مدت گزری ہونٹوں پربن بات کا موسم ٹھہر گیا
تب سے جیسے آنکھوں میں برسات کا موسم ٹھہر گیا
زخم بھی لگتے جائیں تو وہ شوقِ رفو کب رکھتے ہیں
ضدی سرکش لوگوں میں کس بات کا موسم ٹھہر گیا
وادی کی گل پوش زمیں پربرف نے کیا لکھ ڈالا ہے
جلتے جسم بھی سرد ہوئے جذبات کا موسم ٹھہر گیا
اک لمحے کی خواہش ہے کہ میرے دل کا موسم ہو
دانستہ بازی ہار گئے اب مات کا موسم ٹھہر گیا
ایک ہی ساکت خواب ہو جیسے اور ہزاروں تعبیریں
سوتی جاگتی آنکھوں میں بس رات کا موسم ٹھہر گیا
پاسِ وفا کا جذبہ تو قرآن کا پرتو ہوتا ہے
اس نکتے پر اب تو میری ذات کا موسم ٹھہر گیا
POST A COMMENT.