کاوش عباسی کی طنزیہ نظم : قیامت بھی تو آگے ہی ہے، دوسری احسن سلیم مرحوم کی یاد میں

کاوش عباسی

پاکستان کے نامور شاعر کاوش عباسی
پاکستان کے نامور شاعر کاوش عباسی

قیامت بھی تو آگے ہی ہے

اکثر سہتے ، پی جاتے ، ہیں
کبھی چٹخ پڑتے ہیں ہم

کاوش عباسی اپنی اہلیہ طلعت کاوش عباسی کے ساتھ
کاوش عباسی اپنی اہلیہ طلعت کاوش عباسی کے ساتھ

کل ، پرسوں ، برسوں
ہم جھوٹ جو پِیتے
جھوٹ جو
پی پی کر تھے جِیتے
اُس کا آج کا
نیا رُوپ تو
تُرش بہت ہے
یہ مشروب تو نہیں پِئیں ہم
!

کاوش عباسی اپنی اہلیہ طلعت کاوش عباسی کے ساتھ
کاوش عباسی اپنی اہلیہ طلعت کاوش عباسی کے ساتھ

آگ بہت بڑھ گئی ہے ، اکثر
بھسَم نہ کر دے
ہم ہی پیش تَر
اِس پَر
مٹّی ڈالیں
اِس کو ”دبائیں”
اِس کو ”روکیں”
کل کے جُھوٹ کو ہی چلنے دیں
کل کے جُھوٹ کی
اُس کے سہج کی
اُس کی سیج کی
اُس کے ہاتھوں
دِل کی لُوٹ کی
عادت ہے
اِس عادت میں آرام ہے ہم کو
(بے آرامی پر تو ہم نے سَچ کو بھی کل پھینک دیا تھا)
آؤ ، خوش ہو جائیں
عادت میں جھومیں , لہرائیں
اور آرام سے
کل کے جُھوٹ کے ساتھ جِئیں ہم
نئے جُھوٹ کو آگے
آنے والے کل
آنے والے پرسوں , بَرسوں
پر چھوڑیں
قیامت بھی تو
آگے ہی ، اور آگے ہی ، ہے۔

آحسن سلیم  مدیر اجرا
آحسن سلیم مدیر اجرا

نظم
اَپنے ، پیارے اور محترم دوست احسن سلیم مرحوم مدیر ” اجرا ” کیلئے

تم یاد آتے ہو
اور یاد آتی ہے
تم میں وہ مِلنے کی نخوت بھی
اور دِل کا پگھلاؤ بھی
پُورے معیار کا
پُورے تَن کا
تمہارے گُل و خار پِندار کا
جھڑتا کمھلاؤ بھی

ہوٹلوں میں ہی ہم بیٹھتے ، مِلتے تھے
نیلی ، پُر نَم ، مُعطّر،
ہواؤں میں اُڑتی ہوئی ، باتیں کرتے تھے
وہ ، اَبر میں برق سی کوندتی
ذہن و دِل میں چمکتی
تمہاری سَبُک نثری نظمیں
تمہارے بُجھے لیکن اندر سے جلتے ہوئے
چہرے پر ،
اپنی چشم ِ تصوّر میں ،
لِکھّی ہوئی دیکھتے تھے
وہ نظمیں جو اُردو اَدَب کے عَجَب بادلوں میں چھُپی سہمی رہتی تھیں
( اور شہر میں
دوسری نثری نظمیں
جو گو ذہن ودِل میں چمکتی نہیں ہیں
مگر
عام لیکن بنے خاص لوگوں کی ترکیب سے ،
خاص بن کر ٹنگی رہتی ہیں )
تم چُھپے ہو تو اب اور چھُپ ، سہم ، جائیں گی!

کاوش عباسی کے مختلف انداز
کاوش عباسی کے مختلف انداز

ہم دیکھتے تھے
تمہارے رُخ ِزرد پر
اور پُر محنت آنکھوں میں
”اجرا”
تمہارا رِسالہ ، تمہاری ادارت بھی
اس میں
تمہاری ہمہ خوش کُن , اور سب کو محبوب , عادت بھی

(صابِر ظفَر کو ، مُجھے، جِس پہ تنقید ہوتی تھی)

تم خوش بھی تھے
شاید اَندر مُقدّر سے بہلے ہوئے تھے
(اگر ہارنا ہے تو ہارے ہوئے تھے
اگر جِیتنا ہے تو جِیتو گے)
[محمود واجِد کا اِک رَنگ (خود مستی یا خود میں گُم ) بھی ،
ذرا بِکھرا سا ،
تم میں تھا]

یونہی مِلتے ، یہی باتیں کرتے تھے،
ہم میں یہی دوستی تھی

پِھر اُٹھتے تھے ہوٹل سے

باہر نِکل کر
وہ آخر میں اِک پان بھی
ساتھ کے پان والے سے
بنوا کے ، کھاتے ہوئے
گھر کو جانے کا کہہ کر
جو تم جاتے تھے
ہم تمہاری کُہَن ، نرم اور مہرباں پِیٹھ کو
اور تمہارے کم و غم اثَر سر کے بالوں کو
اک غم میں آیا ہوا دِل لئے
دُور ہوتے ہوئے دیکھتے تھے

کبھی پھر اگر جائیں گے ہم
تو وہ پان والا

تمہارے لئے ہم سے پوُچھے گا
تو کیا بتائیں گے
کیا کیا چُھپائیں گے اُس سے
مگر وہ نہ جانے وہاں خود بھی ہو گا
؟
نہ جانے وہاں ، یا کہیِں ، ہم بھی ہوں گے ؟ !

Facebook Comments

POST A COMMENT.