مسز اندرا گاندھی سے ملاقات میرے صحافتی دورکا اہم واقعہ ہے، حمیرااطہر

مسز اندرا گاندھی نے بہ مشکل 30 منٹ ملاقات کاوقت دیا ،یہ وہ وقت تھا جب بھارت میں ایمرجنسی نافذ تھی ، انٹرویو کی اجازت اس شرط پر دی کہ اس میں سیاست پر کوئی بات نہیں ہوگی

فروری 1980 میں مجھے اپنے ماموں کے گھر والوں کے ساتھ بھارت جانے کا موقع ملا تو وزیراعظم مسز اندرا گاندھی سے ملاقات کا خیال آیا، اس وقت مجھے ہفت روزہ ”اخبار خواتین“ میں کام کرتے ہوئے یک سال ہوا تھا

جگ جیون رام کو پارٹی اور وزارت میں جگہ دینے کے سوال پر مسز اندرا گاندھی نے سختی سے کہا کہ اِس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا

ایک ملک کو دوسرے ملک کے معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے، ہم نے روسی حکومت سے بھی کہہ دیا ہے کہ افغانستان میں اس کی مداخلت کا یہ اقدام ہمیں پسند نہیں، اندرا گاندھی

مقررہ تیس منٹ پورے ہو گئے تو میں نے اپنا قلم میز پہ رکھتے ہوئے کہا: ”میڈم! آپ کا تعلق ایک بہت بڑے سیاسی خاندان سے ہے اور اِس وقت ایک بہت بڑے جمہوری ملک کی وزیراعظم بھی ہیں۔ میں پاکستان سے آئی ہوئی ایک صحافی۔ ایسے میں جب یہ انٹرویوشائع ہوگا جس میں سیاست پر کوئی بات نہیں ہوئی تو کیا لوگ یہ نہیں سوچیں گے کہ شاید آپ کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں، نہ ہی آپ کسی بڑے جمہوری ملک کی وزیراعظم ہیں۔ یا پھر یہ کہ پاکستانی صحافی یعنی میں، اتنی جاہل اور بے وقوف ہے کہ اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ کس شخصیت سے کیا باتیں کی جاتی ہیں؟ تو آپ کس کا امیج خراب کرنا چاہتی ہیں، اپنا یا میرا؟“اس پر وہ زیر لب مسکرائیں اور بولیں، ”تو آپ کیا چاہتی ہیں؟“ میں نے کہا، ”کم ازکم دو سوال۔“ ان کی اجازت ملنے کے بعد میں نے افغانستان اور مقبوضہ کشمیرکے بارے میں دو سوال کیے۔ اور یہی سوالات اس ملاقات کا حاصل ٹھہرے


ہفتہ 6ربیع الاول 1442ھ 24اکتوبر2020ء

شخصیات ویب نیوز

حمیرااطہر کی بھا رتی وزیراعظم اندرا گاندھی سے 40منٹ کی ملاقات

کا احوال خود حمیرا اطہر کی زبانی

مقصد تک رسائی حاصل کرنے کی خاطر شرائط قبول کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں، بس یہ موقع آپ کو نکالنا ہے کہ پھر آپ شرائط نظرانداز کر کے اپنے مقصد میں کس طرح کام یاب ہوتے ہیں، حمیرااطہر کا مشورہ

مقصد تک رسائی  کی خاطر شرائط قبول کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں، بس یہ موقع آپ کو نکالنا ہے کہ پھر آپ شرائط نظرانداز کر کے اپنے مقصد میں کس طرح کام یاب ہوتے ہیں، حمیرااطہر کا مشورہ

فروری 1980 کی بات ہے، مجھے ہفت روزہ ”اخبار خواتین“ میں کام کرتے ہوئے صرف ایک سال ہوا تھا کہ اپنے ماموں کے گھر والوں کے ساتھ بھارت جانے کا موقع ملا تو خیال آیا، کیوں نہ بھارت کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی سے بھی ملاقات کی جائے۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارت میں ایمرجنسی نافذ تھی اور مسز اندرا گاندھی معزولی کے بعد دوبارہ برسر اقتدار آئی تھیں۔ اب سوال یہ درپیش آیا کہ ان سے وقت کیسے لیا جائے؟ 1965کی جنگ کے نتیجے میں پاکستان میں بھاتی سفارت خانہ بند ہونے بعد 1979 میں کراچی میں قونصل آفس کھولا گیا، مسٹر مانی شنکر آئیر اس کے پہلے قونصلر مقرر ہوئے۔ تب میں نے ان سمیت ان کی اہلیہ، ڈپٹی قونصلر ترپاٹھی اور ان کی اہلیہ سوریہ کانتی ترپاٹھی، جو خود بھی وہاں آفیسر کی حیثیت سے تعینات تھیں، کے انٹرویوز پر مبنی فیچر شائع کیا تھا، جو ان سب نے بہت پسند کیا تھا اور کئی مرتبہ فرمائش کر چکے تھے کہ ”ہمارے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور بتائیے گا۔“ چناںچہ میں نے مسٹر مانی شنکر آئیر سے درخواست کی کہ میری مسز اندرا گاندھی سے ملاقات کا انتظام کرا دیں۔ مزید تفصیل سے گریز کرتے ہوئے اتنا بتانا چاہوں گی کہ انہوں نے اگلے ہی دن فون پر کہا کہ میں دہلی پہنچ کر پاکستانی امور کے سیکریٹری دلیپ مہتہ سے مل لوں، وہ ملاقات کا اہتمام کر دیں گے۔ میں نے انہی کے ذریعے اطلاع کرا دی کہ میں فروری کے تیسرے ہفتے میں (17 سے 22 فروری تک) دہلی پہنچوں گی کیوںکہ مجھے پہلے غازی پور، بنارس، لکھنو اور کان پور جانا تھا۔ سوئے اتفاق کہ میں غازی پور پہنچ کر شدید بیمار ہوگئی۔ لہٰذا، 11 فروری کو مسٹر دلیپ مہتہ کو معذرت کا ایروگرام بھیج دیا کہ اب میں دہلی تاخیر سے پہنچ پاﺅں گی۔ وہاں پہنچ کر اطلاع دوں گی تب کوئی نئی تاریخ مقرر کر دیجیے گا۔ لیکن اچانک 17 فروری کی دوپہر مجھے پارلیمنٹ ہاﺅس، نئی دہلی کی جانب سے ایک ایکسپریس ٹیلی گرام ملا: ”مسز اندرا گاندھی سے آپ کی ملاقات کے لیے 19 فروری کو ساڑھے بارہ بجے کا وقت مقرر ہو گیا ہے، تشریف لے آئیے۔“ ٹیلی گرام پر لگی مہر کے مطابق اسے 12 فروری کو بھیجا گیا تھا۔
غازی پور سے دہلی تک دو دن کا سفر ہے۔ لہٰذا، میرے لیے 19 فروری کو وہاں پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ یوں بھی میں اپنے خط کی بِناءپر یہ باور کیے بیٹھی تھی کہ میرے بھیجے گئے ایروگرام کے بعد وزیراعظم اندرا گاندھی سے میری ملاقات کی تاریخ منسوخ ہو چکی ہوگی۔
11 مارچ کو دہلی پہنچنے پر مسٹر دلیپ مہتہ کو فون کر کے اطلاع دی تو وہ خاصے برہم ہوئے۔ بولے: ”آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتیں کہ شریمتی کتنی مصروف رہتی ہیں اور آپ کے لیے کتنی مشکل سے وقت نکالا گیا تھا۔“ میں نے ان سے درخواست کی مجھے اپنے دفتر آنے کا موقع دیں تاکہ بالمشافہ بات ہو سکے۔
دوسرے روز ان کے دفتر گئی اور ساری صورت حال سمجھانے کی کوشش کی۔ ان کا غصہ کسی صورت کم نہیں ہو رہا تھا، منہ سے جھاگ اڑ رہا تھا۔ کہنے لگے، ”آپ کو اندازہ نہیں کہ 17 سے 19 فروری تک ہمارے پاس پرائم منسٹر ہائوس سے کتنے ٹیلی فون آئے اور ہم پر کتنا دباﺅ رہا کہ وہ جرنلسٹ کہاں ہے جسے وقت دیا گیا ہے؟ آپ کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں تھی، آپ کی چِٹھی بھی 19 فروری کے بعد ملی لہٰذا، اپائمنٹ بھی منسوخ نہیں کیا گیا اور شریمتی اندرا گاندھی آپ کا انتظار کرتی رہیں۔ ان کا بیس منٹ کا وہ وقت بالکل خالی گیا۔ آپ پاکستانی بہت careless ہوتے ہیں۔“
ان کی آخری بات پر مجھے غصہ تو بہت آیا پھر بھی تحمل سے کہا، ”مسٹر مہتہ! ایک بات کا جواب دیں، دہلی اور غازی پور، دونوں ہی بھارت میں ہیں، اگر دہلی سیکریٹریٹ سے ایکسپریس ٹیلی گرام پانچ دن میں غازی پور پہنچتا ہے یا غازی پور سے بھیجا جانے والا اِن لینڈ ایروگرام نو دن میں نئی دہلی پہنچتا ہے تو اس میں میری خطا کہاں ہے؟ آپ اپنے محکمہ ڈاک کو ٹھیک کریں۔ اگر کوئی ایک خط بھی وقت پر پہنچ گیا ہوتا تو یہ صورت پیش نہ آتی۔“
اس پر وہ کچھ نرم پڑے، کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی اور ٹھنڈی سانس بھر کر بولے، ”اب آپ کیا چاہتی ہیں؟“ میں نے نہایت اطمینان سے کہا، ”مسز اندرا گاندھی سے ملاقات!“
کہا، ”میں وعدہ تو نہیں کرتا البتہ کوشش پوری کروں گا کہ آپ کو دوبارہ وقت مل جائے۔ لیکن اتنا بتا دوں کہ اب یہ بہت مشکل ہے کیوںکہ آج کل بجٹ سیشن چل رہا ہے۔“
اور واقعی انہوں نے بھرپور کوشش کی جس کے نتیجے میں 15مارچ کو ان کے سیکریٹری کا فون آیا کہ ”آپ 17مارچ کو ساڑھے تین بجے پارلیمنٹ ہاﺅس پہنچ جائیں، شریمتی اندرا گاندھی نے 30 منٹ کا وقت دیا ہے۔“
ان دنوں اسمبلی میں بجٹ پر بحث جاری تھی تاہم، 17مارچ کو ٹھیک تین بجے مسز اندرا گاندھی اپنے آفس میں میرے سامنے موجود تھیں۔ اور وہ ملاقات، جس کے لیے تیس منٹ کا وقت بھی مشکل سے ملا تھا، چالیس منٹ تک جاری رہی۔ جس کے لیے چلتے ہوئے میں نے خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا تو مسکراتے ہوئے بولیں، ”اور تو کوئی بات نہیں، چار بجے ایک امریکی کو ٹائم دیا تھا، وہ دس منٹ لیٹ ہو گیا۔“
میں ان کے آفس سے باہر نکلی تو وہ امریکی کاریڈور میں ٹہل رہا تھا۔ میں نے اسے دیکھ کے ایک خاص خوشی اور طمانیت محسوس کی کہ ایک پاکستانی صحافی نے امریکی آفیسر کو دس منٹ انتظار کروایا۔
اس ملاقات کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ مسٹر مانی شنکر آئیر نے مجھے پاکستان ہی میں بتا دیا تھا کہ انٹرویو کی اجازت اس شرط پر ملے گی اس میں سیاست پر کوئی بات نہیں ہوگی۔ میں نے بھی یہ اطمینان دلاتے ہوئے ہامی بھر لی تھی کہ میں خاتون، مسز گاندھی خاتون، میرا رسالہ بھی خواتین کے لیے ہے لہٰذا، ساری ملاقات دونوں ممالک کی خواتین کے مشترک مسائل اور ترقی تک ہی محدود ہوگی۔ لیکن ہوا کچھ یوں کہ جب ہماری ملاقات کے مقررہ تیس منٹ پورے ہو گئے تو میں نے اپنا قلم میز پہ رکھتے ہوئے کہا:
”میڈم! آپ کا تعلق ایک بہت بڑے سیاسی خاندان سے ہے اور اِس وقت ایک بہت بڑے جمہوری ملک کی وزیراعظم بھی ہیں۔ میں پاکستان سے آئی ہوئی ایک صحافی۔ ایسے میں جب یہ انٹرویو شائع ہوگا جس میں سیاست پر کوئی بات نہیں ہوئی تو کیا لوگ یہ نہیں سوچیں گے کہ شاید آپ کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں، نہ ہی آپ کسی بڑے جمہوری ملک کی وزیراعظم ہیں۔ یا پھر یہ کہ پاکستانی صحافی یعنی میں، اتنی جاہل اور بے وقوف ہے کہ اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ کس شخصیت سے کیا باتیں کی جاتی ہیں؟ تو آپ کس کا امیج خراب کرنا چاہتی ہیں، اپنا یا میرا؟“
اس پر وہ زیر لب مسکرائیں اور بولیں، ”تو آپ کیا چاہتی ہیں؟“
میں نے کہا، ”کم ازکم دو سوال۔“
”اچھا ٹھیک ہے، مگر صرف دو سوال۔“ انہوں نے اجازت دیتے ہوئے کہا۔
جس پر میں نے افغانستان اور مقبوضہ کشمیر کے بارے میں دو سوال کیے۔ اور یہی سوالات اس ملاقات کا حاصل ٹھہرے کہ انٹرویو کی اشاعت کے بعد نہ صرف نیوز ایجنسی پی پی آئی نے اس کی خبر بنا کر ریلیز کی جو اگلے دن ملک کے تمام اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوئی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس سے اگلے دن روزنامہ ڈان، جنگ، جسارت، حریت اور مشرق نے اس پر شذرات یعنی ایڈیٹوریل نوٹ بھی لکھے۔
اس انٹرویو کی اشاعت کے اگلے دن مسٹر آئیر نے مجھے اپنے آفس آنے کی دعوت دی اور جب میں وہاں پہنچی تو انہوں نے اپنی میز کی دائیں جانب والی دراز سے دیوناگری رسم الخط (ہندی) میں لکھا ایک اسکرپٹ نکال کر اپنے سامنے رکھا۔ پھر بائیں جانب والی دراز سے اخبار خواتین کا وہ شمارہ نکالا جس میں وہ انٹرویو شائع ہوا تھا۔ انہوں نے انٹرویو والا صفحہ کھولا اور دیوناگری رسم الخط والے اسکرپٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”مس اطہر! آپ کو پتا ہے، یہ کیا ہے؟“
میں نے کہا، مجھے دیوناگری پڑھنی تو نہیں آتی لیکن میرا اندازہ ہے کہ یہ میرے انٹرویو کا ہندی ترجمہ ہوگا۔“
انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ”Exectly اور یہ میرے پاس دہلی سےاسی وقت آگیا تھا جب آپ انڈیا ہی میں تھیں۔ (میری واپسی 23 مارچ کو ہوئی تھی۔) اس کے ساتھ یہ ہدایت بھی تھی کہ چوں کہ مسز اندرا گاندھی سے انٹرویو لینے والی لڑکی صحافت کا زیادہ تجربہ نہیں رکھتی (مجھے اس وقت قریباً چار برس ہوئے تھے۔) اس نے انٹرویو ریکارڈ کرنے کے بجائے قلم سے نوٹس لیے ہیں۔ (واضح رہے کہ اس انٹرویو کے دوران میں مسزاندرا گاندھی کے آفس میں دو اسٹینوگرافر موجود تھے، ان میں سے ایک میرے سوالات اور دوسرا مسز گاندھی کے جوابات لکھ رہا تھا، ساتھ ہی ساری گفتگو ریکارڈ بھی کی جا رہی تھی۔) پھر افغانستان اور کشمیر جیسے حساس موضوعات پر بھی بات کی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس کا تعلق پاکستان سے ہے۔ چناں چہ ہو سکتا ہے کہ کوئی بات وہ ٹھیک طرح سے نوٹ نہ کرسکی ہو یا پاکستانی ہونے کی وجہ سے کسی بات کو غلط انداز میں لکھ دے۔ ایسے میں آپ وہیں سے فوراً تردیدی بیان جاری کر دیں۔“
”تو یہ سب مجھے بتانے کا مقصد؟ کوئی تردیدی بیان ہے کیا؟؟“ میں نے پوچھا۔
جواب میں مسٹر آئیر نے مسکراتے ہوئے کہا، ”تردیدی بیان!! مس اطہر! یہاں تو جملوں کی ترتیب تک نہیں بدلی، جب کہ آپ نے انٹرویو ریکارڈ بھی نہیں کیا تھا۔
” How it is possible?
میں نے جواب دیا۔
“Mr. Aaer! I am Pakistani journalist and you people underestimate Pakistan and Pakistanis.”
اس پر وہ بولے، ”نہیں ایسا بالکل نہیں ہے، ورنہ میں آپ کی ملاقات کے لیے کوشش ہی کیوں کرتا۔“
خیر یہ واقعہ بتانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہمارے نوآموز صحافی یا لکھاری کسی بڑی شخصیت سے ملنے یا ان سے انٹرویو لینے جائیں تو خود کو کسی صورت ان سے کم تر نہ سمجھیں، کیوںکہ اگر آپ یا آپ کا ادارہ کم تر ہوتا تو آپ کو ملاقات کا وقت ہی نہیں ملتا۔ دوسری بات یہ کہ مقصد تک رسائی حاصل کرنے کی خاطر شرائط قبول کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں، بس یہ موقع آپ کو نکالنا ہے کہ پھر آپ شرائط نظرانداز کر کے اپنے مقصد میں کس طرح کام یاب ہوتے ہیں۔
جگ جیون رام کو پارٹی اور وزارت میں جگہ دینے کے سوال پر مسز اندرا گاندھی نے سختی سے کہا کہ اِس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

 

مقصد تک رسائی حاصل کرنے کی خاطر شرائط قبول کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں، بس یہ موقع آپ کو نکالنا ہے کہ پھر آپ شرائط نظرانداز کر کے اپنے مقصد میں کس طرح کام یاب ہوتے ہیں، حمیرااطہرہماری خصوصی درخواست پر بین الاقوامی سیاست کے بارے میں دو سوالات کی اجازت ملی تو پہلے افغانستان میں بھارتی فوج کے جواز کی وضاحت چاہی ، جس پر مسز اندرا گاندھی نے کہا، ”ہم وہاں روسی کارروائی کو کوئی نام تو نہیں دیتے لیکن ہمارا خیال ہمیشہ یہ رہا کہ ایک ملک کو دوسرے ملک کے معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ ہم نے روسی حکومت سے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ اس کا یہ اقدام ہمیں پسند نہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ افغانستان میں روسیوں کا عمل دخل رہا ہے۔ ویت نام میں چینی گئے تو کسی نے غل نہیں مچایا۔ ہم سب کے ساتھ یکساں عمل چاہتے ہیں۔ روسیوں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں پاکستان سے تربیت یافتہ لڑنے والے بھیجے جا رہے ہیں اگر وہ انہیں بھیجنا بند کر دے تو ہم بھی فوج ہٹا لیں گے۔“
کیا افغانستان میں روسی افواج کی مداخلت سے ہندوستان کو کوئی خطرہ لاحق ہے؟
”بظاہر توکوئی خطرہ لاحق نہیں ہے، ہماری شروع سے یہ رائے رہی ہے کہ ہم امن کے لیے کام کرتے رہیں گے۔ ہم امریکا اور روس کی سرد جنگ بھی ختم کرانا چاہتے تھے۔ ہم نے ان کے سمجھوتوں کا خیرمقدم کیا تاکہ دنیا لڑائی کے خطرے سے بچی رہے۔ مگر شاید دونوں ہی طرف سے کچھ ایسی باتیں ہوئیں کہ دونوں پھر سے سرد جنگ کی طرف چلے گئے۔ اس سے سیدھا خطرہ تو ہمارے اوپر نہیں ہے پھر بھی لڑائی میں ہمارے جیسے غریب ملکوں کا حرج زیادہ ہوتا ہے۔“
کیا افغانستان میں روسی کارروائی پاک بھارت تعلقات کو متاثر کرے گی؟
”ہم تو شروع ہی سے دوستی کے لیے کوشش کرتے رہے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں کیونکہ اگر ہم جنگ میں الجھ گئے تو پھر اپنے اصل دشمن یعنی ’غریبی‘ سے نہیں لڑ سکتے۔“
اب مَیں مسز اندرا گاندھی سے اس اہم اور نازک مسئلے کے بارے میں پوچھنے لگی تھی جو آج تک دونوں ممالک کے درمیان تنازعے کا سبب ہے۔ سوال کرنے سے پہلے مَیں نے ان کی طرف بغور دیکھا پھر کہا، آپ کے نزدیک مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہے؟
اِس سوال پر نہ صرف مسز اندرا گاندھی بلکہ ان کا سیکریٹری اور وہ دونوں اسٹینوگرافر بھی چونک گئے جو ہماری گفتگو کو شارٹ ہینڈ میں قلم بند کر رہے تھے۔ پھر مسز اندرا گاندھی نے سنبھلتے ہوئے دائیں ہاتھ سے کان کے پیچھے کھجاتے ہوئے کہا، حل کیا ہو سکتا ہے؟ مسئلہ۔۔۔۔۔۔ مسئلہ۔۔۔۔۔۔۔“
اچھا چلیں۔۔۔۔۔۔ پہلے یہ بتا دیں کہ آپ کے نزدیک یہ کوئی مسئلہ ہے بھی یا نہیں؟ اب کے میرا سوال زیادہ دوٹوک تھا۔ اِس پر وہ برجستہ بولیں، ”میرے نزدیک تو یہ کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔“
خاص نہ سہی عام تو ہے، اسی کا حل بتا دیجیے۔ کوئی صورت ہے آپ کے نزدیک؟
اِس پر وہ ہنستے ہوئے بولیں، ”کچھ نہ کچھ جواب ضرور لینا ہے۔ دیکھیں! ہمارے یہاں کشمیر میں چناﺅ ہوتے ہیں۔ اس کا کام چل رہا ہے۔ آپ اسے مسئلہ کیوں سمجھتی ہیں؟“
مسز اندرا گاندھی سے انٹرویو کی اجازت اس شرط پر ملی تھی کہ پاکستان و بھارت کے مابین سیاست پر کوئی بات نہیں ہوگی۔ تاہم، مَیں نے نہ صرف ان کے ملک کی اندرونی سیاست بلکہ خصوصی اجازت لے کر پاکستان اور بھارت کے مابین دو اہم اور حساس معاملے پر بھی بات کر لی۔ چناں چہ گفتگو کا رخ موڑتے ہوئے پوچھا، آپ اپنے ملک کے تمام اخبارات اور جرائد کا مطالعہ کرتی ہیں؟
”نہیں! مَیں اِس کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔“ ا±نہوں نے برجستہ جواب دیا۔
پھر ملک کے بارے میں معلومات کس طرح حاصل کرتی ہیں؟ مَیں نے کسی قدر حیرت سے پوچھا۔ ان کے جواب نے مجھے مزید حیران کر دیا۔ کہنے لگیں، ”ہمیں تو لگتا ہے کہ اخبار سے کوئی خبر نہیں ملتی۔ ہمارا ذریعہ تو ہماری جَنتا ہے۔ مَیں روز صبح آٹھ بجے اپنے گھر پر لوگوں سے ایک گھنٹے تک ملاقاتیں کر کے ان کے مسائل سنتی ہوں۔ کبھی کبھی زیادہ وقت بھی لگ جاتا ہے۔“
اپنے بارے میں شائع ہونے والے کارٹون دیکھ کر آپ کا رد عمل کیا ہوتا ہے؟
”کچھ نہیں ، سیاست دانوں کے کارٹون چھپتے ہی رہتے ہیں۔“
ایک خاتون کی حیثیت سے گھرداری اور سیاست میں توازن کس طرح رکھتی ہیں؟
”توازن کا مسئلہ یوں نہیں پیدا ہوتا کہ مجھے کوئی خاص گھرداری نہیں کرنی پڑتی۔ بچے سب بڑے اور اپنے اپنے گھروں کے ہیں۔“
آپ کا صرف ایک ہی بیٹا، سنجے سیاست میں آیا، اس کی کیا وجہ ہے؟
”اسی کو لا کر پچھتائی۔ سنجے کی سیاست میں آنے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ پہلے مَیں لے کر آئی اور اِس مرتبہ اپوزیشن نے اس پر اتنے حملے کیے کہ جواب دینے کی خاطر اس کا آنا ضروری ہوگیا۔“
آزادی نسواں کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے مسز اندرا گاندھی نے کہا: ”آزادی? نسواں کا مطلب وہی ہے جو مردوں کی آزادی کا ہے۔ ہمارے یہاں چوں کہ عورتیں زیادہ دبی رہی ہیں اِس لیے ان کی صلاحیتیں بڑھ نہیں سکیں۔ انہیں اس کا موقع ملنا چاہیے۔ بھارت میں جو خواتین باعمل تھیں، انہوں نے ہمیشہ اپنی جگہ بنائی ہے۔ مَیں سمجھتی ہوں کہ عورتوں کو دبانے سے سارے خاندان اور خود مردوں کا حرج ہوتا ہے۔ ہمارے جیسے ملک کے لیے، جہاں عورتیں آبادی کا نصف ہیں، عورتوں کی صلاحیتوں کا استعمال بے حد ضروری ہے۔“
بھارت کے قدیم اور جدید معاشروں کے فرق کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے مسز اندرا گاندھی نے کہا کہ دونوں معاشروں کی ہر چیز میں فرق ہے۔ یہاں تک کہ غریبی میں بھی فرق آیا ہے۔ جس طرح کی غربت پہلے تھی، اب نہیں ہے۔ پہلے ہمارے دیہات میں آنکھوں کی بیماریاں زیادہ تھیں، اب نہیں ہیں۔
بھارتی خواتین کو عملی میدان میں آنے کے لیے روایتی پابندیوں سے کس حد تک دوچار ہونا پڑتا ہے؟
”شہر میں زیادہ آسانیاں ہیں۔ رکاوٹیں اور پابندیاں بھی ہر جگہ الگ الگ ہیں۔ دیہات میں زیادہ ہیں۔ تاہم، ان خواتین کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ انہیں گاﺅں کی پنچائت میں بھی نمائندگی دی جاتی ہے۔ اِس کے لیے ان کے درمیان چناﺅ ہوتا ہے۔ اس چناﺅ میں اکثر اَن پڑھ عورتیں کام یاب ہو جاتی ہیں لیکن وہ اپنی سمجھ داری کی وجہ سے آتی ہیں۔“
آپ کے خیال میں بھارتی خواتین کو وہ سہولت اور مواقع میسر ہیں جو ان کی صلاحیتوں کو بڑھانے میں معاون ہو سکتی ہیں؟
”پوری طرح تو نہیں پھر بھی کافی ہیں۔ دراصل مَیں اِس خیال سے متفق ہوں کہ ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے۔ مَیں ابھی انگریزی کی ایک کتاب پڑھ رہی تھی تو سوچ رہی تھی کہ ہماری زبانیں تک مردوں کے لیے بنی ہیں۔ یعنی کوئی بھی بات سمجھانی ہو تو ہمیشہ مذکر کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔ کبھی کسی لکھنے والے نے مو?نث کا صیغہ استعمال نہیں کیا، ہمیشہ “He” کی مثال دی جاتی ہے، کبھی کسی نے “She” کی مثال دے کر بات سمجھانے کی کوشش نہیں کی۔ لڑکیوں کو شروع ہی سے یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ مردوں سے کم تر ہیں۔ مَیں اپنی خواتین کو یہ بتانے کی کوشش کرتی ہوں کہ وہ کسی بھی طرح مردوں سے کم تر نہیں ہیں۔ مَیں چاہتی ہوں کہ کسی بھی مقام پر عورت کی مخالفت محض اِس لیے نہ کی جائے کہ وہ عورت ہے۔ ہمارے یہاں خواتین میں تعلیم کا اوسط اتنا تو نہیں ہے جتنا ہونا چاہیے پھر بھی بڑھ رہا ہے۔“
تعلیم پر بات چلی تو بھارت میں اردو کا مستقبل بھی زیر بحث آیا۔ اِس بارے میں مسز اندرا گاندھی نے کہا کہ ہم نے اردو کو پہلے بھی کافی اونچا درجہ دیا تھا۔ یہاں مسلمانوں کے علاوہ اتر پردیش اور راجستھان میں بھی اردو بولی جاتی ہے۔ ہم نے اردو کے فروغ کے لیے اردو اکیڈمیاں بھی بنائیں۔ جَنتا پارٹی کی حکومت نے اِس کام کو کچھ پیچھے دھکیل دیا تھا۔
مسز اندرا گاندھی نے اپنے روزمرہ کے معمولات کی تفصیل کچھ یوں بتائی:
”مَیں صبح عموماً ساڑھے پانچ بجے تک بیدار ہوتی ہوں، کچھ خاس خاص اخبارات پڑھتی ہوں۔ روزانہ رات کو کاغذات ختم کر کے سوتی ہوں لیکن صبح پھر ڈھیروں کاغذ جمع ہو جاتے ہیں، ا±نہیں دیکھتی ہوں۔ ناشتے کے بعد آٹھ بجے سے ایک گھنٹے کے لیے عام لوگوں سے ملاقات کرتی ہوں، ا±ن کے مسائل سنتی اور حل کرنے کی کوشش کرتی ہوں پھر دفتر آجاتی ہوں۔ سنیچر (ہفتہ) کو کہیں نہ کہیں دَورے پر جاتی ہوں۔ جہاں تک نیند کا تعلق ہے تو ایسی بھی کئی راتیں آئیں جب مَیں نے پلنگ نہیں دیکھا۔
آپ گھر کے کون کون سے کام کرتی ہیں؟
نہیں کوئی نہیں، بس سپروائز کرتی ہوں۔
کھانے میں کیا چیز شوق سے کھاتی ہیں؟
مجھے ہر قسم کے کھانے پسند ہیں۔ ویسے جس جگہ جاتی ہوں خواہش ہوتی ہے کہ وہیں کا مخصوص کھانا ملے۔
آپ کا پسندیدہ رنگ، خوشبو اور پھول کون ساہے؟
کوئی رنگ پسندیدہ نہیں، البتہ بعض رنگوں کے شیڈ اچھے لگتے ہیں۔ یہ بات ڈیزائن پر بھی منحصر ہے۔ مثلاً مجھے نیلا رنگ کوئی خاص پسند نہیں لیکن اِس وقت اتفاق سے نیلی ساری باندھ رکھی ہے۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ یہ شیڈ اور پرنٹ اچھا لگا۔ خوشبو یا پرفیوم کا استعمال بالکل نہیں کرتی۔ پھول سبھی اچھے لگتے ہیں خصوصاً پہاڑی پھول زیادہ پسند آتے ہیں۔
آپ کے پاس کبھی فرصت ہو تو اسے کس طرح گزارتی ہیں؟
ویسے تومَیں پڑھتی ہوں مگر فرصت کبھی نہیں ملتی، مطالعے کے لیے بھی خاص طور پر وقت نکالتی ہوں۔
کیا پڑھتی ہیں، میرا مطلب ہے کہ کن موضوعات کی کتابیں پڑھتی ہیں؟
مطالعے کے لیے موضوع کی کوئی قید نہیں، البتہ سماجی مسائل سے متعلق کتابیں زیادہ پڑھتی ہوں۔
خاندان کی تقریبات میں آپ کی حیثیت کیا ہوتی ہے؟ وہاں آپ کو کیا درجہ دیا جاتا ہے؟
مَیں ایسی تقریبات میں خود کو وزیراعظم نہیں سمجھتی اور یہ اچھی بات ہے کہ لوگ بھی اس وقت مجھے خاندان کی ایک عورت ہی سمجھتے ہیں۔
آپ کو کوئی کھیل کھیلنا پسند ہے؟
مجھے تیراکی اور گھڑ سواری بہت پسند ہے۔ مَیں اچھی تیراک اور گھڑ سوار بھی ہوں مگر اب برسوں سے ان دونوں کا موقع نہیں ملا۔ فلمیں دیکھنے کا بھی بہت شوق ہے لیکن مصروفیت یہاں بھی آڑے آتی ہے۔
گزشتہ دنوںجب مَیں لکھن?و میں تھی تو وہاں کے کسی اخبار میں ایک تصویر دیکھی تھی کہ کہیں سے خواتین کا ایک وفد آپ کو اقتدار کی کام یابی پر مبارک باد دینے آیا تھا تو آپ ا±س کے ساتھ رقص کر رہی تھیں۔ رقص بہرحال ہندی کلچر کا حصہ ہے، لیکن کیا آپ کو اب بھی اس کی پریکٹس کا وقت مل جاتا ہے؟
نہیں، مَیں پریکٹس بالکل نہیں کرتی۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے یہاں کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں کے لوگ اپنی خوشی کا اظہار رقص کے ذریعے کرتے ہیں۔ اگر ان کے ساتھ رقص نہ کیا جائے تو وہ اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اور یہ ایسے رقص ہیں جنہیں پریکٹس کے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے۔ پھر ہمارے یہاں ہر سال آزادی کے ہفتے میں لوک رقص کیے جاتے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم 62 سال کی عمر میں اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود انتہائی پرکشش شخصیت کی مالک ہیں۔ آخر مَیں نے ان سے وہ سوال بھی پوچھ ہی لیا جو بڑی دیر سے ہونٹوں پر مچل رہا تھا۔
آپ کے حسن اور صحت کا راز کیا ہے؟
مسز اندرا گاندھی بے ساختہ ہنس پڑیں۔ کمرے میںموجود سیکریٹری اور دونوں اسٹینو گرافرز بھی زیر ِ لب مسکرائے۔ وہ بولیں، ح±سن تو پتا نہیں، ہے بھی یا نہیں تو راز کیا بتا?ں؟ صحت کا البتہ یہ ہے کہ جو لوگ کام کرتے ہیں، اپنے کھانے اور ورزش کا خیال رکھتے ہیں، ان کی صحت ٹھیک ہی رہتی ہے۔کام سے بچنا نہیں چاہیے۔ مَیں سب کچھ کھاتی ہوں مگر اعتدال سے۔ تھوڑی بہت ورزش بھی کرتی ہوں، یہی میری صحت کا راز ہے۔
کبھی آپ نے سوچا کہ کاش! مَیں سیاست دان نہ ہوتی؟
پہلے تو کبھی نہیں مگر جب پچھلی مرتبہ انتخابات ہار گئی تھی تب سوچا تھا کہ اِس سے تو بہتر تھا کی سیاست میں نہ الجھتی، بلکہ اس وقت سیاست سے کنارہ کَش بھی ہونا چاہتی تھی۔ سوچتی تھی، اب بھی وقت ہے کہ اِس جنجال کو ختم کر دوں، لیکن لوگوں نے مجھ پر اتنے حملے کیے اور ایسے ایسے الزامات لگائے کہ ان کا جواب دینے کی خاطر سیاست میں رہنا بہت ضروری ہو گیا۔ مَیں نے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کے جواب دینے کی خاطر ہی دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی۔
کسی سیاست دان سے متاثر ہیں؟
یہ کہنا مشکل ہے کیوں کہ مَیں جس بھی سیاست دان سے ملتی ہوں اس سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔
دینا میں امن و سلامتی برقرار رکھنے کے لیے خواتین کیا کر سکتی ہیں؟
بہت کچھ کر سکتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو امن سے رہنے کی تعلیم و تربیت دے سکتی ہیں کیوں کہ لڑائیوں میں ا±نہی کے بچے مارے جاتے ہیں۔
پاکستان کی خواتین کے کوئی پیغام؟
میری بہترین خواہشات اور دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ دونوں ممالک کی خواتین کے مسائل ملتے جلتے ہیں اور تہذیب میں بھی بہت یکسانیت ہے۔ ہمیں دوستی اور اچھے تعلقات کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہیے۔ یہی میرا پیغام ہے۔
مسز اندرا گاندھی نے انٹرویو کے لیے مجھے صرف تیس منٹ کا وقت دیا تھا اور اب دس منٹ زائد ہو چکے تھے۔ اِس دوران میں ان کے سیکریٹری مجھے بار بار انٹرویو ختم کرنے کے لیے اشارے کر رہے تھے لیکن جب مَیں کہتی کہ صرف دو تین سوال اور تو مسز اندرا گاندھی مسکراتے ہوئے اجازت دے دیتیں۔ بلکہ ایک مرتبہ تو اپنے اسٹاف سے کہا، ”کوئی بات نہیں، اتنی لائٹ گفتگو میں مجھے بھی مزہ آ رہا ہے۔“
مَیں نے خدا حافظ کہتے ہوئے دس منٹ زائد دینے پر بطور خاصشکریہ ادا کیا تو مسکراتے ہوئے بولیں، ”اور تو کوئی بات نہیں، چار بجے ایک امریکی کو ٹائم دیا تھا، وہ دس منٹ لیٹ ہو گیا۔“
مَیں ان کے آفس سے نکلی تو وہ امریکی کاریڈور میں ٹہل رہا تھا۔ اسے دیکھ کے مَیں نے ایک خاص خوشی اور طمانیت محسوس کی کہ ایک پاکستانی صحافی نے امریکی آفیسر کو دس منٹ انتظار کروایا۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.