تاریخ سے چلے تھے تم اپنے میں پھنس گئے، کاوش عباسی کے تین قطعات

تاریخ ، فلسفے ، ادب و فن اور علم عروض پردسترس رکھنے والے شاعر، میرے دوست، کرم فرما کاوش عباسی ان دنوں امریکا میں مقیم ہیں، لیکن علم وادب اور مٹی سے ناتہ نہیں ٹوٹا ہے۔ وہ گاہے گاہے اپنی نگارشات ارسال کرتے رہتے ہیں۔ ان کی ہرتحریر نثر ہو یا نظم حلقہ احباب ہی نہیں دنیا بھر کے شائقین ادب کے لیے بڑی اہمیت اور پسندیدگی رکھتی ہے ۔ ان کے تین تازہ قطعات آپ کے ذوق کی نذر

کاوش عباسی

تاریخ سے چلے تھے تم اپنے میں پھنس گئے

(میلان کندرا کے لئے، اُن کا ناول

“The book of laughter and forgetting ”
پڑھنے کے دَوران اور پڑھنے کےبعد)

کاوش عباسی اپنی اہلیہ کے ہمراہ

کاوش عباسی اپنی اہلیہ کے ہمراہ

(1)

تاریخ سے چلے تھے تم اپنے میں پھنس گئے

اِک بِیچ کے اندھیرے اُجالے میں پھنس گئے

تم نرم ، عہد سخت تھا، (سب عہد سخت تھے)

نہر ِ سِتم کے ایک دہانے میں پھنس گئے

(2)

جُزو ِ تاریخ تھا ، کُل کیسے بنا ، فَن ہے یہ

ٹھوس تھا کیسے مُجرّد ہوا ، اُلجَھن ہے یہ

تُم سُلگتی ہوئی اِک جاں تھے سُلَگتے ہی رہے

ذات بھی دشت ِ خَس و خار ہے اِک بَن ہے یہ

کاوش عباسی

کاوش عباسی

(3)

کسی طرح بھی نہ سنبھلا ، نہ دُھند سے نکلا

تھی چوٹ ایسی کہ باہر بھی خُون بہنے لگا

تُم اَے جہاں نہ لگے مختلف ذرا سے بھی

جو میرے رَنج کا تھا رَنگ وہ تمہیں بھی دیا

٭٭٭

کاوش عباسی کی کئی نظمیں اور نثری تحریرعالم گیر پذیرائی رکھتی ہیں خاص طور پر ان کی درج ذیل تحریر تو شائقین ادب اور زندگی کے ہر مکتب فکر سے پذیرائی حاصل کرچکی ہے

سارے فنون ”سر کے بَل” کھڑے ہیں ، اُنہیں دوبارہ سِیدھا ، اُنکے پَیروں پر، پُورے جِسم کے ساتھ ، کیسے کھڑا کرینگے

جہاں لوگ موسیقی کی اور خوبصورت لگنے اور دکھنے ، ہر چیز کی ، اجازت ، مذہب اور مذہبی اقدار سے لیں وہاں فارمولے کے علاوہ کیا پیدا کیا جا سکتا ہے

دُنیا کے بڑے فنکار ، ادیب ، اس لئے بڑے ہیں کہ انہوں نے انسان کو ایک آفاقی وجود مانتے ہوئے لکھا ہے ، دیگر تمام نظریے، عقیدے اُس کے تحت آتے ہیں

Facebook Comments

POST A COMMENT.