احمد صغیر صدیقی بہت ہی پیارا دوست جس کا مَرنا اچانک ہی تھا

 احمد صغیر صدیقی کے لیے ایک نظم  اور ایک تازہ نظم

احمد صغیر صدیقی بہت ہی پیارا دوست جس کا مَرنا بہت ہی اچانک تھا

کاوش عباسی

نظم

وہ اَچھّا تھا
پیارا تھا
مِیٹھا بھی کڑوا بھی تھا
کڑوا لگتا بھی تھا

رَوشنی کی کِرَن بھی تھی
وہ صاف بھی تھا
مگر اُس میں
اِک تنگ چھوٹی عِمارت میں
پَھیلی کدورت کی
کوئی گُھٹن بھی تھی

نامور شاعر، بہترین نثر نگارعلم عروص کے ماہر کاوش عباسی

نامور شاعر، بہترین نثر نگارعلم عروص کے ماہر کاوش عباسی

اَندر
مُحبّت کے دریا کا پانی بھی تھا
لیکن اُس میں مِلا
ٹُوٹے دِل کے شگافوں سے آتا ہوا
نا مُحبّت کا زہرِیلا پانی بھی تھا

دُور کی اِک چمَک بھی تھی
لیکن زیادہ تو
روزانہ کی دُھوپ چھاؤں کی
اُس میں لَٹَک ہی تھی

اَور وہ یہی تھا
اِسی میں وہ خوش تھا
یہ آمیزہ اُس کا کھٹَکتا بھی تھا
اَچھا لگتا بھی تھا

برسوں گُزرے ، یہ دِل چاہتا ہے
وہ کاش آج بھی گھر میں ہوتا ، بُلاتا
ہمیں
اَور ہم دُور سے جاتے
کھانا کھِلاتا
وہ اَور چائے کی صاف پیالی میں
چائے پِِلاتا
زمانے کے (اُردو کے)
مشہور ادیب اور شاعِر
غلَط ، ٹِھیک مشہور تو ہَیں
بڑے بھی ہَیں یا وہ نہیں
اَور دیگر مسائل
اَدَب پر
یہ سَب باتیں ہوتیں۔

نامور شاعر، بہترین نثر نگارعلم عروص کے ماہر کاوش عباسی

نامور شاعرکاوش عباسی

ایک تازہ نظم 

وقت آگے چلاتا ہے
مُجھ کو دیکھو
کہ اَچّھے سے اَچّھے پہ چلتا ہوں مَیں
اَچّھی سے اَچّھی
ماضی پرستی سے نفرت اُگاتی ہوئی
آگے سے آگے کی بات کرتا ہوں مَیں
(تُم کو اَپنی قَسَم
باپ کی ، بِیوی بَچّوں کی تُم کو قَسَم
سَچ بتاؤ
کہ آگے سے اَچّھی کوئی بات ہے
جب سے پَیدا ہو ئے ہو
کوئی دِن بھی اَیسا بتاؤ
کہ جِس دِن نہ آگے چلے ہو
نہ یا آگے چلنے کو دِل میں جلے ہو)
مَیں اُن لوگوں میں ہوں
جو کم اَچّھے پر جاں لُٹاتے ہیں
دائم جو کم اَچّھے کو چُنتےہیں
اور ہُما اُس کے سر پر بِٹھاتے ہیں
صدیاں جو
صدیوں کی صدیاں جو
پِیچھے کو ہی گُھوم کر جُھوم کر چلتے ہیں
اُن سے پُوچھو تو کہتے ہَیں آگے روانہ ہیں
لیکن وہ پِیچھے کو ہی گُھوم کر چلتے ہیں
وقت گردن میں پٹّا اُنہیں ڈال کر
آگے چلتا ہے
اُن کو بھی آگے چلاتا ہے
آگے سے اُن کا سروکار ہے تو بَس اِتنا!

Facebook Comments

POST A COMMENT.