گلناز کوثر اردو نظم کے ذریعے فطرت اور انسان کے باطن کو ہم آہنگ کرنے والی شاعرہ

گلناز کوثر اردو نظم کے ذریعے فطرت اور انسان کے باطن کو ہم آہنگ کرنے والی شاعرہ

گلناز کوثر پاکستان کی معروف اور اپنے عہد کی ممتازشاعرہ ہیں، وہ غزل کے علاوہ دلکش نطمبھی لکھتی ہیں،اگر یہ کہا جائے کہ گلناز کوثر اردو نظم میں ایک نمایاں نام ہے تو بے جا نہ ہوگا، وہ نظم لکھنے میں اپنے عہد کی دیگر شاعرات میں نمایاں مقام رکھتی ہیں ۔

   گلناز کوثر نے نظم کے ذریعے فطرت اور انسان کے باطن کو ہم آہنگ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

 گلناز کوثر کا تعلق لاہور سے ہے، کچھ برس سے وہ برطانیہ میں مقیم ہیں، انھوں نے اردو اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کے ساتھ ساتھ ایل ایل بی کی تعلیم بھی حاصل کی ہے البتہ وکیل کے طور پر پریکٹس کبھی نہیں کی۔ گلناز کوثر نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے ریسرچ اینڈ پبلیکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بھی وابستہ رہیں، اس کےعلاوہ انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں عالمی ادب بھی پڑھایا ہے۔

 ان کا پہلا شعری مجموعہ 2012  میں ’’خواب کی ہتھیلی پر‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔

غزل

یہ قہرباز نگہ اور یہ گونجتا لہجہ

گلناز کوثر

یہ قہرباز نگہ اور یہ گونجتا لہجہ

خدا سے مانگ کے لایا ہے کیا خدا لہجہ

چھپی تھی اُس کی تہوں میں بلا کی تنہائی

پلٹ کے دیکھا نہیں تو نے کھردرا لہجہ

قدیم جھیل ترے دل میں کوئی سوگ تو ہے

تھکی تھکی ہوئی لہریں گُھٹا گُھٹا لہجہ

اُڑان بھرتے پرندوں کے ہونٹ نیلے ہیں

کہاں سے لائی ہوا زہر میں بجھا لہجہ؟

رُتیں بدلنے لگی تھیں الاؤ بجھنے لگے

سو اجنبی سا لگا بارہا سُنا لہجہ

ابھی بھی کیفے کی اُس میز پر پڑے ہوں گے

وہ شام ، سادہ نظر، بھیگتا ہوا لہجہ

غصیلے لفظ بھی کچھ تھے مگر وہ بھول گئے

مجھے تو یاد ہے روتا ، پکارتا لہجہ

چٹخ رہی ہے کوئی شے لہو کے رستے میں

ذرا ذرا جو یہ جھڑتا ہے بُھربُھرا لہجہ

وگرنہ لوگ تجھے جیتے جی بھلا دیں گے

سو منفرد ہو تری بات اور جُدا لہجہ

گلناز کوثر کا تعلق لاہور سے ہے، کچھ برس سے وہ برطانیہ میں مقیم ہیں، انھوں نے اردو اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کے ساتھ ساتھ ایل ایل بی کی تعلیم بھی حاصل کی ہے

گلناز کوثر کا تعلق لاہور سے ہے، کچھ برس سے وہ برطانیہ میں مقیم ہیں، انھوں نے اردو اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کے ساتھ ساتھ ایل ایل بی کی تعلیم بھی حاصل کی ہے

نظم

کسی کی یاد کا چہرہ

مرے ویران گھر کی ادھ کھلی کھڑکی سے

جو مجھ کو بلاتا ہے

سمے کی آنکھ سے ٹوٹا ہوا تارا

جو اکثر رات کی پلکوں کے پیچھے جھلملاتا ہے

اسے میں بھول جاؤں گی

ملائم کاسنی لمحہ

کہیں بیتے زمانوں سے نکل کر مسکراتا ہے

کوئی بھولا ہوا نغمہ

فضا میں چپکے چپکے پھیل جاتا ہے

بہت دن سے کسی امید کا سایا

کٹھن راہوں میں میرے ساتھ آتا ہے

اسے میں بھول جاؤں گی

پرانی ڈائری کی شوخ تحریروں میں

جو اک نام باقی ہے

کسی منظر کی خوشبو میں رچی

جو راحت گمنام باقی ہے

ادھورے نقش کی تکمیل کا

جتنا بھی جو بھی کام باقی ہے

یہ جتنے دید کے لمحے

یہ جتنی شام باقی ہے

اسے میں بھول جاؤں گی

کسی کی یاد کا چہرہ

اسے میں بھول جاؤں گی

اسے میں بھول جاؤں گی

میں اکثر سوچتی تو ہوں

مگر وہ یاد کا چہرہ!!

مگر وہ ادھ کھلی کھڑکی!!

Facebook Comments

POST A COMMENT.