معذوری کو اپنی کمزوری بنانے کے بجائے طاقت بنانے کی کوشش کریں، مدیحہ قمر

معذوری کا شکار خواتین اس سوچ کو بدلیں کہ وہ کچھ نہیں کر سکتیں یا معذوری انسان کو کام کرنے سے روکتی ہے، حقیقت اس کے برعکس ہے
معذوری سے دوچار یا خصوصی خواتین محنت اور لگن سے روایتی انداز فکر کو بدل ڈالیں تاکہ دنیا انھیں ترس کے بجائے فخر کی نگاہ سے دیکھے
میں نفسیات میں مزید تحقیق کرنا اور نفسیاتی مریضوں کے لیے جدید ہاسپٹل بنانا چاہتی ہوں
جہاں مریضوں کو علاج کے ساتھ ساتھ بہترین کائونسلنگ فراہم کی جاسکے
سائیکالوجی مصنوعی ذہانت سے مطابقت میں رہنمائی کا ذریعہ ہوسکتی ہے، طبی نفسیات میں اعلیٰ سند وتجربہ رکھنے والی مدیحہ قمر کی گفتگو

شخصیات ویب نیوز
انٹرویو: ثاقب لقمان قریشی

معذوری کو اپنی کمزوری بنانے کے بجائے طاقت بنانے کی کوشش کریں،خصوصی خواتین محنت اور لگن سے روایتی انداز فکر کو بدل ڈالیں تاکہ دنیا انھیں ترس کے بجائے فخر کی نگاہ سے دیکھے، مدیحہ قمر

معذوری کو اپنی کمزوری کے بجائے طاقت بنانے کی کوشش کریں،خصوصی خواتین محنت اور لگن سے روایتی انداز فکر کو بدل ڈالیں تاکہ دنیا انھیں ترس کے بجائے فخر کی نگاہ سے دیکھے، مدیحہ قمر

مدیحہ قمر اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔ انھیں بچپن سے انوکھا مرض لاحق تھا جس نے انھیں معذروی کی سطح تک پہنچا دیا۔اس مرض کے حوالے سے ڈاکٹرز کی مختلف آرائتھیں۔ اس مرض میں ہڈیاں خود بخود ٹوٹ جایا کرتی تھیں۔ مدیحہ کا پہلا فریکچر صرف دو ماہ کی عمر میں ہوا۔ پھر اس سلسلے نے رکنے کا نام ہی نہیں لیا۔ سال میں دو سے تین فریکچرز ہو جایا کرتے تھے۔ ہڈیوں کی ٹوٹ پھوٹ کا یہ سلسلہ دس سال کی عمر تک جاری رہا۔ والدین نے علاج میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بڑے سے بڑے ڈاکٹر سے لے کر حکیموں اور طب نبوی کا سہارا لیا گیا لیکن کوئی خاص افاقہ نہ ہوا۔ معذوری کے اس مرض کے باوجود مدیحہ نے زندگی میں مایوسی کو اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیا اور تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بھرپور زندگی گزاری۔ ہم نے اس حوالے سے مدیحہ قمر سے تفصیلی گفتگو کی ہے ، پہلے ان کا مختصر تعارف ملاحظہ فرمائیں۔

 میں نفسیات میں مزید تحقیق کرنا اور نفسیاتی مریضوں کے لیے جدید  ہاسپٹل بنانا چاہتی ہوں  جہاں مریضوں کو علاج کے ساتھ ساتھ بہترین کائونسلنگ فراہم کی جاسکے

میں نفسیات میں مزید تحقیق کرنا اور نفسیاتی مریضوں کے لیے جدید ہاسپٹل بنانا چاہتی ہوں
جہاں مریضوں کو علاج کے ساتھ ساتھ بہترین کائونسلنگ فراہم کی جاسکے

مدیحہ قمر نے ایم ایس سی کلینکل سائیکالوجی رفاہ یونیورسٹی لاہور اورپوسٹ گریجوئیٹ ڈپلومہ کلینکل سائیکالوجی فاو ¿نڈیشن یونیورسٹی راولپنڈی سے کیا
ان کے والد کی پرانا قلعہ راولپنڈی میں کپڑوں کی دکان تھی۔ 2013 میں انھیں کینسر تشخیص ہوا۔ چھ مہینے بیمار رہنے کے بعد وہ 18 ستمبر 2014 کو وفات پاگئے۔ خاندان پانچ بہنوں اور دو بھائیوں پر مشتمل ہے۔ بڑی بہن ذہنی بیمار ہیں، ان سے چھوٹی مدیحہ ہیں۔ تیسرے نمبر کی بہن نے نفسیات میں بی ایس کیا پھر ان کی شادی ہوگئی۔ شادی کے بعد بہن نے بی ایڈ اور ایم ایڈ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ چوتھے نمبر کی بہن نے بی کام کیا ہے جبکہ پانچویں نے میتھس میں بی ایس کر رکھا ہے۔ تینوں بہنیں شادی شدہ ہیں۔ ایک بھائی بی ایس سی ایس کر رہا ہے۔ سب سے چھوٹا بھائی حفظ قرآن کے بعد آٹھویں جماعت میں ہے۔

سوال: آپ کو لاحق مرض کا نام کیا ہے؟ ہڈیاں کیوں ٹوٹ جایا کرتی تھیں؟ کتنا علاج ہوا اور کن کن ہسپتالوں سے ہوا؟ ہڈیوں کے ٹوٹنے کا سلسلہ کتنے عرصے تک جاری رہا؟
مدیحہ : ڈاکٹرز کی اس حوالے سے مختلف آراءتھیں۔ زیادہ تر اوسٹیوپروسس مرض پر متفق تھے۔ والدین کے مطابق میرا پہلا فریکچر صرف دو ماہ کی عمر میں ہوا۔ پھر اس سلسلے نے رکنے کا نام ہی نہیں لیا۔ سال میں دو سے تین فریکچرز ہو جایا کرتے تھے۔ ہڈیوں کی ٹوٹ پھوٹ کا یہ سلسلہ دس سال کی عمر تک جاری رہا۔ والدین نے علاج میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بڑے سے بڑے ڈاکٹر سے لے کر حکیموں اور طب نبوی کا سہارا لیا گیا لیکن کوئی خاص افاقہ نہ ہوا۔
سوال: معذوری کی وجہ سے بچپن میں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا؟ بچپن میں کس قسم کے کھیل کھیلا کرتی تھیں؟

سائیکالوجی مصنوعی ذہانت سے مطابقت میں رہنمائی کا ذریعہ ہوسکتی ہے

سائیکالوجی مصنوعی ذہانت سے مطابقت میں رہنمائی کا ذریعہ ہوسکتی ہے

مدیحہ : میں بہت کم گو تھی۔ ٹانگوں کے فریکچر کی وجہ سے زیادہ تر وقت گھر ہی میں گزرتا تھا۔ اسی لیے زیادہ وقت کہانیاں پڑھنے میں یا بہنوں کے ساتھ کھیلنے میں گزرتا تھا۔
گڑیا کے ساتھ کھیلنا، ڈاکٹر، ٹیچر یا پھر گھر گھر جیسے کھیل بچپن کے پسندیدہ ترین کھیل ہوا کرتے تھے۔ایک دفعہ ساری بہنیں مل کر کھیل رہی تھیں۔ سب نے پہاڑ بنایا۔ ننھی پریوں کا یہ پہاڑ صوفہ سیٹ ڈائیننگ ٹیبل اور کرسیوں پر مشتمل تھا۔ بچیوں نے اس پہاڑ پر چڑھنے کے لیے امی کے سارے دوپٹے ایک ساتھ باندھ کر لمبی سی رسی بنا لی۔ والدہ کو واردات کا موقع پر اندازہ نہیں ہوا، بعد میں دیکھنے پر خوب ڈانٹ پڑی۔ دوپٹوں کی ان گانٹھوں کو کھولنے میں سخت مشکل پیش آئی۔
سوال: ابتدائی تعلیم کے حصول میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟اسکول کا انتخاب کیسے کیا گیا؟

یہ سوچ عام ہے اوراسے بدلنے کی ضرورت ہے کہ معذور خواتین کچھ نہیں کر سکتیں یا معذوری انسان کو کام کرنے سے روکتی ہے،حقیقت اس کے برعکس ہے

یہ سوچ عام ہے اوراسے بدلنے کی ضرورت ہے کہ معذور خواتین کچھ نہیں کر سکتیں یا معذوری انسان کو کام کرنے سے روکتی ہے،حقیقت اس کے برعکس ہے

مدیحہ : والد صاحب نے متعدد اسکولوں کے دوروں کے بعدا سکول کا انتخاب کیا۔ قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ میں صرف دو سال ہی اسکول جا سکی۔ شروع کے دنوں میں والدہ صاحبہ گود میں اٹھا کرا سکول لے جایا کرتیں۔ والد صاحب والدہ کی پریشانی دیکھتے ہوئے ایک سائیکل لے آئے جس نے والدہ کی مشکل کو کافی آسان کر دیا۔باقاعدگی سے اسکول جانے کا سلسلہ ایک سال تک اسی طرح چلتا رہا۔ لیکن بدقسمتی سے میرے ایک ہی ماہ میں دو فریکچرز ہوگئے جس کے بعد اسکول جانے کا سلسلہ رک گیا۔ والدین میری تعلیم کی وجہ سے خاصے پریشان تھے۔ اسکول جانا مسائل میں اضافے کا سبب بن سکتا تھا ، اس لیے اسکول کی استانی سے گھرپر ٹیوشن پڑھانے کے لیے معاملہ طے کرلیا۔
حصول تعلیم کا سلسلہ نویں جماعت تک اسی طرح چلتا رہا۔ گھر میں رہتے ہوئے تعلیمی سفر کو جاری رکھنا آسان کام نہیں تھا، جب کبھی ٹیچر تبدیل ہو جاتیں یا نوکری چھوڑ جاتیں تو ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو جاتا۔ایک طرف تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو جاتا تو دوسری طرف نیا استاد ڈھونڈنا پھر اس کے طریقہ کار کو سمجھنا مشکلات میں اضافے کا سبب بنتا تھا۔ اچھی بات یہ تھی کہ مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا ۔ چونکہ میں پڑھتی بہت تھی اس لیے میں نے دو مرتبہ دو دو جماعتوں کے اکٹھے پرچے دیئے اور کامیاب رہی۔
سوال: نویں اور دسویں جماعت میں اسکول کیسے آیا جایا کرتی تھیں؟
مدیحہ: میرے نزدیک خصوصی افراد کے لیے ٹرانسپورٹیشن اور رسائی اہم ترین مسئلہ ہے۔ ریگولر تعلیم کا منقطع سلسلہ نویں جماعت سے دوبارہ شروع ہوا۔ا سکول گھر سے دور ہونے کی وجہ سے وہیل چیئر پر جانا مشکل کام تھا۔ اس لیے اسکول آنے جانے کے لیے وین لگا لی۔ وہیل چیئر وین میں زیادہ جگہ گھرتی تھی ، پھر اسے اتارنا چڑھانا بھی مشکل کام تھا اس لیے والد صاحب نے اسکول کے لیے ایک اور وہیل چیئر دلا دی۔چاچو کے اسکول میں داخلہ لینے کی وجہ سے اسکول میں بھر پور توجہ ملتی۔ اس طرح صحت، رسائی، ٹرانسپورٹیشن اور مختلف مسائل کا اپنے عزم اور حوصلے سے مقابلہ کرتے ہوئے میں اچھے نمبروں سے میٹرک کا متحاں پاس کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
سوال: کالج کی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟ ٹرانسپورٹیشن، کلاسز اور باتھ روم تک رسائی میں کن مشکلات کا سامنا رہا؟
مدیحہ :ایف اے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج فار وومن راولپنڈی سے کیا پھر اسی کالج سے نفسیات میں بی ایس آنرز کیا۔
کالج کے ابتدئی ایام میں دو تین پریڈ اوپر کی منزل میں ہونے کی وجہ سے کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پرنسپل سے درخواست کرنے پر کلاسز کو نیچے گراونڈ فلورپر ہی منتقل کردیا گیا۔اپنے اساتذہ اور دوستوں کے ساتھ جو وقت گزرا میری زندگی کا بہترین وقت ہے ۔ سب میری مدد کرنے والے لوگ تھے۔ جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو ایچ او ڈی یا پرنسپل صاحبہ سے درخواست کرنے پر اس کا فوری حل نکال لیا جاتا تھا۔
کالج کے باتھ روم تک رسائی کو آسان بنانے کے نقطہ نظر سے بنائے گئے تھے۔ اس لیے ان کے استعمال میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔کالج آنے جانے کے لیے وین لگا رکھی تھی۔ وین سے اترنے اور چڑھنے میں دوست مدد فراہم کر دیا کرتی تھیں۔
سوال: ایم اے کے لیے لاہور کیوں چلی گئیں؟
مدیحہ : وطن عزیز میں رفاہ یونیورسٹی کی ڈگری نفسیات کے مضمون کے حوالے سے اہم تصور کی جاتی ہے۔ بی اے کے بعد راولپنڈی کی فاو ¿نڈیشن یونیورسٹی سے نفسیات کے مضمون میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کرنے کے بعد راولپنڈی کی رفاہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی کوشش کی لیکن راولپنڈی کیمپس میں نفسیات کے حوالے سے کوئی پروگرام موجود نہیں تھا۔ اس لیے اپنے شوق کی تکمیل کے لیے لاہور چلی گئی پھر وہیں سے نفسیات میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔
سوال: کیا رسائی کا مسئلہ یونیورسٹی کی تعلیم میں بھی مشکلات کا باعث بنا؟
مدیحہ : فاو ¿نڈیشن یونیورسٹی میں ڈپلومے کے دوران رسائی کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا۔ اس کی وجہ لفٹ تھی۔ جس کے ذریعے ایک فلور سے دوسرے فلور پر جانا آسان تھا۔ رفاءیونیورسٹی میں بھی رسائی کے بہترین انتظامات تھے۔ لفٹ کے ذریعے اوپر نیچے کے پریڈ آسانی سے اٹینڈ کر لیتی تھی- لفٹ کے خراب ہونے کی صورت میں چھٹی کرنا پڑتی تھی۔ کیونکہ اکثر کلاسز دوسری منزل پر ہوا کرتی تھیں۔
سوال: سائیکالوجی میں دلچسپی کیوں تھی اور بطور مضمون اس کا انتخاب کیوں کیا؟
مدیحہ : انسانی نفسیات اور معاشرتی رویوں پر لکھی تحریروں کو پڑھنے کا بچپن ہی سے شوق تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔ کالج کی تعلیم میں نفسیات واحد مضمون تھا جسے منتخب کرتے وقت کبھی سوچنے کی ضرورت نہیں پڑی۔
سوال: سائیکالوجی کی تعریف بیان کریں؟
مدیحہ : امریکی نفسیاتی ایسوسی ایشن کے مطابق نفسیات دماغ اور رویوں یا طرز عمل کے سائنسی مطالعے کا نام ہے۔نفسیات دماغ اوررویوں کی سائنس ہے۔ نفسیات میں غیر معمولی طور پر شعور اور لاشعور کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ احساس اور سوچ کا مطالعہ بھی کیا جاتا ہے۔ نفسیات کا مضمون معیشت، سیاست، کھیل، صحت، طب سے لے کر زندگی کے ہر شعبے میں انسان کو رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
سوال:سائیکالوجی کو کب اور کیسے میڈیکل سائنس کی برانچ تسلیم کیا گیا؟
مدیحہ: سائیکالوجی کی تاریخ انسان جتنی پرانی ہے۔ سترہویں صدی کے مشہور فلاسفر جان لاک نے بچے کے ذہن کو “بلینک سلیٹ” یا تبولا راسا سے تشبیہ دی اور کہا کہ اس کی زندگی کے تجربات اسکی شخصیت کا تعین کرتے ہیں۔ جبکہ افلاطون اور رینی ڈسکریٹس کے نظریات یہ کہتے ہیں کہ بچہ پیدائشی طور پر کچھ خصوصیات کے ساتھ دنیا میں آتا ہے۔
تجرباتی سائیکالوجی کا آغاز انیسویں صدی میں جرمنی سے ہوا۔ جرمنی کے مشہور سائنسدان ولہم وونڈ نے 1879 میں نفسیات کے موضوع پر دنیا کی پہلی تجرباتی لیبارٹری قائم کی۔ اسکے تھوڑے ہی عرصے میں ولیم جیمز نے کیمرج میں لیباٹری قائم کی۔ اس طرح انیسویں صدی سے انسانی ذہن کی ساخت، حصوں اور اس پر اثر انداز ہونے والے عوامل کا تجرباتی جائزہ لینے کا آغاز ہوا۔
میڈیکل سائیکالوجی اکیڈمیز نفسیات کو “اسپیشلیٹی یا ایک ٹرم” کے طور پر بیان کرتی ہیں جنھوں نے “اسپیشلیٹی بورڈ سرٹیفیکیشن” بھی قائم کر رکھا ہے ، لیکن امریکی نفسیاتی ایسوسی ایشن میڈیکل نفسیات کو “اسپیشلیٹی ” تسلیم نہیں کرتی۔ اسی لیے سائیکالوجی کو ابھی تک میڈیکل سائنس تسلیم نہیں کیا گیا۔
سوال : مصنوعی ذہانت کے دور میں سائیکالوجی کو کیا اہمیت حاصل ہوگی؟
مدیحہ : مصنوعی ذہانت ایک سائنسی انقلاب ہے جوہماری زندگی کو مکمل طور پر بدلنے کے لیے تیار کھڑا ہے۔
ایسے مستقبل میں جہاں مصنوعی ذہانت زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کرے گی وہاں نفسیات ہی وہ مضمون ہوگا جو لوگوں کو غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے میں مدد فراہم کرے گا۔ا سمارٹ فونز اور انٹرنیٹ ایک طرف رابطے کا بہترین ذریعہ ثابت ہو رہے ہیں تو دوسری طرف معاشرے اور معاشرتی رویوں پر بھی گہرے اثر ات کا باعث بن رہے ہیں۔ آج کا انسان خاندان، دوست اور احباب سے زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزار دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے قریبی رشتے کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی یہ نئی لت نت نئے قسم کے نفسیاتی کا مسائل باعث بن رہی ہے۔
ہر گزرتا دن نفسیات کے مضمون کی اہمیت اور افادیت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ جدت کے دور میں ماہر نفسیات ہی وہ شخص ہوگا جو انسان کو تیز ترین حالات سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ رشتوں میں توازن قائم رکھنے میں مدد فراہم کرے گا۔
سوال: ہمارے معاشرے میں ٹینشن اور ڈپریشن کی اہم ترین وجوہات کیا ہیں؟
مدیحہ : ٹینشن اور ڈپریشن ہمارے ملک کے اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ وطن عزیز کی بڑی آبادی نفسیاتی مسائل کا شکار ہے۔ حکومت وقت کو ان مسائل پر قابو پانے کیلئے مناسب منصوبہ بندی کرنی ہوگی ورنہ وہ دن دور نہیں جب نفسیاتی مسائل ہمارے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہوں گے ۔
نفسیاتی مسائل کی بنیادی وجوہات میں طبقاتی نظام، وسائل کی نامناسب تقسیم، غربت، بے روزگاری، مہنگائی، تعلیمی نظام، دہشت گردی، لسانیت، صوبائیت، نظام عدل، آزادی رائے اور اظہار کی کمی، غیر جمہوری رویے وغیرہ شامل ہیں۔
سوال: ٹینشن فری زندگی گزارنے کے کچھ گر بتائیں؟
مدیحہ : مشکلات اور پریشانیاں ہی زندگی کی اصل خوبصورتی ہیں۔ ان کے ختم ہو جانے سے زندگی بے رنگ اور بے رونق ہو جاتی ہے۔ اصل کام مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کرنا ہے۔ ہم میں سے جو لوگ اس کام میں مہارت حاصل کر لیتے ہیں وہ “خوش” کہلاتے ہیں اور جو ناکام ہو جاتے وہ ٹینشن کے مریض بن جاتے ہیں۔
ٹینشن سے نجات پانے کیلئے ماضی کی ناکامیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے، مستقبل میں جو ہونا ہے اسے خدا پر چھوڑتے ہوئے حال میں جینا ہوگا۔ حال بہتر ہوگا تو مستقبل خود بخود بہتر ہو جائے گا۔
ہنسنے کے عمل کو سائنسی زبان میں لافٹر تھراپی کہا جاتا ہے۔ زور زور سے قہقہے لگانے سے ٹینشن کو دور بھگایا جاسکتا ہے۔ ہنسنے سے جسم میں صحت مند جسمانی اور جذباتی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ یہ تحریک جسم کے مدافعتی نظام کو مستحکم کرتی ہے اور ٹینشن کے نقصان دہ اثرات سے محفوظ رکھنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
گہری سانس یا ڈیپ بریتھینگ بھی خیالات اور احساسات کو دور کرنے سے روکنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
سوال: ہائوس جاب کہاں کی؟ تجربہ کیسارہا؟
مدیحہ : پہلی ہاو ¿س جاب کے آر ایل ہسپتال میں کی جبکہ دو مرتبہ بےنظیر بھٹو ہسپتال میں دو بار انٹرنشپس کر چکی ہیں۔ ہائوس جابز میں نئی تھراپیز اور ٹیسٹس سیکھنے کو ملے۔ ہائوس جاب کو سیکھنے کے عمل کی پہلی سیڑھی ہے ۔
سوال: آپ کو مختلف ہسپتالوں سے جاب کی آفر ہوچکی ہے کون سا مسئلہ جوائنگ کے راستے کی رکاوٹ بنا؟
مدیحہ : بہت سے ہسپتالوں نے جاب کی آفر کی لیکن رسائی کے مسئلے کی وجہ سے جاب حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ اکثر کلینکس میں مریضوں کے وارڈ پہلی یا دوسری منزل پر ہوتے ہیں۔ لفٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے میرے لیے مریض چیک کرنا ناممکن ہے۔
سوال: لکھنے کا شوق کب سے ہے؟
مدیحہ : پڑھنے اور لکھنے کا شوق وراثت میں ملا ہے۔ والد صاحب بہترین شاعری کیا کرتے تھے۔ جبکہ نانا ابو کی ضیائے زیست کے نام سے کتاب شائع ہو چکی ہے۔ تاریخی کتابیں، ناول اور کہانیاں بچپن سے پڑھتی آرہی ہوں۔ میری بہت سی تحریریں مختلف اخبارات اور جرائد میں شائع ہوچکی ہیں۔
سوال: پسندیدہ ادیب اور شعرا کے نام بتائیں؟
مدیحہ : اردو ادب اور شاعری میں گہری دلچسپی ہے۔ عمیرہ احمد، نمرہ احمد، مستنصر حسین تارڑ,سمیرہ حمید، ہاشم ندیم اور قاسم علی شاہ پسندیدہ ادیب ہیں جبکہ امجد اسلام امجد، پروین شاکر، فیض احمد فیض، وصی شاہ اور علامہ اقبال کی شاعری پسند ہے۔
سوال: آپ نے ناول رشتوں کی قدر کب لکھا اوراس میں کیا پیغام دینے کی کوشش کی؟
مدیحہ : میں نے اپنا پہلا ناول ”رشتوں کی قدر“ کے نام سے 2018 میں لکھا۔ ناول میں موبائل فون کے انسانی معاشرے اور رشتوں پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ نوجوان نسل کو ٹیکنالوجی کے درست استعمال کے حوالے سے ہدایات دی ہیں۔
سوال: ”امید زندگی“ میں کیا پیغام چھپا ہے؟

 میں نے اپنا پہلا ناول ”رشتوں کی قدر“  2018 میں لکھا، ایک کہانی ’’امید زندگی‘‘  بہت مشہور ہوئی جس میں ہمیشہ کیلئے بچھڑ جانے والے پیاروں کو الوداع کہنے اورانکی یادوں کے سہارے جینے کے گربتائے ہیں  نئے سال کے حوالے سے ایک نثری نظم "نیا سال: لکھی ہے جو کچھ یوں ہے  ”آج اِک اور برس بِیت گیا۔۔۔ ناامیدی، دکھوں اور آس کو وہ لے گیا۔۔۔ نئے  سال کی ایسی یا اللہ سحر ہو۔۔۔ جہاں بَلائے ناگہانی کا کوئی بھی ڈر نہ ہو“

میں نے اپنا پہلا ناول ”رشتوں کی قدر“ 2018 میں لکھا، ایک کہانی ’’امید زندگی‘‘ بہت مشہور ہوئی جس میں ہمیشہ کیلئے بچھڑ جانے والے پیاروں کو الوداع کہنے اورانکی یادوں کے سہارے جینے کے گربتائے ہیں نئے سال کے حوالے سے ایک نثری نظم “نیا سال: لکھی ہے جو کچھ یوں ہے ”آج اِک اور برس بِیت گیا۔۔۔ ناامیدی، دکھوں اور آس کو وہ لے گیا۔۔۔ نئے سال کی ایسی یا اللہ سحر ہو۔۔۔ جہاں بَلائے ناگہانی کا کوئی بھی ڈر نہ ہو“

مدیحہ : میری ایک کہانی “امید زندگی” نے خوب شہرت کمائی۔ میں نے اس کہانی میں ہمیشہ کیلئے بچھڑ جانے والے پیاروں کو الوداع کہنے اورانکی یادوں کے سہارے جینے کے گر سکھائے ہیں۔
سوال: اپنی کسی نظم کے چند اشعار شیئر کریں؟
مد یحہ: نئے سال کے حوالے سے میں نے ایک نثری نظم “نیا سال: لکھی ہے۔اس کے دو اشعار پیش خدمت ہیں۔
”آج اِک اور برس بِیت گیا
ناامیدی، دکھوں اور آس کو وہ لے گیا”
ئے سال کی ایسی یا اللہ سحر ہو
جہاں بَلائے ناگہانی کا کوئی بھی ڈر نہ ہو“
سوال: کیا آپ کھانا پکا لیتی ہیں؟ کیا کچھ بنا لیتی ہیں؟ کھانے میں کیا پسند کرتی ہیں؟
مدیحہ : کوکنگ میں کم ہی کرتی ہوں۔ ویسے ہر چیز پکا لیتی ہوں۔ چکن جلفریزی بنانے میں خاصی مہارت ہے۔دیسی کھانے پسند ہیں۔
سوال : مستقبل میں کیا کرنا چاہتی ہیں؟
مدیحہ ؛ نفسیات کے مضمون پر مزید تحقیق کرنا چاہتی ہوں ۔ نفسیاتی مریضوں کیلئے جدید سہولیات پر مبنی ایک ہاسپٹل بنانا چاہتی ہوں۔ جہاں مریض کو علاج کے ساتھ ساتھ بہترین کائونسلنگ فراہم کی جاسکے۔
سوال: ماہرنفسیات کے طور پر خصوصی خواتین کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
مدیحہ : معذوری فطری ہے۔اس کو اپنی کمزوری بنانے کے بجائے طاقت بنانے کی کوشش کریں۔ ہمارے معاشرے میں خصوصی افراد خاص کر خواتین کے حوالے سے ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتیں ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہے۔ اس تاثر کو بدلنا ہے کہ معذوری انسان کو کام کرنے سے روکتی ہے۔ جبکہ حقیقت یکسر مختلف ہے۔خصوصی خواتین محنت اور لگن سے روایتی سوچ کو بدلنے کی کوشش کریں تاکہ دنیا انھیں ترس کے بجائے فخر کی نگاہ سے دیکھے۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.