہاجرین لائن سے پانی کے کنستر بھر رہے تھے، خالہ زاد بھائی بھی کنستر بھرتے ہوئے مل گیا تو اس کی مدد سے جیکب لائن کی مسجد کے پاس عارضی طور پر تیس روپے ماہانہ کرائے پر کوارٹر حاصل کر لیا اور گھر والوں کو پتھورو سے لا کر ٹھہرایا۔
آگے کی داستان خاصی طویل ہے جو یہاں بیان کرنا شاید مناسب نہ ہو۔ تاہم، اتنا بتانا ضرور ی ہے کہ وہ ہمہ صفت اور ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے۔ سیاسی میدان کے علاوہ سماجی، ثقافتی، ادبی اور مذہبی میدانوں میں بھی کار ہائے نمایاں انجام دیئے۔ سندھ میں پہلی مرتبہ نظام زکوٰة کا جو بنیادی ڈھانچا تیار کیا گیا، سندھ اور کراچی میں اس کی عملی تنظیم ان کی کاوشوں کا مرہون منت ہے۔ انہوں نے اپنے دَور وزارت میں اس کا جو عملاً نظام قائم کیا، وہ تادیر مشعل راہ رہے گا۔

وضع دار الحاج شمیم الدین رشید بٹ، حمیرا اطہر، وقار شیرانی کی تواضع کررہے ہیں، مرحوم نہ صرف جنرل سیکریٹری مسلم لیگ سندھ اور پاکستان اسلامک فورم کے سربراہ اور سرپرست تھے بلکہ ان کے گھر پر پر اول دن سے آج تک ”پاکستان ہاﺅس“ کی تختی لگی ہے، سندھ میں پہلی مرتبہ نظام زکوٰة کا جو بنیادی ڈھانچا تیار کیا گیا انہی کی کاوشوں کا مرہون منت ہے

وضع دار الحاج شمیم الدین رشید بٹ، حمیرا اطہر، وقار شیرانی کی تواضع کررہے ہیں، مرحوم نہ صرف جنرل سیکریٹری مسلم لیگ سندھ اور پاکستان اسلامک فورم کے سربراہ اور سرپرست تھے بلکہ ان کے گھر پر پر اول دن سے آج تک ”پاکستان ہاﺅس“ کی تختی لگی ہے، سندھ میں پہلی مرتبہ نظام زکوٰة کا جو بنیادی ڈھانچا تیار کیا گیا انہی کی کاوشوں کا مرہون منت ہے

وہ ایک مجلسی آدمی تھے اور اکثر اپنے گھر میں دوستوں کی محفلیں جماتے تھے۔ ”دبستان بدایوں“ کے تحت شائع ہونے والی ادبی کتابوں اور رسالے کی تدوین واشاعت کا اہتمام کرتے تھے۔ فالج کی وجہ سے کافی عرصہ تک صاحب فراش رہنے کے باوجود اپنے سارے کام خود کرتے اور ملک کی سیاسی خبروں اور حالات سے باخبر رہتے تھے۔ سچے محب وطن پاکستانی اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی یہ محبت یوں قبول کی کہ ان کا انتقال بھی 23 مارچ یعنی یوم پاکستان کے موقع پر ہوا۔ جب کہ اپنی پیدائش کے بارے میں ”یادوں کے دیئے“ میں لکھتے ہیں: ” 17مارچ 1931کو صبح سات بجے بروز منگل میری ولادت ہوئی۔“
آسماں ” ان کی“ لحد پر شبنم افشانی کرے
ایک اہم بات لکھنا تو بھول ہی گئی کہ ان کے گھر پر اول دن سے آج تک “پاکستان ہاﺅس” کی تختی لگی ہے

Facebook Comments

POST A COMMENT.