قادر خان 81 برس کی عمر میں انتقال کرگئے، بھارتی فلمی صنعت سوگوار

قادر خان اپنے مداحوں کی یادوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے

قادرخان نےشدید بیماری کےباعث فلمی مصروفیات کم کردی تھیں۔ چاردہائیوں تک اپنی اداکاری سےلوگوں کو محظوظ کرنےوالےکینیڈا کے ہسپتال میں زیرعلاج تھے

ماجد علی سید

بالی وڈ کے لیجنڈ ورسٹائل اداکار اور مصنف قادر خان طویل علالت کے باعث کینیڈا کے ہسپتال میں انتقال کرگئے۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق قادر خان گزشتہ چند سال سے بیمار تھے اسی لیے انھوں نے اپنی مصروفیات بھی کم کر رکھی تھیں۔ چار دہائیوں تک اپنی اداکاری سے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ سجانے والے 81 سالہ اداکار  کو شدید علالت کے باعث ان کے اہلِ خانہ نے کینیڈا کے ایک ہسپتال میں داخل کرایا تھا۔ جہاں نئے سال کے پہلے دن یکم جنوری 2019کو وہ خالق حقیقی سے جاملے۔

قادر خان اپنے مداحوں کے دلوں‌میں‌ہمیشہ زندہ رہیں گے

قادر خان اپنے مداحوں کے دلوں‌میں‌ہمیشہ زندہ رہیں گے

قادر خان1937 میں افغانستان میں پیدا ہوئے

1937 میں افغانستان میں پیدا ہونے والے قادر خان نے 1971 سے کیریئر کا آغاز کیا اور گزشتہ 47 سال سے انہوں نے400 سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ وہ شدید بیمارتھے، انھیں ڈیمنشیا کے ساتھ ایسا ذہنی مرض بھی لاحق ہوگیا جس کے باعث ان کا توازن خراب ہونے کے باعث انھیں چلنے میں مشکل درپیش تھی، انھیں سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا تھا۔

بالی وڈ میں سوگ، ساتھی اداکاروں کا خراج تحسین

ان کے انتقال سے بھارتی فلمی صنعت سوگواری میں ڈوب گئی ہے۔ا ن کے بچھڑنے پر ساتھی اداکار بہت زیادہ غمزدہ ہیں۔ لیجنڈری اداکار امیتابھ بچن نے مرحوم  کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور ا ن کے انتقال کو ایک بڑا نقصان قرار دیا۔

 بالی ووڈ اداکار گووندا نےمرحوم کے ساتھ 1990 کی دہائی میں اداکاری کی اور بالی ووڈ انڈسٹری کو بلاک باسٹر فلمیں دیں۔بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق قادر خان کے انتقال کی خبر سن کر گووندا اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے اور زاروقطار رونے لگے ۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گووندا کا کہنا تھا کہ ’ مرحوم میرے والد کی طرح تھے، انھوں نے ہر قدم پر مدد کی اور مجھ سمیت تمام اداکاروں کی صلاحیتوں میں اضافہ کرتے ہوئے ہر موقع پر ہماری رہنمائی کی‘

ان کا کہنا تھا کہ آج ہم سب کا محسن چلا گیا جس نے ہمیں سپر اسٹار بنایا، مجھ سمیت کوئی بھی اداکار اپنے دکھ کا اظہار نہیں کرسکتا کیونکہ یہ ہمارے لیے ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ ہم سب دعا گو ہیں کہ اللہ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

قبرستان سے اداکاری کا سفر

وہ رات کا وقت ہوتا،ممبئی میں گھر کے پاس یہودی قبرستان میں ہر طرف اندھیرا اور سناٹا چھایا ہوتا۔ ایسے میں ایک بچہ وہاں بیٹھ کر ڈائیلاگ ادا کرنے کا ریاض کرتا رہتا۔۔۔

ایک رات یوں ہی ریاض جاری تھا کہ ایک ٹارچ سے روشنی اس کے چہرے پر ڈال کرکسی نے پوچھا، ”قبرستان میں کیا کر رہے ہو؟“

بچہ بولا ”میں دن میں جو بھی اچھا پڑھتا ہوں رات میں یہاں آکر بولتا ہوں اور ریاض کرتا ہوں۔“ اشرف خان نام کا وہ شخص فلموں میں کام کرتا تھا۔ اس نے پوچھا ”ناٹک میں کام کرو گے؟“

وہ بچہ تھا قادر خان۔۔۔ اور وہاں سے شروع ہواان کا وہ سفر جو چار سے زائد دہائیوں تک فلموں میں جاری رہا۔جب  انھوں نے بعد میں 1977 میں ’ مقدر کا سکندر ‘ لکھی تو اس میں ایک اہم سین ہے جہاں بچپن میں امیتابھ بچن رات کو قبرستان میں ماں کے مرنے پر رو رہے تھے۔وہاں سے گزرنے والا ایک فقیر (قادر خان) اس بچے سے کہتا ہے ’ اس قفیر کی ایک بات یاد رکھنا۔ زندگی کا صحیح لطف اٹھانا ہے تو موت سے کھیلو، سکھ تو بے وفا ہے چند دنوں کے لیے آتا ہے اور چلا جاتا ہے د کھ تو اپنا ساتھی ہے، اپنے ساتھ رہتا ہے، پونچھ دے آنسو۔ دکھ کو اپنا لے۔ تقدیر تیرے قدموں میں ہوگی اور تو مقدر کا بادشاہ ہوگا۔ ‘یہ سین قادر خان نے اپنے گھر کے پاس والے قبرستان سے لیا تھا۔

امیتابھ بچن کے کیریئر میں قادر خان کا اہم مقام رہا ہے

امیتابھ بچن کے کیریئر میں قادر خان کا اہم مقام رہا ہے

 قادر خان۔۔۔ڈائیلاگ کنگ

 انھوں نے 70 کی دہائی سے ڈائیلاگ لکھنے سے لے کر فلموں میں اداکاری تک خوب نام کمایا۔خون پسینہ، لاوارث، پرورش، امر اکبر انتھونی، نصیب، قلی۔۔۔ ان فلموں کا ا سپکرپٹ یا مکالمے لکھنے والے قادر خان نے امیتابھ بچن کے کیریئر کو سنوارنے میں بڑا کردار ادا کیا ۔تاہم ان کی شروع کی زندگی کافی تکالیف سے بھری رہی۔ کئی انٹرویو میں وہ  بتا چکے ہیں کہ افغانستان میں ان کے جنم سے پہلے ان کے تین بھائیوں کی موت ہو چکی تھی جس کے بعد ان کے ماں باپ نے افغستان چھوڑ کر انڈیا آنے کا فیصلہ کیا۔جلد ہی ماں باپ کی طلاق ہوگئی اور سوتیلے باپ کے ساتھ بچپن بہت غریبی میں گزرا۔ اس کے باوجود انھوں نے سول ا انجینئرنگ کا ڈپلومہ کیا اور ممبئی کے کالج میں پڑھانے لگے۔کالج میں ایک بار ناٹک یعنی تھیٹر مقابلہ تھا جہاں نریندر بیدی اور کامنی کوشل جج تھے۔  انھیں بہترین اداکار و مصنف کا انعام ملا اور ساتھ ہی ایک فلم کے لیے مکالمے لکھنے کا موقع بھی ملا۔ اس کا معاوضہ 1500 روپے تھا۔فلم 1972 میں ریلیز ہونے والی ’جوانی دیوانی‘ تھی جو ہٹ ہوگئی اور ’ رفوچکر‘ جیسی فلمیں انھیں ملنے لگیں۔لیکن  ان کی زندگی میں بڑا موڑ تب آیا جب 1974 میں من مومن ڈیسائی اور راجیش کھنہ کے ساتھ فلم ‘روٹی’ میں کام کرنے کا موقع ملا۔من موہن ڈیسائی کو قادر خان پر خاص بھروسہ نہیں تھا۔ من موہن ڈیسائی اکثر کہتے تھے کہ تم لوگ شاعری تو اچھی کر لیتے ہو پر تمھیں چا ہئیں ایسے ڈائیلاگ جس پر عوام تالی بجائے۔ پھر کیا تھا، وہ مکالمے لکھتے گئے اور من موہن ڈیسائی کو قادر خان کے ڈائیلاگ اتنے پسند آئے کہ وہ گھر کے اندر گئے، اپنا توشیبا ٹی وی، 21000 روپے اور برسلیٹ قادر خان کو وہیں کے وہیں تحفے میں دے دیا۔پہلی بار قادر خان کو ڈائیلاگ لکھنے پر ایک لاکھ سے زیادہ کی فیس ملی۔ یہاں سے شروع ہوا من موہن ڈیسائی، پرکاش مہتہ اور امیتابھ بچن کے ساتھ ان کا شاندار سفر۔قادر خان کی لکھی فلموں اور ڈائیلاگ ایک کے بعد ایک ہٹ ہونے لگے۔ ’اگنی پتھ‘ ، ستے پہ ستا ، شرابی ‘ امیتابھ کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک مکالمہ قادر خان نے دیا۔ من موہن ڈیسائی نے سونے کی بریسلیٹ اتار کردی

اداکاری کا سفر بھی شروع ہوگیا

ساتھ ہی چل نکلا قادر خان کی اداکاری کا سفر بھی۔ 1973 میں فلم ‘داغ’ میں ایک وکیل کے معمولی سے کردار میں قادر خان دکھائے گئے تو 1977 میں پولیس انسپکٹر کے چھوٹے سے کردار میں امیتابھ بچن کے ساتھ بھی نظر آئے۔اس کے بعد تو’خون پسینہ‘، شرابی ، ‘نصیب ، قربانی ‘ جیسی فلموں کی جھڑی لگ گئی۔ ولن کے روپ میں لوگ انھیں پہنچاننے لگے، قادر خان کی ایک اور خوبی تھی۔ وہ لپ ریڈنگ کر سکتے تھے یعنی دور سے ہی بولتے لبوں کے الفاظ کو سمجھ لیتے۔اپنے انٹرویو میں یہ قصہ سنانا وہ نہیں بھولتے کہ شروع شروع کے دنوں میں جب من موہن ڈیسائی کے گھر گیا تو دور سے دیکھ کر وہ بولے الو کے پٹھے کو سمجھ میں نہیں آیا، پھر آگیا۔ میں نے پاس جا کر کہا کہ آپ نے میرے بارے میں یہ لفظ بولے ہیں۔ میں لپ ریڈنگ کر سکتا ہوں۔ بعد میں فلم ’نصیب‘ میں انھوں نے یہ سین استعمال کیا ، جب ہیروئین ولن کی باتیں لپ ریڈنگ سے سمجھ لیتی ہے۔

امیتابھ بچن اور قادر خان

امیتابھ بچن کے کیریئر میں قادر خان کا اہم مقام رہا ہے۔ ایک وقت قادر خان اور امیتابھ بچن کی گہری دوستی تھی۔بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں قادر خان نے بتایا تھا کہ ‘میں امیتابھ کے حوالے سے فلم بھی بنانا چاہتا تھا، نام تھا جاہل۔ لیکن اس سے پہلے ہی امیتابھ بچن کو ’قلی‘ کی شوٹنگ کے دوران چوٹ لگ گئی، پھر وہ سیاست میں چلے گئے اور فلم ابھی بن نہیں پائی۔ ہمارے بیچ بھی دراڑ آگئی۔’ 1983 میں قادر خان نے فلم ‘ہمت والا’ لکھی اور اپنے لیے کامیڈی والا کردار بھی۔ تب تک وہ ولن والے موڈ سے باہر آنا چاہتے تھے۔ وہاں سے ان کے لکھنے اور اداکاری دونوں میں ایک بدلاو ¿ کا سا دور شروع ہوگیا۔مکالموں میں نفاست کی جگہ ٹپوری پن والے ڈائیلاگ نے لے لی۔ بی بی سی انٹرویو میں قادر خان فلموں کی بگڑتی زبان کا الزام خود کو بھی دیتے ہیں۔

 قادر خان کے مرنے کی خبر سن کر گووندا زار وقطار رو پڑے اور کہا ہمارا محسن چلا گیا

قادر خان کے مرنے کی خبر سن کر گووندا زار وقطار رو پڑے اور کہا ہمارا محسن چلا گیا

 ہیروز کی کامیابی کی کنجی

بالی وڈ نامور اداکار قادر خان دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن وہ اپنے مداحوں کی یادوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

بالی وڈ کے باکس آفس پر 1975 سے 2005 تک کسی بھی ہیرو کی حکمرانی رہی ہو لیکن اس ہیرو کی حکمرانی کی سلطنت بننے اور قائم رہنے میں قادر خان کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔قادر خان پہلے امیتابھ بچن، جتندر، متھن چکروتی، پھر انیل کپور کے بعد سلمان خان، سنجے دت، اکشے کمار اور سب سے بڑھ کر گوندا تک کے لیے کامیابی کی کنجی بنے رہے۔

قادر خان کے ولن اور مزاحیہ رنگ

قادر خان نے ولن کا روپ اختیار کیا تو امجد خان کے ساتھی کے طور پر نظر آئے بلکہ ا ±س زمانے میں جب امجد خان گبر بن کر بالی وڈ میں امر ہوچکے تھے تو قادر خان نے کئی فلموں میں ا ±ن سے بھی بڑے ولن کے کردار ادا کیے اور ولن کے کردار کو خوب نبھایا۔

 جب قادر خان نے مزاحیہ کردار کیے تو کامیڈی میں شکتی کپور، جونی لیور، پاریش راول، سدا شیو اور انوپم کھیر جیسے بڑے اداکاروں کو ” لِیڈ“کیا

اپنی گرج دار آواز اور ڈائیلاگ ڈلیوری کے لیے مشہور قادر خان نے کئی فلموں کی کہانی اور بہت ساری فلموں کے مکالمے بھی لکھے لیکن دنیا انہیں ایک اداکار کے طور پر زیادہ جانتی ہے۔

قادر خان نے اپنے فلمی کیریئر میں مجموعی طور پر 400 فلموں میں کام کیا۔ ان کی آخری بڑی فلم”محبوبہ“ دس سال پہلے ریلیز ہوئی تھی۔

دھڑکن میں استاد نصرت فتح علی خان کی آواز میں ”دلہے کا سہرا“ بھی قادر خان پر خوب چمکا۔قادر خان اور شکتی کپور کی جوڑی غالبا بالی وڈ میں سب سے زیادہ ایک ساتھ کام کرنے والی جوڑیوں میں سب سے اوپر ہوگی۔

 قادر خان اپنی تحریر، مکالموں اور اداکاری کی وجہ سے کئی بار ایوارڈز کے لیے نامزد ہوئے لیکن ایوارڈ انھوںنے ’میری آواز سنو‘، ’باپ نمبری بیٹا دس نمبری‘ اور ’انگار‘ سے جیتے۔

دین کی طرف رجحان

قادر خان ہر فن مولا تھے۔ اداکاری کے ساتھ ساتھ وہ چپکے چپکے عثمانیہ یونیورسٹی سے عربی زبان سیکھتے رہے۔عربی سیکھنے کے بعد وہ دین کے کام میں زیادہ مصروف ہونے لگے۔ طبیعت خراب ہونے کے بعد زیادہ تر وقت ان کا کینیڈا میں بچوں کے ساتھ گزرا۔قادر خان نے فلموں کے اسپکرپٹ، ڈائیلاگ اور اداکاری کو اپنے رنگ میں ڈھالا۔ ایک فلم شائق ہونے ناتے مجھے ہمیشہ لگتا رہا ہے کہ ان  کی قابلیت کا پورا پورا فائدہ شاید ہم نہیں اٹھا پائے۔ورنہ ایسے مصنف اور اداکار کم ہی ملتے ہیں جن کے پاس اچھی زبان، اچھی تحریر، اچھا انداز، سب کچھ ہو۔

قادر خان کے کچھ یادگار ڈائیلاگ

فلم ہم: محبت کو سمجھنا ہو تو پیارے خود محبت کر، کنارے سے کبھی انداز طوفان نہیں ہوتا۔

فلم اگنی پتھ: وجے دینا ناتھ چوہان، پورا نام، باپ کا نام دینا ناتھ چوہان، ماں کا نام سوہاسنی چوہان، گاو ¿ں مانڈوا، عمر 36 سال، نو مہینے آٹھ دن اور یہ 16واں گھنٹہ چالو ہے۔

فلم قلی: ہماری تعریف ذرا لمبی ہے۔ بچپن سے سر پر اللہ کا ہاتھ اور اللہ راکھا ہے اپنے ساتھ۔ باجو پر 786 کا ہے بلا، 20 نمبر کی بیڑی پیتا ہوں، کام کرتا ہوں قلی کا اور نام ہے اقبال۔

فلم انگار: ایسے تحفے (بندوق) دینے والا دوست نہیں ہوتا ہے، تیرے باپ نے 40 سال ممبئی پر حکومت کی ہے ان کھلونوں کو بل پر نہیں، اپنے دم پر۔

ستے پہ ستا: دارو وارو پیتا نہیں اپن۔ معلوم کیا؟ کیونکہ دارو پینے سے لیور خراب ہو جاتا ہے۔ وہ اس دن کیا ہوا اپن دوست کا شادی میں گیا۔ اس دن زبردستی چار باٹلی پلائی۔ ویسے میں دارو نہیں پیتا کیونکہ دارو پینے سے لیور خراب ہو جاتا ہے۔

مقدر کا سکندر: زندگی کا صحیح لطف اٹھانا ہے تو موت سے کھیلو۔

قادر خان ایسے مصنف اور اداکار کم ہی ہوتے ہیں جن کے پاس اچھی زبان، اچھی تحریر، اچھا انداز، سب ہی کچھ ہو

قادر خان ایسے مصنف اور اداکار کم ہی ہوتے ہیں جن کے پاس اچھی زبان، اچھی تحریر، اچھا انداز، سب ہی کچھ ہو

Facebook Comments

POST A COMMENT.