سلیم آذر کی دو منفرد نظمیں، پہلی نظم ” نہیں ” انکار ایک اور اقرارکا سفر ہے

سلیم آذر کی دو منفرد نظمیں، پہلی نظم ” نہیں ” انکار ایک اور اقرارکا سفر ہے
دوسری نظم ” چپ ” ایک طاقت ور آواز

پہلی نظم

“نہیں “

وہ ایک لفظ جو تیرے منہ سے نکلا
میرے دراز دست سوال کے جواب میں
اس لفظ سے مٹ گئے سارے
سوال میرے ، جواب تیرے
بکھر گئیں امیدیں اور خواب سارے
”نہیں“ کہا تھا تونے جواب میں
کسی اور ”ہاں“ کے خیال میں
کہ انکار بھی تو
ایک اور اقرارکا سفر ہے

 ”نہیں“ کہا تھا تونے جواب میں کسی اور ”ہاں“ کے خیال میں کہ انکار بھی تو ایک اور اقرارکا سفر ہے

نہیں“ کہا تھا تونے جواب میں
کسی اور ”ہاں“ کے خیال میں
کہ انکار بھی تو
ایک اور اقرارکا سفر ہے

جواب تیرا
اثبات میرے
اقرار اپنے
شناخت کے رنگ سارے
بدل گیا ہے
یہ لفظ ”نہیں“
ذات پر میری
چسپاں ہوگیا ہے
مجھ کو نفی کرگیا ہے
اب میں بس ”نہیں“ ہوں

دوسری نظم

چپ

نہ ختم ہونے والی چپ تو موت ہے
اب میں کچھ کہنا نہیں چاہتا
نہ کہنا بھی چپ رہنا ہے
اور چپ رہنا تو موت ہے
زندگی بولتے رہنا ہے
لیکن میں کچھ کہنا نہیں چاہتا
سننا چاہتا ہوں
جھوٹ بولنے سے جھوٹ سننا بہتر ہے

 نہ ختم ہونے والی چپ تو موت ہے اب میں کچھ کہنا نہیں چاہتا

نہ ختم ہونے والی چپ تو موت ہے
اب میں کچھ کہنا نہیں چاہتا

میں سننا چاہتا ہوں
مکر وریا سے عاری
ایک سچی آواز
محبت کی چاشنی سے بھری
یا تلخ لہجے میں بسی
دکھ سے بھری
انسان کی آواز
اس سے پہلے کہ
میرے سارے قول
غور وفکر
اور میرے اظہار
جھوٹ کے سناٹے سے ٹکرا کر پلٹ آئیں
اور مکر کا حصہ بن جائیں
میں سننا چاہتا ہوں
ایک آواز 
٭٭٭

محبت کی چاشنی سے بھری یا تلخ لہجے میں بسی دکھ سے بھری انسان کی آواز

محبت کی چاشنی سے بھری
یا تلخ لہجے میں بسی
دکھ سے بھری
انسان کی آواز

Facebook Comments

POST A COMMENT.