شمع خالد ، اردو کی ممتاز ناول و افسانہ نگار طویل علالت کے بعد انتقال کرگئیں

شمع خالد ، اردو کی ممتاز ناول و افسانہ نگار طویل علالت کے بعد انتقال کرگئیں
شمع خالد ،ریڈیو پاکستان کی ریٹائرڈ ڈ ڈپٹی کنٹرولر اور فاطمہ جناح یونیورسٹی سے بطور لیکچرروابستہ تھیں شمع خالد کے فن پر اب تک 8 تھیسز اور ایک بار ایم فِل ہوچکا ہے، وہ منگل کو دل کا دورہ پڑنے سے چل بسیں،ان کی عمر 74 برس تھی

شخصیات ویب نیوز
رپورٹ: شخصیات ویب ڈیسک

شمع خالد ، اردو ا کی ممتاز ناول و افسانہ نگار طویل علالت کے بعد انتقال کرگئیں
شمع خالد ،ریڈیو پاکستان کی ریٹائرڈ ڈ ڈپٹی کنٹرولر اور فاطمہ جناح یونیورسٹی سے بطور لیکچرروابستہ تھیں
مشہور ناول نگار شمع خالد مختلف میگزینزمیں تحریری کوآرڈینیٹر تھیں۔ انھوں نے 1969 میں ریڈیو پاکستان میں بہ حیثیت اسکرپٹ رائٹر شمولیت اختیار کی۔ ان کی نماز جنازہ بدھ (10 مارچ) کو شام 5 بجے آرمی قبرستان، ریس کورس ، راولپنڈی کنٹونمنٹ میں ادا کی گئی۔ شمع خالد کا سوئم ان کی رہائش گاہ ، ہاؤس نمبر 400/17-C ، لین 7 ، پشاور روڈ ، راولپنڈی کنٹونمنٹ میں 11 مارچ شام 5: 15 بجے ہوگا۔

شمع خالد ،ریڈیو پاکستان کی ریٹائرڈ ڈ ڈپٹی کنٹرولرمقامی یونیورسٹی میں لیکچراور مختلف میگزینزسے بطور تحریری کوآرڈینیٹروابستہ تھیں

شمع خالد ،ریڈیو پاکستان کی ریٹائرڈ ڈ ڈپٹی کنٹرولرمقامی یونیورسٹی میں لیکچراور مختلف میگزینزسے بطور تحریری کوآرڈینیٹروابستہ تھیں

شمع خالد ، راول پنڈی سے تعلق رکھتی ہیں، انھوں نے قلم سے اپنا رشتہ اس وقت جوڑا تھا، جب بچے کھلونوں اور گڑیوں سے کھیل کر اپنا دل خوش کرتے ہیں
شمع خالدنے ساری زندگی قلم کی آبیاری میں گزاری، پتھریلے چہرے 1985، گیان کا لمحہ 1990، بے چہرہ شناسائی 1995،گمشدہ لمحوں کی تلاش 2003 اور بند ہونٹوں پہ دھری کہانیاں نے 2007 میں شائع ہوکر مقبولیت حاصل کی
اردو ادب کی ممتاز افسانہ نگار شمع خالد طویل علالت کے بعد د ±نیا چھوڑ گئیں۔ ا ±ن کے افسانوں میں زندگی کی شمع ہر رنگ میں جلتی تھی۔
خوب صورت ذہن اور مثبت سوچ، زندگی کی تلخ حقیقتوں کو سمجھنے میں آسانی پیدا کردیتی ہے۔کسی بھی فن سے کئی دہائیوں تک وابستہ رہنا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔
راول پنڈی سے تعلق رکھنے والی شمع خالد نے اپنا قلم سے رشتہ اس وقت جوڑا تھا، جب بچے کھلونوں اور گڑیوں سے کھیل پر اپنا دل خوش کرتے ہیں۔انہوں نے زندگی کی جنگ قلم سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔
وہ اس جنگ میں ہار جیت کی پروا کیے بغیر آگے بڑھتی رہیں، انہیں شہرت اور کام یابی کا کبھی لالچ نہیں رہا۔وہ لکھتی رہیں اورآگے بڑھتی رہیں۔اس تخلیقی سفر میں اپنے پڑھنے والوں کو کتابوں کے تحائف دیتی رہیں۔
شمع خالد نے ساری زندگی قلم کی آبیاری میں گزاری، پتھریلے چہرے 1985، گیان کا لمحہ 1990، بے چہرہ شناسائی 1995،گمشدہ لمحوں کی تلاش 2003 اور بند ہونٹوں پہ دھری کہانیاں نے 2007 میں شائع ہوکر مقبولیت حاصل کی۔
ان کے فن پر اب تک 8 تھیسز اور ایک بار ایم فِل ہوچکا ہے۔ وہ کہتی تھیں کہ ابھی تک میں نے دو سو کے لگ بھگ افسانے لکھے ہیں۔ میں اکثر اپنے آپ سے سوال کرتی ہوں کہ میں نے افسانے کیوں لکھے اور دل سے جواب آتا ہے کہ اس کے علاوہ اور کیا کرتی۔
اردو دنیا کے ممتاز افسانہ نگار اور ادیب احمد ندیم قاسمی نے تقریباً 40برس قبل شمع خالد کے پہلے افسانوی مجموعے ”پتھریلے چہرے“کی اشاعت کے موقع پر لکھا تھا کہ ” شمع خالد کے افسانے حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں اور وہ یہ افسانے حقیقت پسندانہ انداز میں یوں لکھتی ہیں کہ فن کے تقاضے بھی پورے ہوتے ہیں اور معاشرے کے بارے میں بعض ڈھکی چھپی سچائیوں کے انکشاف کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ کہانی سنانے یا لکھنے کا یہی وہ خوبصورت انداز ہے جو چیخوف،موپساں،منٹو اور بیدی سے ہوتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے۔

 شمع خالد کے فن پر اب تک 8 تھیسز اور ایک بار ایم فِل ہوچکا ہے

شمع خالد کے فن پر اب تک 8 تھیسز اور ایک بار ایم فِل ہوچکا ہے

احمد ندیم قاسمی کا کہنا تھا کہ شمع جانتی ہیں کہ کسی بھی صنف کے امکانات ختم نہیں ہوسکتے اور اس لیے حقیقت پسندانہ کہانیوں کے امکانات آج بھی بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ شمع کے مطالعہ ومشاہدہ کی کوئی حد مقرر نہیں۔ ہر وہ واقعہ یا کردار جو ان کے تجربے میں آتا ہے۔ ایک گھٹی ہوئی کہانی کی صورت میں انتہائی سادگی اور قرینے سے اظہار پاتا ہے۔
شمع بات چیت کے انداز میں کہانی سناتی ہیں۔ اس لیے نہ کہیں فن کی نمائش ہے اور نہ وہ کسی واقعے کی انفرادیت یا کسی کردار کی پوری پوری ترجمانی یا اتراہٹ کا اظہار کرتی ہیں۔وہ سچی اور کھری کہانی کار ہیں اور اس لیے ان کے بارے میں اعتماد کے ساتھ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ اگر انہوں نے فنی ریاضت جاری رکھی تو ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے ان کا مستقبل تابناک ہوگا۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.