مریم حنا طارق ، اپنے عزم و ہمت سے معذوری کو شکست دینے والی بہادر شخصیت

مریم حنا طارق ، اپنے عزم و ہمت سے معذوری کو شکست دینے والی بہادر شخصیت

مریم حنا طارق کو سیاحت، پینٹنگ اور فیش ڈیزائننگ کا شوق ہے، وہیل چیئر پر ہونے کے باوجود کئی مشکل مقامات کی سیاحت کرچکی ہیں

مریم حنا طارق کہتی ہیں وہیل چیئر پر سیاحت مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں، ہمت اور حوصلے سے کام لیں، گھر سے نکلیں، حسین مناظر آپ کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں

حادثے سے پہلے زندگی مختلف تھی، کپڑوں اور بنائو سنگھار پر زیادہ توجہ نہیں دی، جو ملا پہن لیا
حادثے کے بعد کی دنیا مختلف تھی ،”سادگی “ ہمدردی کا باعث بن سکتی تھی، لہٰذاخود پر توجہ دینا شروع کردی
صبح شا،م، موسم، تقریب کی نوعیت اور اپنی شخصیت کے مطابق کپڑوں کاانتخاب اور میک اپ شروع کیا
پھردیکھتے ہی دیکھتے ایک نئی مریم دنیا کے سامنے آگئی جوزیادہ پر اعتماد اور پر کشش تھی

شخصیات ویب نیوز
انٹرویو: ثاقب لقمان قریشی

مریم حنا طارق ایسی بہادر شخصیت ہیںجنھوں نے اپنے عزم و ہمت سے نہ صرف معذوری کو شکست دی بلکہ ایسے کام بھی سرانجام دیے جو دوسروں کے لیے مشعل راہ ہیں۔
انھیں سیاحت، پینٹنگ اور فیش ڈیزائننگ کا بے حد شوق ہے، وہیل چیئر پر ہونے کے باوجود کئی مشکل مقامات کی سیاحت کرچکی ہیں اور وہیل چیئرپر ہونے کے باوجود وہ متعد د مشکل مقامات کی سیر کرچکی ہیں۔
وہ کہتی ہیں وہیل چیئر پر سیاحت مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں، ہمت اور حوصلے سے کام لیں، گھر سے نکلیں، حسین مناظر آپ کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں

تعارف       

 وطن عزیز کے سیاحتی مقامات پر خصوصی افراد کی تفریح کے لیے مناسب انتظامات نہیں ہیں، مریم حنا طارق


وطن عزیز کے سیاحتی مقامات پر خصوصی افراد کی تفریح کے لیے مناسب انتظامات نہیں ہیں، مریم حنا طارق

نام: مریم حنا طارق
رہائش: سرگودھا
تعلیم: بی-اے
شوق: سیاحت، پینٹنگ اور فیش ڈیزائننگ
خاندانی پس منظر:
وہ بتاتی ہیں کہ والد صاحب نے بینک کی ملازمت سے اپنے سفر کا آغاز کیا، پھر ملازمت ترک کر کے زمینداری پر توجہ دینا شروع کر دی۔ جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں اور سرگودھا کی سیاست میں کافی متحرک ہیں۔ خاندان ایک بھائی اور تین بہنوں پر مشتمل ہے۔ بھائی نوکری کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہیں۔ ایک بہن وفات پاچکی ہیں۔ جبکہ مریم اور ایک بہن مطعئن شادی شدہ زندگی گزار رہی ہیں۔
سوال: کیا والد صاحب بھی سیاحت کے شوقین ہیں؟
والد صاحب سیاحت کے دلدادہ رہے ہیں۔ سیاحت کا شوق والد صاحب سے ہی بچوں میں منتقل ہوا ہے۔ سال میں متعدد بار سیاحتی مقامات کی سیر خاندان کا معمول تھا۔ شادی سے پہلے ہی ملک کے اہم سیاحتی مقامات اور بڑے شہروں کا سفر کر چکی تھیں۔
سوال : شادی کب ہوئی ؟ آپ لندن کیوں منتقل نہیں ہوسکیں؟
شادی 2002 میں ہوئی۔ شادی کے فوری بعد دبئی منتقل ہوگئیں۔ دبئی میں آٹھ سال قیام کیا اس دوران ملک کو کبھی نہیں بھولیں۔ خوشی خوشی پاکستان آتیں اور جاتے ہوئے خوب رویا کرتی تھیں۔ انھیں فجر کے وقت سمندر کے کنارے بیٹھنا بہت پسند تھا۔ وہ سوچتیں کہ اسے پار کر کے پاکستان پہنچ جائیں۔ بیرون ملک قیام کے دوران پارکس، ہوٹلز اور سیاحتی مقامات کی سیر معمول کا حصہ رہے۔ ایسے ہی سیر کے دوران ایک حادثے کی وجہ سے وہ لندن منتقل نہ ہوسکیں۔

حادثے کے ایک سال بعد نتھیاگلی جانے کے فیصلے سے سب گھروالے حیران رہ گئے کہ وہیل چیئر کے ساتھ نتھیا گلی کی سیر کیسے کی جاسکتی ہے

حادثے کے ایک سال بعد نتھیاگلی جانے کے فیصلے سے سب گھروالے حیران رہ گئے کہ وہیل چیئر کے ساتھ نتھیا گلی کی سیر کیسے کی جاسکتی ہے

مریم حنا طارق اپنی بہن کی فیملی کے ساتھ سیر کو جارہی تھیں۔ مرحوم بہنوئی گاڑی چلا رہے تھے، بہن ان کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھی تھیں، مریم پچھلی سیٹ پر بچوں کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ سفر ایک دوسرے سے باتیں کرتے بچوں کی چھیڑ چھاڑ کے ساتھ خوشگوار گزر رہا تھا۔
سب ٹھیک چل رہا تھا، خاندان ہنسی خوشی اپنی منزل کی طرف گامزن تھا۔ کلر کہار کے مقام پر گاڑی کا ٹائر اچانک پھٹ گیا اور گاڑی بدترین حادثے کا شکار ہوگئی۔ سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ فیصلہ کرنے اور سوچنے کا موقع تک نہیں ملا۔

ویل چیئر پر سیاحت تھوڑی مشکل ضرور ہے پر ناممکن نہیں، مریم حنا طارق

ویل چیئر پر سیاحت تھوڑی مشکل ضرور ہے پر ناممکن نہیں، مریم حنا طارق

حادثہ اتنا شدید تھا کہ بہن اور بہنوئی موقع پر ہی اللہ کو پیارے ہوگئے، مریم اسپائنل کارڈ انجری کا شکار ہوگئیں اور بھانجے کے سر پر شدید چوٹیں آئیں حواس قابو میں آتے ہی بچوں کی فکر پڑ گئی۔ فوری طور پر بچوں کو گاڑی سے باہر نکالنا شروع کیا۔ بچوں کو خاندان کے سپرد کرنے کے بعد ایمبولینس میں بھی انہی کے بارے میں سوچتی رہیں۔
سوال: پمز سے شفاءانٹرنیشنل کیوں جانا پڑا؟
حادثے کے بعد مریم اور انکے بھانجے کو اسلام آباد کے پمز ہسپتال لے جایا گیا۔ جہاں بھانجے کے سر کا فورا آپریشن کیا گیا اور ان کے لیے بہتر گھنٹوں کو مشکل قرار دیا گیا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ انتہائی نگہداشت کی مریضہ دو دنوں تک سٹریچر پر پڑی رہیں۔

فارغ رہنا پسند نہیں، خود کوہروقت مصروف رکھتی ہیں ، سارے کام خود سے کرنے کی کوشش کرتی ہیں

فارغ رہنا پسند نہیں، خود کوہروقت مصروف رکھتی ہیں ، سارے کام خود  کرنے کی کوشش کرتی ہیں

والدین بہن کی تدفین میں مصروف تھے، شوہر ملک سے باہر جس کی وجہ سے آپریشن میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔چاچا اور خالہ نے سرکاری ہسپتال کی ناقص صورتحال دیکھتے ہوئے ہسپتال بدلنے کا فیصلہ کیا اور آپریشن کیلئے شفاءلے جایا گیا۔
سوال: زندگی کے میدان میں واپس کیسے آئیں؟ کون سی چیز موٹی ویشن کا سبب بنی؟
مریم ہسپتال سے چل کر گھر واپس جانا چاہتی تھیں۔ کافی پر امید تھیں کہ شائد کوئی حل نکل آئے۔ اس بھاگ دوڑ میں چند روز ہی گزرے تھے کہ بیٹی کی کال آگئی کہنے لگی ماما آپ کب گھر واپس آئیں گی؟ بچی کی آوازسنتے ہی پورے جسم میں ایک لہر دوڑ گئی۔ بحالی کی ورزشوں کو گھر میں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور دو دنوں کے مختصر سے وقت میں گھر واپس چلی گئیں۔
سوال: کیا سوچ کر گھر واپس جارہی تھیں؟

 بحالی کی ورزشیں باقاعدگی سے کرتی ہیں، بلاکر اور بچوں کی مدد سے کھڑی بھی ہو جاتی ہیں

بحالی کی ورزشیں باقاعدگی سے کرتی ہیں، بلاکر اور بچوں کی مدد سے کھڑی بھی ہو جاتی ہیں

سفر کے روران یہ سوچ رہی تھیں کہ شائد سب کچھ ویسا ہی ہوگا جیسا چھوڑ کر گئی تھیں لیکن حالات مکمل طور پر تبدیل ہوچکے تھے۔ مریم اب چل نہیں سکتی تھیں، بیٹھ نہیں سکتی تھیں یہاں تک کہ اپنی گردن تک پر کنٹرول نہیں تھا۔
سوال: حالات کو نارمل کرنے میں کیسے کامیاب ہوئیں؟
شروع کے تین ماہ نہایت مشکل ثابت ہوئے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ رات کے وقت بھی گھر کا کوئی فرد ساتھ سویا کرتا تھا۔ زندگی مکمل طور پر دوسروں کے ہاتھ میں چلی گئی تھی۔ مریم کیلئے یہ اذیت ناک صورتحال تھی ہر وقت خدا سے دعا کرتی رہتیں کہ اس قابل ہو جائیں کہ اپنا اور اپنے بچوں کا خیال رکھ سکیں۔ بحالی کی ورزشوں کو معمول بنا لیا۔

 گھر کے کام کرنا اور کروانا پسند ہے، کھانا بنا بھی لیتی ہیں، ساری شاپنگ خود کرتی ہیں،خریداری کے لیے وہیل چیئر لے کر نکل جاتی ہیں

گھر کے کام کرنا اور کروانا پسند ہے، کھانا بنا بھی لیتی ہیں، ساری شاپنگ خود کرتی ہیں،خریداری کے لیے وہیل چیئر لے کر نکل جاتی ہیں

تین ماہ کے محتصر سے عرصے میں اس قابل ہوگئیں کہ اپنے بچوں کے ساتھ کمرے میں اکیلی سونے لگیں۔ سیاحت کا شوق بستر پر بھی ستاتا رہتا۔ ستمبر کے مہینے میں جب گاڑی میں بیٹھنے کی فرمائش کی تو سب حیران رہ گئے۔
سوال: وہیل چیئر پر چار بچوں کی کامیاب پرورش کیسے ممکن ہو پائی؟
حادثے سے پہلے جب بچے بہت ستا رہے تھے تو مریم نے اپنی مرحوم بہن سے کہا کہ اگر چاروں بچے میرے یا تمھارے ہوتے تو کیا ہوتا۔ محض آدھے گھنٹے بعد ہی گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی اور چاروں بچے مریم کے ہوگئے۔
والدین کو ٹانگیں، بیٹی کو سہارا اور ذہن کو استعمال کرتے ہوئے مریم نے چاروں بچوں کی پرورش کا بیڑا اٹھا لیا۔ بیٹے کا نام زوہیر ہے، او تھری کا طالب علم ہے۔حادثے کے وقت اسکی عمر آٹھ سال تھی اب سترہ سال کا ہوگیا ہے۔ بیٹی کا نام فصیحہ ہے او-ون کی طالب علم ہے حادثے کے وقت اسکی عمر چھ سال تھی اب چودہ سال کی ہوچکی ہے۔ بہن کے بڑے بیٹے کا نام ابوبکر ہے نویں جماعت کا طالب علم ہے چھوٹے کا نام احمد ہے ساتویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ حادثے کے وقت ان کی عمریں چھ اور چار سال تھیں۔ مشکلات کے باوجود اپنے سفر کو کامیاب قرار دیتی ہیں۔
سوال: حادثے کے بعد پہلا سفر کب اور کہاں کا کیا؟

حادثے سے پہلے زندگی مختلف تھی، کپڑوں اور بنائو سنگھار پر زیادہ توجہ نہیں دی، جو ملا پہن لیا حادثے کے بعد کی دنیا مختلف تھی ،”سادگی “ ہمدردی کا باعث بن سکتی تھی، لہٰذاخود پر توجہ دینا شروع کردی

حادثے سے پہلے زندگی مختلف تھی، کپڑوں اور بنائو سنگھار پر زیادہ توجہ نہیں دی، جو ملا پہن لیا
حادثے کے بعد کی دنیا مختلف تھی ،”سادگی “ ہمدردی کا باعث بن سکتی تھی، لہٰذاخود پر توجہ دینا شروع کردی

حادثے سے پہلے بچوں کو لے کر خوب گھوما کرتی تھیں۔ حادثے کے بعد بچے گھر والوں کے ساتھ آیا جایا کرتے تھے یہ دیکھ کر مریم کو بہت دکھ ہوتا تھا۔ ایک سال کے مختصر سے عرصے میں اسلام آباد کا سفر کیا۔ وہیل چیئر پر سفر کرنا بہت مشکل لگا۔ اس سفر کے بعد ایک سال تک گھر سے باہر نہیں نکلیں۔پھر چیزوں کو پڑھنا شروع کیا اور خدا نے حوصلہ دینا شروع کیا تو آہستہ آہستہ سب کچھ اپنے ہاتھوں میں لینا شروع کر دیا۔ ایک سال بعد نتھیاگلی جانے کی فرمائش کی تو سب حیران رہ گئے کہ ویل چیئر کے ساتھ کسی سیاحتی مقام کی سیر کیے کی جاسکتی ہے۔ ویل چیئر پر یہ سیر مشکل لگی لیکن اعتماد میں بھر پور اضافے کا سبب بنی۔
سوال: خنجراب جانے کا خیال کس کے ذہن میں آیا اور سفر کیسا رہا؟
2018 میں بھائی کا پاکستان آنا ہوا۔خاندان کسی پرفضا سیاحتی مقام کی سیر کی پلاننگ کرنے لگا۔ مریم نے خنجراب جانے کا مشورہ دیا جسے فوری طور پر رد کر دیا گیا۔ سب کا خیال تھا کہ ویل چیئر پر پہاڑی مقام کی سیر مریم کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن مریم نے ضد کر کے سب کو منا لیا۔

راستے میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ رات کے سفر کے دوران انجن کی گرمائش سے پاو¿ں جل گیا۔ صبح بیٹی کے بتانے پر معلوم ہوا کہ پاو¿ں جل گیا ہے۔ زخم کے ساتھ ہی سفر جاری رکھا اور ہنزہ پہنچنے پر پٹی کروائی۔ڈاکٹر نے زخم کو تیسرے درجے کا قرار دیتے ہوئے مزید سفر سے گریز کا مشورہ دیا۔ مریم نے ڈاکٹر کی رائے کو رد کرتے ہوئے سفر جاری رکھا۔ اس سفر نے ناران، کاغان، گلگت، ہنزہ اور باٹا کنڈی جیسے سیاحتی مقامات کی سیر کا موقع فراہم کیا۔
سوال: جیپ سفاری کرتے ہوئے ڈر نہیں لگا؟

شادی 2002 میں ہوئی، شادی کے فوری بعد دبئی منتقل ہوگئیں جہان آٹھ سال قیام کیا

شادی 2002 میں ہوئی، شادی کے فوری بعد دبئی منتقل ہوگئیں جہان آٹھ سال قیام کیا

2019 میں فیملی نے دوبارہ شمالی علاقہ جات کی سیر کا پروگرام بنایا۔ اس بار ان علاقوں کی سیر کا پروگرام بنا جہاں پچھلے سال نہیں جاسکے تھے۔ ناران کی جیپ سفاری کو مشکل سفر تصور کیا جاتا ہے۔ سپائنل کارڈز کیلئے سفر کے دوران توازن برقرار رکھنا اور شدید ٹھنڈ کا مقابلہ کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ گھر والوں کے منع کرنے کے باوجود سفر کی ٹھان لی اور بیٹے کو ساتھ لے کر بیٹھ گئیں۔
لالہ زار، بیسل، شوگران اور سری پائے تک کا سفر کیا۔سری پائے میں کچھ مشکلات پیش آئیں لیکن جہاں تک ممکن ہوسکا وہیل چیئر لے کر گئیں۔
سوال: حادثے سے پہلے کی تصاویر میں آپ بہت سادہ نظر آتی ہیں؟ اسکی کیا وجہ ہے؟
حادثے سے پہلے کی زندگی بڑی مختلف تھی مریم نے کبھی کپڑوں اور بناو¿ سنگھار پر زیادہ توجہ نہیں دی۔جو ملا پہن لیا۔ حادثے کے بعد کی دنیا بڑی مختلف تھی اس دنیا میں “سادگی” ہمدردی کا باعث بن سکتی تھی۔ فیشن ڈیزائننگ کا شوق بچپن سے تھا۔ شوق کو مزید بڑھاتے ہوئے اپنی ذات پر توجہ دینا شروع کی۔ تقریب کی نوعیت، صبح شام، موسم اور اپنی شخصیت کے مطابق کپڑوں اور میک اپ پر تجربات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اسطرح دیکھتے ہی دیکھتے ایک نئی مریم دنیا کے سامنے آگئی جوزیادہ پر اعتماد اور پر کشش تھی۔
سوال: طارق محمد ارشد صاحب کون ہیں اور آپ کو سوشل ورک کی طرف کیسے لے کر آئے؟
طارق محمد ارشد پاکستان آرمی کے ریٹائرڈ آفیسر ہیں۔ ان کے بیٹے سرمد طارق بھی خصوصی فرد تھے۔ جن کی موٹی ویشنل ویڈیوز سے ہزاروں خصوصی افراد مستفید ہوئے۔ مریم اور طارق صاحب کا رشتہ باپ اور بیٹی والا ہے۔ اپنا ہر مسئلہ ان سے ڈسکس کرنا پسند کرتی ہیں۔ طارق صاحب نے انھیں گھریلو عورت سے پروفیشنل بننے میں مدد فراہم کی اور انکا تعارف رومیلا حمید سے کروایا جو ایک این-جی-او بنانے کا ارادہ رکھتی تھیں۔
سوال: ایس ایم ٹی کیا کام کرتی ہے؟
ایس ایم ٹی خصوصی افراد کو آن لائن ٹریننگ فراہم کرتی ہے۔ اسکی ٹیم ٹرینرز اور ڈاکٹرز پر مشتمل ہے۔ جو لوگوں سے رابطہ کرتی ہے اور انھیں زندگی کی دوڑ میں واپس لانے کی بھر پور کوشش کرتی ہے۔
سوال: گھر کے کام کاج اور شاپنگ کون کرتا ہے؟
فارغ رہنے کا شوق نہیں ہے۔ اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ بحالی کی ورزشیں باقاعدگی سے کرتی ہیں۔ بلاکر اور بچوں کی مدد سے کھڑی بھی ہو جایا کرتی ہیں۔ گھر کے کام کرنا اور کروانا پسند ہے۔ ساری شاپنگ خود کرتی ہیں۔ ویل چیئر لے کر نکل جاتی ہیں اور سارے کام خود سے کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
سوال: کھانے میں کیا پسند ہے؟ کیا کھانا بنا بھی لیتی ہیں؟
نئے نئے پکوان بنانا پسند ہے۔ حادثے کے بعد جنک فوڈ کو خیر آباد کہ دیا ہے۔ دیسی اور چائنیز کھانے کھانا اور بنانا پسند کرتی ہیں۔

سیاحت کے لیے آپ کو تھوڑی ہمت اور حوصلے سے کام لینا ہوگا۔ گھر سے باہر نکلیں قدرت کے حسین مناظر آپ کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں

سیاحت کے لیے آپ کو تھوڑی ہمت اور حوصلے سے کام لینا ہوگا۔ گھر سے باہر نکلیں قدرت کے حسین مناظر آپ کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں

سوال: سیاحت کے شوقین خصوصی افراد کو کیا پیغام دینا چاہیں گیں؟
ویل چیئر پر سیاحت تھوڑی مشکل ضرور ہے پر ناممکن نہیں۔ وطن عزیز کے سیاحتی مقامات پر خصوصی افراد کی تفریح کے مناسب انتظامات نہیں ہیں۔ اس کے لیئے آپ کو تھوڑی ہمت اور حوصلے سے کام لینا ہوگا۔ گھر سے باہر نکلیں قدرت کے حسین مناظر آپ کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.