صدف اقبال تم کون ہو اور کہاں سے آئی ہو ؟ انسانیت کے درد و کرب میں‌ڈوبی حساس نظم

تعارف :

صدف اقبال! بھارت کے صوبے بہار کے شہر ”گیا “ کے نزدیک ایک چھوٹے سے گاﺅں بھدیہ میں رہتی  ہیں۔ انہوں نے گیا کالج سے تعلیم حاصل کی ہے، اپنے علاقے کی بہتری اور لوگوں کی فلاح کے لیے وہ اپنی ایک این جی او کے ذریعے سماجی کاموں میں سرگرمی سے حصہ لیتی ہیں، لیکن بطور ہاﺅس وائف گھریلو امور اور زمے داریوں کو اولین اہمیت دیتی ہیں۔ بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں، شاعری بھی کرتی ہیں

ان کی نظم ” صدف اقبال تم کون ہو اور کہاں سے آئی ہو“ ایک خاص احساس کی حامل ہے۔ فنی تناظر کے بجائے اس نظم کو انسانیت کے درد و کرب کے پس منظر میں پڑھیں تو احساس ہوتا ہے کہ صدف اقبال کے یہاں صرف اپنے علاقے کے مسائل اور گجرات میں ہونے والے ظلم و ستم ہی نہیں شام اور دنیا بھر میں ہونے والے انسانیت سوز واقعات کا درد و کرب اور انسانی المیوں کا ادراک واحساس نمایاں ہے۔ انہوں نے ”صدف اقبال تم کون ہو اور کہاں سے آئی ہو“ کے ایک ہی نام سے تاریخ، ثقافت، زبان، عورت، تہذیبی زوال، استحصال، منافرت، تصادم جیسے بڑے کینوس پر نظموں کی ایک سیریز لکھی ہے، جو ان کی وسیع فکرونظر کا ثبوت ہے۔ اپنی نظموںکے حوالے سے وہ خود کہتی ہیں کہ میری اس سیریز کی نظموں کو کلچرل ڈسکورس اور انسانی کشا کش کے پس منظر میں پڑھیں۔ 

٭٭٭

نظم

 صدف اقبال

(بھدیہ، گیا، بہار )

صدف اقبال تم کون ہو اور کہاں سے آئی ہو

صدف اقبال تم کون ہو اور کہاں سے آئی ہو

صدیوں کی مسافت طے کرتی

ہماری نگری میں

کس جہاں سے آئی ہو

کیا تم سیریا کی مہاجر ہو

جس کے چہرے پہ نفرت کی خراشیں ہیں

آنکھوں میں وحشت ،دل میں اضطراب ہے

کیا ہے کہ تمہیں یک گونہ سکون نہیں ہے

لڑتی پھرتی ہو سارے زمانے سے

کبھی عظیم آباد کی سڑکوں پر اردو کی صدا بلند کرتی ہو

کبھی اخبار کے صفحات پر بے چین روح کی طرح نظر آتی ہو

کبھی کسی جلسہ گاہ میں غضب ناک تقریریں کرتی نظر آتی ہو

کبھی کسی کچے گھر میں دلتوں کے حال پہ فکر مند دکھائی دیتی ہو

اور کبھی تنہائی میں خود سے گفتگو کرتی ہوءچپکے چپکے روتی ہو

کیا تم گجرات سے آئی ہو

جس کے خاندان کو اس کی آنکھوں کے سامنے تہ تیغ کر دیا گیا

کسی حاملہ بہن کا پیٹ چیر کر نا مکمل وجود کو نیزے پہ اچھالا گیا

کیا تم آگ اور خون کا دریا پار کرکے آئی ہو

کیا محسوس کرتی ہو تم

جب اردو کی لاش پر بیٹھے بے رحم گدھ اس کی آنکھوں کو نوچتے ہیں

میں نے دیکھا ہے تم روتی نہیں ہو

تمہاری آنکھیں شعلہ بار ہو جاتی ہیں

جسم میں رعشہ طاری ہو جاتا ہے

اور تم گِدّھوں کے وجود کو فنا کر دینا چاہتی ہو

صدف اقبال تم کون ہو کہاں سے آئی ہو

کیا تم فلسطین سے آئی ہو

جہاں معصوم بچوں کے ہاتھوں میں سنگ ریزوں کو دیکھ کر تم بے چین ہو اٹھتی ہو

لیکن تم بم کے خلاف پتھر اچھالنا نہیں چاہتی ہو

ایک ایسی آگ پیدا کرنا چاہتی ہو

جس میں جل کر ظلم ہمیشہ کے لیے خاکستر ہو جائے

صدف اقبال شاید تم بہار کے ایک چھوٹے سے گاوں سے آئی ہو

جہاں عورتیں گٹھری بنی اپنے پتی کا انتظار کرتی ہیں

ان کی مار سہتی ہیں

اور

نفرت کے جواب میں خوشی خوشی ان کے آگے گرم تازہ کھانا پروستی ہیں

شاید تم وہی ہو

جو صدیوں سے چہرے پہ مسکراہٹ لے کرغم کے سمندر کو سمیٹے ہوئے ہے

 صدف اقبال تم ویشالی کی نگر ودھو تو نہیں

جس کے حسن کی ستائش تو سبھی کرتے ہیں

لیکن

اس کی شخصیت کا اعتراف کوئی نہیں کرتا ہے

صدف اقبال ویشالی کی نگر ودھو تم ہی تو تھیں

جس نے بدھ کو راجگرہ میں ساون ون دان دیا تھا

صدف اقبال تم جنگل ،پہاڑوں اور صحراﺅں میں

ایک بھٹکتی آتما کی طرح کیوں گھومتی ہو

کسے تلاشتی ہو

کیا تم نہیں جانتی کہ اقبال نے کہا ہے

نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشہ ¿ فراغت

یہ جہاں عجب جہاں ہے نہ قفس نہ آشیانہ

صدف اقبال تم روشنی کی تلاش میں نکلی ہو

جب کہ سورج ڈوب چکا ہے

اور کائنات پہ اندھیرا محیط ہے

تاریک پانیوں کی تلاش بھی فضول ہے

جس پر خدا سانس لیتا تھا

٭٭٭

Facebook Comments

POST A COMMENT.