بہاری محب وطن پاکستانی ہیں شناختی کارڈجاری کئے جائیں، جسٹس وجیہہ الدین احمد

بہاری محب وطن پاکستانی ہیں شناختی کارڈجاری کئے جائیں، جسٹس وجیہہ الدین احمد
بہاری جو 1971میں آگئے تھے وہ پاکستانی ہیں،ان کو شناختی کارڈ جاری کرنا مسئلہ نہیں” فارنر ایکٹ” میں چھوٹی سی ترمیم کی ضرورت ہے
بہاری نے پاکستان کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں، آرایس ایس نے 1946 میں بہار میں مسلمانوں کا قتل عام کرایا
بہاریوں کو دو ہجرتیں کرنی پڑیں،1947میں مشرقی پاکستان میں بس گئے ، پھر1971میں جب پاکستان دو لخت ہوا تو موجودہ پاکستان میں آگئے
بلدیاتی انتخابات میں صحیح اوراہل افراد کو منتخب کیا جائے، بیاد شہدا بہار1946“ کے سلسلے میں تقریب سے رہنما عام لوگ اتحاد کا خطاب

شخصیات ویب نیوز
رپورٹ : ماجد علی سید

بہاری محبت وطن پاکستانی ہیں ، شناختی کار جاری کئے جائیںِ،آرایس ایس نے 1946 میں بہار میں مسلمانوں کا قتل عام کرایا،بلدیاتی انتخابات میں صحیح اوراہل افراد کو منتخب کیا جائے، اورنگی ٹاﺅن میں ”بیاد شہدا بہار1946“ کے سلسلے میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ مہمان خصوصی عام لوگ اتحاد کے رہنما جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد تھے جبکہ صدارت ممتازعالم سابق سیکریٹری مشرقی پاکستان طلبا ایکشن کمیٹی نے کی،خطبہ استقبالیہ ممتاز حسین انصاری چیئرمین محبان پاکستان فاﺅنڈیشن نے پیش کیا،تقریب سے خطاب کرتے ہوئے رہنما عام لوگ اتحاد کے جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے کہا ہے کہ 1946میں تقسیم ہند کی بات اصولی طورپرطے ہوچکی تھی جنگ عظیم دوم کے بعد جب انگلستان میں انتخابات ہوئے تو چرچل کی کنزرویٹوپارٹی شکست سے دوچار ہوئی اور مسٹرایٹلی کی لیبرپارٹی کامیاب ہوکر ہاﺅس آف کامنز میں پہنچی۔ابتداءہی سے لیبرپارٹی کا ایجنڈا ہندکی نام نہاد آزادی کا تھا، لیکن ساتھ ہی عملی طورپر وہ ہندوستان کو تقسیم کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ حصہ جو اس وقت پاکستان کہلاتا ہے اور آزادی کے بعد مغربی پاکستان کہلایا اس کے ذریعے سوویت یونین اور چین کا گھیراﺅ ہوسکتا تھا لہٰذا ایٹلی حکومت کی سرکردگی میں تفصیلات طے پائیں، اب اس تقسیم میں سب سے بڑا مسئلہ ان آبادیوں کا تھا جو ہندواکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کی اقلیت یا مسلم اکثریتی علاقوں میں غیرمسلم اقلیتیں خصوصا ہندو اقلیتیں آباد تھیں۔اقلیتی آبادیوں کے بارے میں تاثر یہ بنا کہ جو جہاں ہے وہیں رہے گا، جو ایک خام خیالی ثابت ہوئی خصوصاًجب سرکاری افسران کو بھارت یا پاکستان کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ انہوں نے کہاکہتے ہیں ”دی ایپل کارڈ واز اوور ٹرنڈ“کانگریس میں جوآر ایس ایس ونگ تھا اس نے بہار میں 1946قتل عام کرادیا جس کے نتیجے میں مسلمان وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے دوسری طرف بنگال کے شہر نواکھالی میں جہاں مسلم اکثریت تھی فسادات اٹھ کھڑے ہوئے۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ ہندو مسلم اتحاد پرچارکے حامی گاندھی اگربہارجاتے معاملات سلجھ جاتے لیکن وہ بہار کے بجائے نواکھالی گئے جس کے نتیجے میں یہ آگ اور پھیلی اور پھر آہستہ آہستہ پنجاب، دہلی اور دیگر علاقوں کو اس نے اپنے لپیٹ میں لے لیا۔

انہوں نے کہا کہ الطاف حسین جو اس وقت روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر تھے ان کا میں نے ایک آرٹیکل پڑھا جس میں انہوں نے لکھا ”دہلی 10 اورنگزیب روڈ پر واقع قائداعظم کی رہائشگاہ تھی میں وہاں گیا لان میں ایک تمبو لگا ہوا تھا اورقائد وہاں لیگی رہنمائوں سے ملاقات کر رہے تھے، الطاف حسین کہتے ہیں کہ قائداعظم نے اشارہ کیا کہ وہ اندر جاکر ڈرائنگ روم میں بیٹھیں تھوڑی دیر کے بعد وہ وہاں تشریف لائے اورقائد کچھ فکر مندنظرآئے۔انہوں نے آتے ہی کہایہ بہار کے مسلمانوں کوکیا ہوگیا یہ تو ایک فاتح قوم کے فرزند ہیں انکے ساتھ اگر یہ سلوک ہورہا ہے تو اینٹ کا جواب پتھر سے کیوں نہیں دیتے اور باتیں کرتے کرتے قائد اعظم آبدیدہ ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ جہاں تک کہ میرے تاریخی علم کا تعلق ہے انکی بیگم رتی جناح کو جب لحد میں اتارا جا رہا تھا اس وقت وہ آبدیدہ ہوئے تھے یا اس موقع پر بہارکے مسلمانوں کی حالات زار پر تبصرہ کرتے ہوئے ان پر رقت طاری ہوئی تھی۔جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ بہاریوں کو دو ہجرتیں کرنی پڑیں پہلے1947میں وہ اس وقت کے مشرقی پاکستان میں رچ بس گئے اور پھر جب پاکستان دو لخت ہوا تو1971کے بعد پاکستان کے اس حصے یعنی موجودہ پاکستان میں آگئے بنگلادیش بنے ہوئے50 سال ہوچکے ہیں ان میں سے بہت سارے متاثرین کا تعلق بہار یا پاکستان سے تھا وہ اللہ کو پیارے ہوچکے۔انکا کہنا تھا کہ وہ بہاری جو 1971میں آگئے تھے وہ پاکستانی تھے اور پاکستانی ہیں۔ان کو شناختی کارڈ جاری کیا جائے۔یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ایک چھوٹی سے ”فارنر ایکٹ“ میں ترمیم کی ضرورت ہے۔70 سالوں سے ہر سیاسی پارٹی آتی ہے وعدے کرتی ہے لیکن پورے نہیں کرتی وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا میں سمجھتا ہوں جو بنگالی اور افغانی عرصہ دراز سے یہاں مقیم ہیں ان کو بھی شناختی کارڈ اجرا ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ اورنگی ٹاﺅن وہ علاقہ ہے جسے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بنایا اور آباد کیا۔دنیا بھر میں اورنگی پائلٹ پروجیکٹ شہرت کا حامل ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم علم کی دولت سے مالا ہونگے تواپنے حقوق کو سمجھ سکیں گے اور ان پر عملدرآمد کراسکیں گے۔ اپنے فرائض بھی بہتر طورپر ادا کرسکیں گے لہذا ہر صورت ہمیں یہاں تعلیم کو فروغ دینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں تین سال کے بعد قومی انتخابات ہوں گے،انتخابات مربوط حکمت عملی سے لڑنا چاہئے ہیں۔ ماضی کی حکومتوں کے کاموںکو سامنے رکھیں۔ میں یہ نہیں کہوں گا آپ لوگ عام لوگ اتحاد کو پاور میں لیکر آئیں یا عام لوگ اتحاد کو سپورٹ کریں۔ میرا صرف یہ کہنا ہے آپ عام لوگ اتحاد کے پلیٹ فارم پر ہوں یا کہیں اور ہوں جہاں بھی اہل لوگ ہوں اور جو آپ کیلئے کچھ کرسکتے ہوں ان کو سپورٹ کریںیاد رکھیں ساری دنیا میں ترقی اور تبدیلی لوکل باڈیزکی بنیاد پر آیا کرتی ہے۔ اگرآپ نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا اورصحیح اور اہل لوگوں کو سامنے لیکر آئے تو مجھے یقین ہے کہ آپ کے مسائل فوری تو نہیں لیکن بتدریج چند سالوں میں حل ہوجائیں گے انشائ اللہ یہی علاقہ کراچی کیا پاکستان کیلئے ایک بہترین مثال پیش کرے گا۔آخر میں انہوں نے محبان پاکستان فا?نڈیشن کے منتظمین کو پروقارتقریب کے انعقادپر مبارکباد دی اور سراہا۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.