محمد حسن عسکری، نامور نقاد، افسانہ نگار، معلم ،ادب اور تفسیرقرآن کے مترجم

یاد رفتگاں

 مرتب سلیم آذر

محمد حسن عسکری نے اپنے تنقیدی مضامین اور افسانوں میں جدید مغربی رجحانات کو اردو دان طبقے میں متعارف کرایا

 5 نومبر 1919کو میرٹھ میں پیدا ہوئے، 18 جنوری 1978کو کراچی میں وفات پائی
اوردارالعلوم کورنگی میں آسودہِ خاک ہوئے

افسانوں کا پہلا مجموعہ ”جزیرے“ 1943 اوردوسر ”قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے“ 1946میں شائع ہوا، تنقیدی مضامین کے مجموعہ ”انسان اور آدمی“ اور ”ستارہ اور بادبان“ ان کی زندگی میں اور ”جھلکیاں“ ، ”وقت کی راگنی“ ، ”جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ“ ان کی وفات کے بعد شائع ہوئے

آخری دنوں میں عسکری صاحب مفتی محمد شفیع کی قرآن مجید کی تفسیر”معارف القرآن “ کا انگریزی میں ترجمہ کررہے تھے جس کی ایک جلد ہی مکمل ہوسکی

محمد حسن عسکری 5 نومبر 1919کو سراوہ، میرٹھ، اتر پردیش، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اظہار الحق اوروالد کا نام محمد معین الحق تھا۔ وہ بلند شہر میں کورٹ آف وارڈز میں ملازم تھے۔ وہاں سے وہ والی شکار پور رگھوراج کے یہاں بطور اکاﺅنٹنٹ چلے گئے جہاں انھوں نے 1945تک ملازمت کی۔ محمد حسن عسکری نے 1936 میں مسلم ہائی اسکول بلند شہر سے میٹرک اور 1938میں میرٹھ کالج سے انٹر پاس کیا۔ 1940 میں بی اے اور 1942 میں الہٰ آباد یو نیو رسٹی سے ایم اے (انگریزی ادب)کیا۔

 اس زمانے میں ا لہٰ آباد یو نیورسٹی میں بڑے ذی علم اساتذہ کا مجمع تھا جن میں ڈاکٹرعبد الستار صدیقی، فراق گور کھپوری، ڈاکٹر اعجازحسین، ایشوری پر شاد، ڈاکٹر تاراچند، امر ناتھ، شیش چند دیب اور ڈاکٹر زید احمد وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ علم و ادب کے اسی ماحول میں محمد حسن عسکری نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا اور فراق گورکھپوری اور پروفیسر کرار حسین جیسے اساتذہ ومعلم سے استفادہ کیا۔ بعدازاں خود بھی تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ تعلیم کے بعد کچھ دن حسن عسکری صاحب نے دہلی میں فوجی اطلاعات کے محکمے میں بھی کام کیا۔

پروفیسر محمدحسن عسکری نے اپنے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔ ان کا پہلا افسانہ” کالج سے گھر تک“ 1939میں شائع ہوا۔ 1939سے 1945تک انہوں نے چند ایسے اضافے کیے جو اردو افسانے کا لافانی حصہ ہیں۔ 1945 میں حسن عسکری صاحب نے افسانہ نگاری کو خیرباد کہا اور پھرساری توجہ تنقید نگاری کی طرف مبذول کردی۔ انھوں نے جدید مغربی رجحانات کو ادب داں طبقے میں متعارف کرایا

محمد حسن عسکری

محمد حسن عسکری

 

انھوں نے پہلی ملازمت آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں بطور اسکرپٹ رائٹر اختیار کی۔ اسی زمانے میں شاہد احمد دہلوی اور رسالہ ساقی سے ان کا تعلق قائم ہوا۔ انھوں نے بطور ادیب اپنے کیریئر کا آغاز ماہنامہ ساقی دہلی سے کیا تھا۔ اس رسالے میں شائع ہونے والی عسکری صاحب کی پہلی تحریر انگریزی سے ترجمہ تھی جو نومبر1939 میں شائع ہوئی۔ اس مضمون کا عنوان تھا ”محبوبہ_¿ آمون را“۔ اس کے بعد1941 اور 1942میں بالترتیب کرشن چندر اور عظیم بیگ چغتائی پر ان کے دو طویل مضامین شائع ہوئے۔

 1943میں فراق گورکھپوری نے ساقی میں ”باتیں “کے عنوان سے مستقل کالم لکھنا شروع کیا۔ جب فراق صاحب اس کالم سے دست کش ہوگئے تو دسمبر 1943سے یہ کالم عسکری صاحب لکھنے لگے، جنوری 1944میں اس کالم کا عنوان جھلکیاں رکھ دیا گیا۔ یہ کالم 1947 کے فسادات کے تعطل کے علاوہ کم و بیش پابندی سے نومبر 1957تک چھپتا رہا۔ وہ کچھ دنوں تک اینگلو عربک کالج دہلی میں انگریزی کے استاد رہے۔ اس کے بعد میرٹھ چلے گئے جہاں وہ میرٹھ کالج میں انگریزی کے معلم رہے اور اردو داں طبقے کو مختلف انداز میں انگریزی پڑھاتے رہے۔
1947میں وہ قیام پاکستان کے بعد لاہور منتقل ہو گئے۔جہاں انھوں نے سعادت حسن منٹو کے ساتھ مل کر مکتبہ جدید لاہور سے اردو ادب جاری کیا۔ صرف دو شمارے شائع ہو سکے۔
1947کے بعد انھوں نے دنیا کے بہترین ناولوں کو اردو میں ترجمہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ فلا ئبر کا”مادام بوواری“، ”ستاں دال کا“، ”سرخ و سیاہ“ اور اشروڈ کا” آخری سلام“ اسی زمانے کی یادگار ہیں۔ ابتدائی دور میں پروفیسر محمد حسن عسکری مغربی فکر نمائندہ تھے لیکن 1950کے بعد رفتہ رفتہ وہ اسلام کی طرف راغب ہوگئے۔ انھوں نے دیکھا کہ اسلام کی روح وہ مرکزہے جس پر نئے ادب اور نئی فکر کی تعمیر ہو سکتی ہے۔ 1950 میں وہ کراچی چلے آئے۔ وہاں ابتدا میں وہ فری لانس ادیب کے طور پر ترجمے اور طبع زاد تحریریں لکھتے رہے۔ جنوری سے جون 1950 تک چند ماہ سرکاری رسالے ”ماہ نو“کے مدیر بھی رہے۔ بعدازاں انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے ملحق اسلامیہ کالج کے شعبہ انگریزی میں بطور استاد فرائض ادا کیے اور آخری دم تک وہ اسی کالج میں شعبہ انگریزی ادب سے منسلک رہے۔ پروفیسر محمد حسن عسکری ایک مشفق استاد، اعلیٰ پائے کے نقاد، بہترین افسا نہ نگار، مترجم، نامور ادیب اور اردو ادب کے معماروں میں سے تھے۔ وہ بچپن ہی سے بڑے ذہین تھے۔

ادبی خدمات

عسکری صاحب اردو کے ایک اہم افسانہ نگار تھے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”جزیرے“ 1943میں شائع ہوا تھا۔ 1946میں دوسرا مجموعہ ”قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے“ شائع ہوا۔ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعہ ”انسان اور آدمی“ اور ”ستارہ اور بادبان“ ان کی زندگی میں اور ”جھلکیاں“ ، ”وقت کی راگنی“ اور ”جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ“ ان کی وفات کے بعد شائع ہوئے۔ اردو ادب کے علاوہ عالمی افسانوی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ وہ فرانسیسی ادب سے بھی بہت اچھی طرح واقف تھے جس کا ثبوت ان تراجم سے ملتا ہے جو انھوں نے گستاف فلابیر( Gustave Flabert ) کا ناول مادام بواری اور ستاں دال (Stendhal) کا ناول سرخ و سیاہ کے نام سے کیے ہیں۔ آخری دنوں میں عسکری صاحب مفتی محمد شفیع کی قرآن مجید کی تفسیر کا انگریزی میں ترجمہ کررہے تھے جن میں سے ایک جلد ہی مکمل ہوسکی۔معروف نقاد ممتاز شیریں محمد حسن عسکری کے بارے میں کہتی ہیں ” ہم عصر ادب پر اثر انداز ہونا اور اپنی تنقیدی فکر سے اپنے دور کے لکھنے والوں کو متاثر کرنا بڑی بات ہے۔ ہمارے ناقدوں میں سوائے عسکری صاحب کے شاید ہی کسی کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے۔“

محمد حسن عسکری کی متعدد تصانیف شائع ہوئیں جن میں قابل ذکر یہ ہیں:

(1) جزیرے (افسانے) 1943(2) قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے (افسانے) 1946(3) انسان اور آدمی (تنقیدی مقالات) 1953(4) ستارہ اوربادبان (تنقیدی مقالات) 1963 (5) وقت کی راگنی (تنقیدی مقالات) (6) جدید یا مغربی گمرا ہیوں کا خاکہ ( دینی مدارس کے لیے درسی اشاعت ) مرتب کردہ، تالیفات: میری بہترین نظم 1942، میرا بہترین افسانہ 1943، انتخاب طلسم ہوشربا 1953، انتخاب کلام میر (ساقی کا خاص نمبر )1958۔ تراجم : ریاست اور انقلاب (لینن ) 1942، میں نے لکھنا کیسے سیکھا (گورکی) 1943، سرخ و سیاہ (ستاں دال ) (Stendhal کے فرانسیسی ناول Le Rouge et le Noir کا براہِ راست ترجمہ، موبی ڈک (ہرمن میلول Hermann Melville) کے مشہور ناولMoby Dick کا ترجمہ، مادام بواری (گستاف فلابیر) (Gustav Flaubert) کے فرانسیسی ناول کا براہ راست ترجمہ،آخری سلام (کرسٹوفر شروڈ کے ناول Good by the Berlin کا ترجمہ)

محمد حسن عسکری 18جنوری 1978کو حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے کراچی میں انتقال کر گئے۔ انھوں نے مفتی شفیع ? کی تفسیرالقرآن ”معارف القرآن“ کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کی ذمے داری سنبھال لی تھی جس کی ایک جلد وہ مکمل کر چکے تھے۔ اسی وجہ سے انھیں دارالعلوم کورنگی میں سپر د خاک کیاگیا۔

Facebook Comments

Comments are closed.