آئرن لیڈی شمع خالد کی اچانک رحلت پر بیٹوں عزیز واقارب ساتھیوں اور کولیگز کے تاثرات

آئرن لیڈی شمع خالد افسانہ نگار، براڈ کاسٹر ،معلمہ انتہائی تعلیم یافتہ، شائستہ، نفیس اور شفیق ہستی تھیں، ماں کے پیار کی مٹھاس ان کی شخصیت کا حصہ تھی
ہم درد و غم گسار ہونے کے باوجود علمی و ادبی حلقوں، عزیزوں اور احباب میں وہ ” آئرن لیڈی“ کے نام سے مشہور تھیں
انھوں نے بیماریوں کو کبھی اپنے کام اور ذمے داریوں پر حاوی نہیں ہونے دیا، ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی
مرحومہ کے صاحبزادوں عامر نصیر ، بریگیڈیئر فیصل نصیر اورفراز خالد ، ،معروف افسانہ نگار علی تنہا ، ریڈیو پاکستان کے شریف شاد، طارق ایوب، کنیز فاطمہ، فیاض کیانی،عبد الحفیظ ، فخر عباس کے تاثرات، دکھ اور افسوس کا اظہار

شخصیات ویب نیوز
جمعہ 11 شعبان 1442ھ 26 مارچ 2021ء

معروف افسانہ نگار، مختصر کہانی نویس، سابق ڈپٹی کنٹرولر ریڈیوپاکستان، فاطمہ جناح یونیورسٹی کی لیکچرر محترمہ شمع خالد منگل 9 مارچ 2021 کو خالق حقیقی سے جاملیں، 9 مارچ کی صبح انہیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا، آئرن لیڈی شمع خالد  کی رحلت

شمع خالد کو ریڈیو سے عشق تھا، لافانی محبت تھی، انہوں نے اپنی زندگی کابڑا حصہ ریڈیو کو دیا ، وہ ریڈیو پاکستان کو اون کرتی تھی

شمع خالد کو ریڈیو سے عشق تھا، لافانی محبت تھی، انہوں نے اپنی زندگی کابڑا حصہ ریڈیو کو دیا ، وہ ریڈیو پاکستان کو اون کرتی تھی

کی خبر نے ادبی اور علمی حلقوں کو سوگوار کردیا۔ محترمہ شمع خالد صرف ادبی وعلمی حلقوں، عزیزوں اور رشتے داروں کی ہر دلعزیز ہستی نہیں تھیں بلکہ ہر وہ شخص ان کے انتقال سے افسردہ اور غمزدہ ہوا جس سے شمع خالد کا محض غائبانہ تعارف ہی تھا۔ماں کے پیار کی مٹھاس شاید ان کی شخصیت کا وہ حصہ تھی جو ہر کوئی محسوس کرسکتا تھا ، اس کے باوجود وہ حلقہ احباب ہو یا علمی و ادبی حلقے، ان میں وہ ” آئرن لیڈی“ کے نام سے جانی جاتی تھیں کیونکہ مختلف بیماریوں سے نبرد آزمااس خاتون نے کبھی بیماریوں کو اپنے کام اور ذمے داریوں پر حاوی نہیں آنے دیا۔
آئرن لیڈی شمع خالد انتہائی تعلیم یافتہ خاتون، بے حد منکسر المزاج اور دوستانہ طبیعت کی مالک تھیں،انھوںنے مختلف مضامین میں ماسٹرز کی تین ڈگریاں حاصل کیں اور ایل ایل بی کرکے قانون پر بھی دسترس حاصل کی، آئرن لیڈی شمع خالد نے 8 کتابیں لکھیں جن میں ایک سفرنامہ بھی شامل ہے۔

 شمع خالد ہر دلعزیز شخصیت تھیں ان کے انتقال سے وہ بھی افسردہ اور غمزدہ ہوا جس سے شمع خالد کا محض غائبانہ تعارف تھا

شمع خالد ہر دلعزیز شخصیت تھیں ان کے انتقال سے وہ بھی افسردہ اور غمزدہ ہوا جس سے شمع خالد کا محض غائبانہ تعارف تھا

ان کا طرز تحریر اتنا پراثر تھا کہ ان کی کتابوں کے قارئین ان کی ہر تحریر کے منتظر رہتے تھے ، انھیں روزانہ کے چھوٹے چھوٹے معاملات کو ضبط قلم کرنے کا خصوصی شوق تھا، انھوں نے صرف علم وادب پر ہی اپنی توجہ مرکوز نہیں رکھی بلکہ علم وادب کو اپنے بچوں میں بھی منتقل کیا جس کی بدولت آج ان کے تمام بچے نہایت تعلیم یافتہ اور اعلی عہدوں پر فائز ہیں ۔
انتقال سے قبل اپنے ایک انٹرویو میں آئرن لیڈی شمع خالد نے بتایا کہ میں نے جب ریڈیو پاکستان چھوڑا تو اس کے چھ ماہ بعد ہی میرے رفیق حیات سفرادھورا چھوڑ کر خالق حقیقی سے جاملے ، میں انتہائی ڈپریشن میں چلی گئی ۔ اس دوران مجھے فاطمہ جناح یونیورسٹی سے فون آیا ، پوچھا ، شمع کیا کررہی ہو؟ میں جو کررہی تھی انہیں بتادیا کہ میں سوتی ہوں ، کھانا کھاتی ہوں پھر سو جاتی ہوں تو دوسری طرف سے محبت بھری سرزنش کرتے ہوئے کہا گیا، یہ کیا کررہی ہو! کیوں اپنے آپ کو ضائع کررہی ہو ،چلو آکر اپنا ریڈیو سنبھالو۔ یہ میر ی ہمدرد اور غمگسار ثمین زیدی کا فون تھا ۔ بہرحال ان کی محبت کا جواب محبت سے دیا اور ریڈیو سے دوبارہ ناتہ جوڑ لیا۔ ان دنوں میں ہم مینول پر کام کرنے والے لوگ تھے۔ ہمارے پاس بڑی بڑی ریکارڈنگ مشینیں تھیں جن پر کام کرنا پڑتا تھا ۔ایک دم کمپیوٹر نے آکر پوری لائف ہی تبدیل کردی ۔ بہرحال ہار ماننا تو سیکھا نہیں تھا لہٰذا اس چیلنج کو بھی قبول کیا۔ جہاں تک افسانہ نگاری کا تعلق ہے تو میں افسانے اس وقت سے لکھ رہی ہوں جب مجھے افسانے کیا ہوتے ہیں، پتہ بھی نہیں تھا۔ ساتویں جماعت سے میں افسانے لکھ رہی ہوں باقاعدگی سے ،

انھوں نے بیماریوں کو کبھی اپنے کام اور ذمے داریوں پر حاوی نہیں ہونے دیا، ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی

انھوں نے بیماریوں کو کبھی اپنے کام اور ذمے داریوں پر حاوی نہیں ہونے دیا، ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی

قیام پاکستان کے وقت میں چھوٹی تھی ، جب امی کسی کام سے کہیں چلی جاتیں تو میں محلے کی لڑکیوں کو اکٹھا کرتی تھی۔ پھر کہتی تھی کہ سارا گھر صاف کرو۔۔۔ گھر صاف کرکے اور کھانا بنا کر پھر ہم کہتے تھے کہ اب ڈرامہ کریں گے ۔پہلے میں ڈرامہ سوچتی تھی، پھر میں اسی طرح کی ایکٹنگ کرتی تھی۔۔یوں میںاور میری ساری دوست بہت انجوائے کرتی تھیں۔
مرحومہ شمع خالد کے سب سے بڑے صاحبزادے عامر نصیر نے اپنی والدہ کے بارے میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میری والدہ نے بڑی پھر پور زندگی گزاری۔ انھوں نے بطور ادیبہ، ایک براڈ کاسٹر، معلمہ اور بطور ماں ،ہر کردار بہ خوبی نبھایا اور ہر کردار کے ساتھ بھرپورانصاف کیا۔ اگرچہ ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ بیماریوں سے لڑتے اور جنگ کرتے گزرا مگر اس کا اثر انھوں نے اپنی اولاد یا اپنے گھر پر نہیں ہونے دیا اور جب وہ دنیا سے رخصت ہوئیں تو بھی ان کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ تھی۔ ہماری والدہ ایک انسان دوست ،ہمدر اور شفیق انسان تھیں۔ انتقال سے 24 گھنٹے قبل انہوں نے اپنی آخری تحریر بھی پوسٹ کرائی، جس کے بارے میں انہوں نے مجھے اور گھر میں کام کرنے والوں کو بتایا کہ میں نے آخری تحریر لکھ دی ہے۔

آئرن لیڈی شمع خالد نے کرونا کو بھی شکست دی، وہ اتنی بلند حوصلہ تھیں کہ کرونا کے دوران بھی تحریر اور ادب سے اپنا ناتہ نہیں ٹوٹنے دیا

آئرن لیڈی شمع خالد نے کرونا کو بھی شکست دی، وہ اتنی بلند حوصلہ تھیں کہ کرونا کے دوران بھی تحریر اور ادب سے اپنا ناتہ نہیں ٹوٹنے دیا

مرحومہ شمع خالد کے چھوٹے بیٹے فراز خالد نے بتایا کہ میرا اور ان کا تعلق ماں بیٹے سے زیادہ دوستوں والا تھا ، ہم ہمیشہ دوستوں کی طرح رہے ، میں اپنے لیے یہ اعزاز سمجھتا ہوں کہ انہوں نے میرے بچپن سے لے کر آخری وقت تک مجھے اپنی تمام ادبی اور علمی مصروفیات میں اپنے ساتھ رکھا۔ان کا انتقال میرے لیے تو بڑا ہی تکلیف دہ موقع ہے۔ مجھ سے میری سب سے شفیق، ہمدرد، مددگار اور پیاری دوست چھن گئیں ، میں انتہائی دکھ، غم اور ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ ان کی وفات کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔
جو ان سے ایک مرتبہ ملتا ان کا گرویدہ ہوجاتا ،وہ تھی ہی اتنی محبت کرنے والی اور وہ بھی ان کی شفقت اور مادرانہ محبت محسوس کرتے تھے جن سے ان کا غائبانہ تعلق تھا۔ وہ بہت محبت کرنے والی اور اپنے ارد گرد والوں کے لیے بہت بڑا اثاثہ تھیں۔۔اللہ انہیں غریق رحمت کرئے آمین
شمع خالد ایک ممتاز براڈ کاسٹر تھیں۔ ان کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے معروف افسانہ نگار علی تنہا نے کہا کہ شمع خالد سے میری ملاقات 2004 میں راولپنڈی میں ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ شمع خالد کا پہلا مجموعہ ”پتھریلے چہرے “ تھا ، پھر” گیان کا لمحہ “اور ”گمشدہ لمحوں کی تلاش “ اور پھر یہ سلسلہ رکا نہیں ۔ کہانیوں میں انہوں نے جو انداز اختیار کیا وہ اپنی نوعیت کا منفرد انداز تھا جس میں انہیں خاص مہارت حاصل تھی ۔۔۔ اور پھر کردار نگاری میں ان کا جواب نہیں تھا ، اس کے ساتھ ساتھ طویل افسانے لکھنے میں شمع خالد نے اپنی زندگی بیشتر حصہ صرف کیا۔ شمع خالد وہ شخصیت تھیں جو یاد رکھے جانے لوگوں میں شامل رہیں گی۔

ہمارے پاس ان کی لکھی ہوئی کتابیں ہی رہ گئی ہیں جو ہمارے لیے بہت قیمتی اثاثہ ہے ، ان کی کتابوں سے ہمیں ان کی خوشبوآتی ہے، صاحبزادوں کے تاثرات

ہمارے پاس ان کی لکھی ہوئی کتابیں ہی رہ گئی ہیں جو ہمارے لیے بہت قیمتی اثاثہ ہے ، ان کی کتابوں سے ہمیں ان کی خوشبوآتی ہے، صاحبزادوں کے تاثرات

سابق ڈائریکٹر پروگرام ریڈیو پاکستان شریف شاد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہماری بہت ہی دیرینہ ساتھی شمع خالد اس دنیا سے چلی گئیں ۔ ان سے ہمارا تعارف اس وقت ہوا جب وہ پروڈیوسر کے طور پر ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں آئیں، جونیئر ہونے کے باوجود پروگرامز کے اتنے اچھے آئیڈیا زدیا کرتے تھیں کہ سینئرز دانتوں میں انگلیاں داب لیا کرتے تھے خصوصاً خواتین کے پروگرامز کی وہ اسپیشلسٹ تھیں۔ خواتین کے پروگرامز کے شیڈول بناتے ہوئے وہ خواتین کے مسائل کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ وہ خواتین کے مسائل کے بارے میں بہت معلومات رکھتی تھیں اور خواتین کے بہت چھوٹے چھوٹے مسائل کو بھی نظر انداز نہیں کرتی تھیں۔
وہ بہت اچھی افسانہ نگار تھیں، بیماری کے باوجود متحرک اور چاق چوبند تھیں۔ ان کے جاننے والے کہتے کہ ایسی باہمت خاتون بہت کم دیکھی ہیں، اسی لیے انھوں شمع خالد کو آئرن لیڈی کا خطاب دیا تھا ۔ ان کا ہمت وحوصلہ قابل مثال تھا۔ سابق ڈپٹی کنٹرولر پروگرام طارق ایوب کا شمع خالد کی فنی اور پیشہ ورانہ زندگی کے حوالے سے کہنا ہے کہ شمع خالد میری ریڈیو پاکستان کی ساتھی تھیں،ان سے روزانہ ملاقات ہوتی تھی۔ ان کا نہ صرف لکھنے اور افسانہ نگاری میں بہت بڑا مقام تھا بلکہ وہ اعلیٰ پائے کی براڈکاسٹر بھی تھیں ۔ وہ خواتین اور بچوں کے پروگرامز میں خاص دلچسپی لیتی تھیں اور بڑی جانفشانی سے ان پروگرامز کا انعقاد کرتی تھیں۔ وہ بہت ہی نفیس خاتون تھیں۔۔ ان کے ساتھ گزرا ہوا وقت بہت قیمتی تھا ، ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ۔ پروڈکشن اور پروگرام کے لحاظ سے شمع خالد کی آواز زبردست تھی۔ اگر کمپیئر اور اناﺅنسر نہیں آتے تھے تو وہ خود مائیک سنبھال کر ایسا پروگرام کرتیں کہ کمپیئر یا اناﺅنسر کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
سابق اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان راولپنڈی کنیز فاطمہ کہتی ہیں کہ جب میں نے ریڈیو پاکستان جوائن کیا تھا تو سب سے پہلے جو خاتون مجھ سے ملنے آئیں تو وہ شمع خالد تھیں۔ جس دن میں نے جوائن کیا تو میرے کمرے کا دروازہ کھلا اور شمع خالد نمودار ہوئیں ، انہوں نے کہا کہ میں آپ کو دیکھنے آئی ہوںکیونکہ یہاں میں صرف اکیلی پروڈیوسر تھی ، اب آپ میرے پاس آئی ہیں تو مجھے حوصلہ ملا ہے کیونکہ اس وقت خواتین پروڈکشن کے شعبے میں کم تھیں۔شمع خالد کی رحلت سے مجھے بہت شدید صدمہ ہوا ہے کیونکہ ان کے ساتھ میرا ایک بہت پرانا اور محبت بھرا تعلق تھا۔ خواتین کے پروگرام کرنا میں نے ان ہی سے سیکھا۔ اس کے بعد پروگرام منیجر رہی ۔ وہ کسی کو بھی سکھانے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتی تھیں ۔ استاد تھیں تو علم منتقل کرنے میں ہمیشہ آگے آگے ہوتی تھیں۔ ان کے ساتھ میرا 35 سال کا ساتھ تھا۔ جو محبت ، خلوص اور دوستانہ لب لہجہ ا ن کا تھا وہ لفظوں میں بیان نہیں کرسکتی، شدت غم سے نڈھال کنیز فاطمہ دوران گفتگو بڑی مشکل سے اپنے جذبات پر قابو پارہی تھیں۔ خدا ان کو جنت الفردوس میں اعلی جگہ عطا فرمائے ۔ آمین

اپنے ریڈیو پروگرامز کے اسکرپٹ وہ خود لکھا کرتی تھیں اس کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کی ایک کھیپ کو بھی انہوں نے اپنے پروگرامز میں متعارف کروایا

اپنے ریڈیو پروگرامز کے اسکرپٹ وہ خود لکھا کرتی تھیں اس کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کی ایک کھیپ کو بھی انہوں نے اپنے پروگرامز میں متعارف کروایا

معروف براد کاسٹر اور سابق کنٹرولر پروگرام فیاض کیانی نے شمع خالد کی خدمات کے حوالے سے کہا کہ ان کے بچھڑنے کا بہت افسوس ہے۔ شمع خالد ہماری بہت اچھی کولیگ تھیں ، وہ بہت ہی شائستہ ،، تمیز دار اور بہت ہی رکھ رکھاو والی خاتون تھیں۔انہوں نے بالخصوص افسانہ نگاری کے شعبے میں بہت کام کیا۔۔۔ ان کامختصر کہانی نویسی میں بھی بڑا نام تھا ،۔ وہ ادب شناس تھیں لہٰذا بلاتفریق عمر اور تجربہ قابل افراد کا بڑا ادب اور احترام کرتی تھیں، وہ لکھنے کا کام ہو یا تدریس کا یا براڈکاسٹ کا ہر کام ہمیشہ دلجمعی کے ساتھ انجام دیا کرتی تھیں۔ جانے والے چلے جایا کرتے ہیں لیکن ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔ جہاں ریڈیو پاکستان کے سامعین ان کی کمی کو محسوس کریں گے وہیں یقینا ان کے رفقا کار اور عزیزواقارب بھی ان کی کمی محسوس کریں گے۔ریڈیو پاکستان سے جڑی ان کی جویادیں ہیں وہ دل و دماغ سے کبھی فراموش نہیں ہوں گی ۔
معروف ادبی شخصیت اور سابق کنٹرولر پروگرام عبد الحفیظ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تبارک وتعالی شمع آپا کی مغفرت فرمائے۔ 1980 کی دہائی میں ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں شمع خالد کے ساتھ کام کیا۔ وہ بہت اچھی ڈرامہ نویس، ۔بڑی محبت کرنے والی اور بڑی پروفیشنل تھی۔نئے آنے والوں کی انہوں نے ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ وہ ریڈیو پاکستان کے لیے اثاثہ تھیں۔ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے ۔
ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے اسٹیشن ڈائریکٹر فخر عباس ،شمع خالد کی وفات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی وفات میرے لیے ذاتی دکھ اور ذاتی نقصان ہے اوراہل قلم کا، نشریاتی دنیا کا بہت بڑا نقصان ہے ،ان کے اہل خانہ کا ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ شمع خالد سے میری شناسائی گزشتہ تین دہائیوں سے تھی۔ راولپنڈی میں ہم نے اکٹھے کام کیا۔۔ وہ سینئر پروڈیوسر تھیں اور میں پروڈیوسر تھا۔ بعد میں وہ پروگرام منیجر ہوگئیںلیکن ان کا جو میرے ساتھ تعلق تھا وہ ایک نشریاتی ادارے کے کولیگ ہونے کے ناتے بھی تھا اور اور لکھنے لکھانے کے حوالے سے بھی، جب بھی وہ کوئی نیا افسانہ لکھتیں میں بڑے ذوق شوق سے سنتا اور وہ بھی مجھے نیا افسانہ اتنی ہی دلچسپی سے سناتی تھیں۔ ان کی عام گفتگو بھی ادبی ہوتی تھی جس میں سننے والے کو سیکھنے کے خوب خوب مواقع ملتے تھے۔ وہ ہمیشہ اس جستجو میں ہوتیں کہ کس طرح ادبی پروگراموں کو بہتر سے بہتر کیا جائے ۔ وہ مطالعے کی بھی بے حد شوقین تھیں۔وہ حقیقت پسندی سے افسانہ نگاری کرتی تھی۔ جس میں معاشرتی کرب کی ترجمانی کی جاتی تھی خصوصا ً خواتین کے مسائل کو وہ بڑی خوبصورتی سے اجاگر کرتی تھیں ، یہی نہیں ان کے اندر ایک مصور بھی چھپا ہوا تھا۔ فطرت سے انہیں بہت عشق تھا۔ اور ان کی تحریروں کے اندر جو منظر نگاری ہے قدرت سے، فطرت سے عشق کرنے والا ہی ایسی منظر نگاری کرسکتا ہے۔ اپنے پروگرامز کے اسکرپٹ وہ خود لکھا کرتی تھیں اس کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کی ایک کھیپ کو بھی انہوں نے اپنے پروگرامز میں متعارف کروایا ۔ ان کی یادیں بہت ہیں، ذاتی زندگی میں وہ ایک ہنس مکھ خاتون تھیں اور ہر ملنے والے کو اپنا گرویدہ بنا لیا کرتی تھیں ، کبھی انہیں کسی کی شکایت کرتے نہیں سنا، نہ کبھی ایسی بات کرتے سنا جس سے کسی کی دل شکنی ہوں۔۔ وہ سراپا محبت تھیں۔ آج ان کا رخصت ہوجانا۔۔۔ ہمارے لیے ایک بہت بڑا سانحہ ہے ۔
ریڈیو پاکستان کی ڈائریکٹر پروگرام محترمہ خالدہ نزہت نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہی افسوس ناک خبر تھی کہ شمع خالد ہم میں نہیں رہیں۔،وہ بہت ہی شفیق ، ہمدرد اور محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ ان کے چہرے پر ہر وقت ماں جیسی مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔ وہ نہایت شفقت سے پیش آتی تھیں۔ وہ بہت بڑی رائٹر تھیں، وہ پودوں سے پھولوں سے بہت محبت کرتی تھیں۔۔ ان کے بارے میں کیا کہوں۔ بہت دکھ کی کیفیت میں ہوں ۔ شمع خالد کے ایک اور صاحبزادے بریگیڈیئر فیصل نصیر نے انتہائی دکھ کے ساتھ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میری والدہ ایک شاندار شخصیت کی مالک تھیں جس سے ایک مرتبہ رشتہ جوڑ لیا تو وہ رشتہ ساری زندگی نبھایا ،اس میں وہ عمر اور مرتبے کی تفریق نہیں رکھتی تھیں ہمارے پاس ان کی کتابیں رہ گئی ہیں جو انہوں نے لکھی ہیں جو ہمارے لیے بہت قیمتی اثاثہ ہے کیونکہ ان کی کتابوں سے ان کی خوشبوآتی ہے۔ ان کی کتابوں کے ایک ایک الفاظ سے شفقت ٹپکتی محسوس ہوتی ہے ، وہ آئرن لیڈی تھیں۔۔۔ انہوں نے کرونا کو بھی شکست دی تھی ، اتنی بلند حوصلہ خاتون تھیں کہ کرونا کے دوران بھی تحریر اور ادب سے اپنا رشتہ نہیں ٹوٹنے دیا ، میں آج جو کچھ بھی ہوں ان کی وجہ سے ہوں ، ان کو ریڈیو سے عشق تھا ، لافانی محبت تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی کابڑا حصہ ریڈیو کو دیا ، وہ ریڈیو پاکستان کو اون کرتی تھی اور اس جدید دور میں جب ہر شخص ٹی وی اور سوشل میڈیا کی بات کرتا ہے وہ ہر جگہ ریڈیو کے لیے بات کرتی تھیں اور ہر جگہ فخر سے بتاتی تھیں کہ میرا تعلق ریڈیو سے ہیں۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.