حسینہ معین آج 26 مارچ 2021 کو 79 سال کی عمرمیں کراچی میں انتقال کرگئیں

حسینہ معین 20 نومبر 1941 کو شمالی ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے کثیر آبادی والے شہر کانپور میں پیدا ہوئیں
حسینہ معین نے ریڈیو پاکستان، پی ٹی وی، پاکستانی اور بھارتی فلموں کے لیے لکھا اور بے شمار ملکی وغیرملکی ایوارڈز حاصل کیے
پی ٹی وی کی پہلی خاتون اناﺅنسر کنول نصیرکے انتقال کے ایک ہی دن بعد پاکستان کی ڈراما انڈسٹری کو شدیددھچکا

شخصیات ویب نیوز
جمعہ 11شعبان 1442ھ 26مارچ2021
رپورٹ : سلیم آذر

حسینہ معین 20 نومبر 1941 کو شمالی ہندوستان کی شمالی ریاست اتر پردیش کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر کانپور میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کی اور 1947 میں پاکستان کی آزادی کے بعد اپنے کنبے کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آ گئیں۔ کچھ عرصہ راولپنڈی میں مقیم رہی ، پھر لاہور چلی گئیں اور 1950 کی دہائی میں کراچی میں سکونت اختیار کرلی ، جہاں انہوں نے 1960 میں گورنمنٹ کالج برائے خواتین سے گریجویشن کی اور 1963 میں کراچی یونیورسٹی سے ماسٹر آف آرٹس کی سند حاصل کی۔

 حسینہ معین نے شادی نہیں کی تھی اس حوالے سے ان سے جب بھی سوال ہوتا تو وہ کہتی تھیں کہ ’کیریئر کی مصروفیت اور بہن بھائیوں کی ذمہ داریوں میں اس قدر مگن رہی کہ کب شادی کا وقت ہاتھ سے نکل گیا


حسینہ معین نے شادی نہیں کی تھی اس حوالے سے ان سے جب سوال ہوتا تو وہ کہتیں کہ ’کیریئر کی مصروفیت اور بہن بھائیوں کی ذمہ داریوں میں اس قدر مگن رہی کہ کب شادی کا وقت ہاتھ سے نکل گیا

لکھنے کا سلسلہ

حسینہ معین کے لکھنے کاسلسلہ تو ابتدا ہی سے شروع ہوگیا تھا، غالباً انھوں نے ساتویں جماعت سے قلم کاری شروع کردی تھی ۔ اسکول کی دیگر سرگرمیوں کے علاوہ اسکول میگزین کے لیے بھی وہ لکھتی تھیں۔ بعدازاں مقامی جریدے وال پیپر میگزین کے لیے بھی وہ ہفتہ وار کالم لکھا کرتی تھیں ۔ ان کے علاوہ ان کی بڑی بہن کو بھی لکھنے کا شوق تھا لیکن شادی کے بعد وہ اس شوق کو جاری نہ رکھ سکیں لیکن حسینہ معین بدستور لکھتی رہیں۔

ریڈیو پاکستان کے لیے پہلا ڈرامہ

ان کو شہرت اس وقت ملی جب انھوں نے باقاعدگی سے ریڈیو پاکستان کراچی کے اس وقت کے مشہور ڈرامہ پروگرام ”اسٹوڈیو نمبر 9“ کے لیے لکھنا شروع کیا۔
جب وہ کالج میں پڑھ رہی تھیں تو ریڈیو سے آغا ناصر نے کالج سے کچھ ڈرامے مانگے۔ ان کی اردو کی استاد نے حسینہ معین سے کہا کہ ’تم ڈرامہ لکھ کرانہیں بھیج دو۔ انھوں نے اپنی استاد سے کہا کہ ’مجھے تو ڈرامہ لکھنا آتا ہی نہیں۔‘ اس پر ٹیچر نے کہا کہ ’تم لکھ سکتی ہو، بس جو ذہن میں آتا ہے صفحے پر اتارتی جاو ¿۔‘
یوں حسینہ نے ’پٹڑیاں‘ کے نام سے ریڈیو کے لیے ایک ڈرامہ تیار کر لیا جسے نہ صرف بے حد پذیرائی ملی بلکہ ریڈیو کی طرف سے ایوارڈ بھی ملا۔ اس کے بعد آغا ناصر نے باقاعدہ ایک خط حسینہ معین کو بھیجا کہ تم اسٹوڈیونمبر9 کے لیے لکھا کرو۔ ا ±ن دنوں اسٹوڈیو نائن کے لیے لکھنا کسی بھی نئے لکھنے والے کے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھا اور حسینہ معین ،آغا ناصر کے اس خط کو کسی اعزاز سے کم نہ گردانتی تھیں۔
حسینہ معین نے اسٹوڈیو نمبر 9 کے لئے کچھ یادگار ڈرامے لکھے تھے۔

پی ٹی وی کی پہلی خاتون اناﺅنسر کنول نصیرکے انتقال کے ایک ہی دن بعد پاکستان کی ڈراما انڈسٹری کو شدیددھچکا

پی ٹی وی کی پہلی خاتون اناﺅنسر کنول نصیرکے انتقال کے ایک ہی دن بعد پاکستان کی ڈراما انڈسٹری کو شدیددھچکا

پاکستان ٹیلی وژن کے لیے پہلا کامیڈی ڈرامہ

پیشہ ورانہ طور پر انھوں نے درس وتدریس کا انتخاب کیا اور پڑھانے کا آغاز بھی کردیا اور پرنسپل کی سطح پر آگئی تھیں کہ پی ٹی وی کراچی سنیٹر میں اسکرپٹ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ افتخار عارف نے حسینہ معین کو فون کیا اور انہیں آئندہ آنے والی عید کے لئے ڈرامہ لکھنے کی پیش کش کی۔ ابتدا میں حسینہ گھبرا گئیں ، لیکن انہوں نے ایک ڈرامے کو قلمبند کرنے کی ہمت کی۔
تاریخ میں ماسٹرز کرنے والی حسینہ معین کو 1969 میں ٹی وی کے لیے لکھنے کی پیش کش ہوئی تھی۔ یہ پیش کش پاکستان ٹیلی وژن کراچی سنیٹر میں اسکرپٹ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ افتخار عارف کی طرف سے ہوئی تھی مگر اس میں جی ایم کراچی ٹی وی کی رضا بھی شامل تھی۔ انہوں نے حسینہ معین سے کہا کہ ’ریڈیو ڈرامہ بھول بھلیاں کو ٹی وی کے لیے بنا دیں۔‘ ان کا لکھا ڈرامہ ہٹ ہوا اور اس کے بعد 1971 میں عید کے لیے کامیڈی پلے عید مبارک لکھاجس کو ملک گیر شہرت حاصل ہوئی۔ اس کے بعد حسینہ معین نے مڑ کر نہیں دیکھا۔
پی ٹی وی کے لیے ”عیدمبارک“ ڈرامہ کی ہدایت کنور آفتاب احمد نے دی تھیں یوں ان کا بطور ڈرامہ نگار آغاز ہوا۔ ان کے لکھے ”عید مبارک ‘ ڈرامے میں نیلوفر علیم اور شکیل نے مرکزی کردار ادا کیا تھا جب کہ معاون کرداروں میں خالد نظامی اور عشرت ہاشمی شامل تھے۔ حسینہ معین کو ناول اور کتابوں سے کہانیاں لے کر ان کو اسکرپٹ کی شکل دینا زیادہ پسند نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے اوریجنل کہانی کا تصور متعارف کروایا اور پہلی کوشش ڈرامہ سیریل ’کرن کہانی‘ کی صورت میں کی جسے بہت پسند کیا گیا۔

کرن کہانی پاکستان ٹیلی وژن کا پہلا اوریجنل طبع زاد اسکرپٹ

انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن کا پہلا اوریجنل طبع زاد اسکرپٹ ”کرن کہانی“ 1970 کی دہائی کے اوائل میں تحریر کیا تھا۔ اس سے پہلے پی ٹی وی ناول پر مبنی اسکرپٹ پر بھروسہ کرتا تھا۔ اس وقت کے زیادہ تر لوگوں کو تجربے پر اعتماد نہیں تھا لیکن یہ محسن علی ہی تھے جنہوں نے انہیں لکھنے کی ترغیب دی اور آخر کار جب اس ڈرامے کا آغاز ہوا تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی اور آج تک یاد ہے۔ اس میں منظور قریشی ، بیگم خورشید مرزا ، قاضی واجد اور بہت سے دیگر فن کاروںکے ساتھ روحی بانو نے مرکزی کردار ادا کیا۔
انہوں نے جو ڈرامے لکھے ان میں پرچھائیاں، دھوپ کنارے، انکل عرفی، تنہائیاں، پل دو پل، دھند،بندش، تیرے آجانے سے، شہزوری، کرن کہانی، زیر زبر پیش، ان کہی، آہٹ، پڑوسی ،کسک،نیا رشتہ ،جانے انجانے ،انسو،شاید کہ بہار آجائے ،آئینہ ،چھوٹی سی کہانی دیس پردیس،میری بہن مایا و دیگر قابل ذکر ہیں۔
ان کا ڈرامہ دیس پردیس اسکاٹ لینڈ میں رہنے والے لوگوں کی زندگی اور انھیں درپیش مشکلات پر مبنی تھا۔
وہ قرةالعین حیدر،عصمت چغتائی، اشفاق احمد اور کرشن چندر جیسے لکھاریوں کو پسند کرتی تھیں۔ انہوں نے فلم کہیں پیار نہ ہوجائے کی کہانی کے علاوہ کئی فلموں کے مکالمے بھی تحریر کیے۔
حسینہ معین کے ایک ڈرامے گورایاجس کی ہدایتکاری شیرین خان نے دی تھی اور اس کی کاسٹ میں منظور قریشی ، شہلا احمد(انکل عرفی کی معروف بینا ) ، عذرا شیروانی اور راجو جمیل شامل تھے۔ اس ڈرامے کو ٹوکیو میں عالمی ٹی وی پلے فیسٹیول میں بہترین اسکرپٹ اور ہدایت کاری کاایوارڈ دیاگیا۔

حسینہ معین پاکستان کے پہلے رنگین ڈرامے کی مصنف

حسینہ معین پاکستان کے پہلے رنگین ڈرامے کی مصنف تھیں ، جن کا نام پی ٹی وی پر نشر کیا گیا ، یہ ڈرامہ پرچھائیاں تھا اس کی کاسٹ بہت بڑی تھی جس میں ساحرہ اور راحت کاظمی بھی شامل تھے۔ اس کی ہدایتکاری محسن علی نے دی تھی۔
ان کا ڈرامہ سیریل دھوپ کنارے 1987 میں نشر ہوا اور یہ پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی مشہور تھا۔

حسینہ معین کی اداکارائیں، بیگم خورشید مرزا اور عرش منیر کو خراج تحسین

ان کے ڈراموں میں متعدد اداکارائیں اور اداکارائیں اکثر دکھائی دیتی ہیں جیسے قاضی واجد ، شکیل ، راحت کاظمی ، طلعت حسین ، جمشید انصاری ، بہروز سبزواری ، آصف رضا میر ، نیلوفر علیم ، روحی بانو ، شہناز شیخ، مرینہ خان ، زیبا بختیار ، نادیہ خان ، نادیہ جمیل ، ثانیہ سعید ، بدر خلیل (انہوں نے حسینہ معین کے تمام بلاک بسٹر ڈراموں جیسے ان کہی ، تنہائیاں ، دھوپ کنارے وغیرہ میں کام کیا۔ ) ، عذرا شیروانی ، بیگم خورشید مرزا ، عشرت ہاشمی اور خالدہ ریاست سب نے بار بار ان کے ساتھ دو یا اس سے زیادہ ڈراموں میں کام کیا ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی وژن دونوں کی نہایت سینئر اداکارہ جن کے کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا لیکن وہ خراج تحسین کی مستحق ہیں کیوں کہ بیگم خورشید مرزا اورعرش منیر جیسے فنکار وں نے مشرقی ثقافت اور روایت کو زندہ کیا اور اردو کے ضرب المثل اور محاوروں پر مبنی مکالمے اس خوب صورتی کے ساتھ ادا کیے جس طرح 20 ویں صدی کے اوائل میں بڑی بوڑھی عورتیں بولا کرتی تھیں۔ انھوں نے ہمیں ہماری ثقافت ، تہذیب و

حسینہ معین نے ریڈیو پاکستان، پی ٹی وی، پاکستانی اور بھارتی فلموں کے لیے لکھا اور بے شمار ملکی وغیرملکی ایوارڈز حاصل کیے

حسینہ معین نے ریڈیو پاکستان، پی ٹی وی، پاکستانی اور بھارتی فلموں کے لیے لکھا اور بے شمار ملکی وغیرملکی ایوارڈز حاصل کیے

معاشرت یا د دلادی تھی۔

 

ایوارڈز

حسینہ معین نے بہت سارے ممالک کا دورہ کیا اور بے شمار ملکی اور غیر ملکی ایوارڈز

حاصل کیے ان میں 1987 میں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی شامل ہے ۔حکومت پاکستان نے انھیں پرفارمنگ آرٹس میں خدمات انجام دینے پرپاکستان کا اعلیٰ اعزاز دیا، یہ پاکستان کے اعلیٰ سول ایوارڈز میں سے ایک ہے۔ جب انہیں 1987 میں حکومت کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملا تو انہیں پہلی بار محسوس ہوا کہ ان کے اب تک کے کاموں کو صلہ اس ایوارڈ کی صورت میں مل گیا۔
اس کے علاوہ وومن آف دی ایئر کا ایوارڈ بھی وہ لے چکی ہیں۔ انہوں نے اپنے ڈرامہ گوریا کے لئے بہترین اسکرپٹ اور ہدایتکاری کے لئے ٹوکیو میں عالمی ٹی وی پلے فیسٹیول میں ایوارڈ بھی جیتا۔ وہ تقریبا ہر سال کے لکس اسٹائل ایوارڈ کے ساتھ ساتھ پی ٹی وی ایوارڈز بھی حاصل کرتی رہی ہیں۔

آج کے ڈراموں میں عورت کے امیج پر نالاں

حسینہ معین اس بات پر دل گرفتہ اور دل برداشتہ ہو گئی تھیں جب انہوں نے اپنے شہرہ آفاق ڈرامے ’تنہائیاں‘ کا دوسرا سیزن نجی ٹی وی چینل پر دیکھا۔
حسینہ معین نے ٹی وی ڈراموں میں کمرشل ازم آنے کے بعد لکھنا کم کر دیا تھا۔ انہیں اس بات کا گلہ رہتا کہ ڈراموں میں اب ہیروئن کو صرف شو پیس کے طور پر دکھایا جا رہا ہے اور ڈراموں کی کہانیاں صرف ڈرائنگ روم تک قید ہو کر رہ گئی ہیں۔ وہ کہتیں کہ اب ڈراما، ڈراما نہیں رہا جسے پورے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جائے۔
وہ آج کے ڈراموں میں عورت کے دکھائے جانے والے امیج پر نالاں تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ ’عورت کو کمزور دکھایا جا رہا ہے، روتی پیٹتی مار کھاتی ہر بات پر قربانی دیتی عورت اس معاشرے کی عکاسی نہیں کرتی۔ ہماری عورت بہت بہادر ہے وہ ایسی تو کمزور نہیں جیسی ڈراموں میں دکھائی جا رہی ہے۔

حسینہ معین نے شادی کیوں نہیں کی

حسینہ معین نے شادی نہیں کی تھی اس حوالے سے ان سے جب بھی سوال ہوتا تو وہ کہتی تھیں کہ ’کیریئر کی مصروفیت اور بہن بھائیوں کی ذمہ داریوں میں اس قدر مگن رہی کہ کب شادی کا وقت ہاتھ سے نکل گیا پتا ہی نہیں چلا لیکن مجھے اس پر کوئی افسوس یا پچھتاوا نہیں۔

انتقال

حسینہ معین 26 مارچ 2021 کو 79 برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئیں۔ وہ خود تو چلی گئیں لیکن ان کے تحریر کردہ سبق آموز ڈرامے ہمیشہ ان کے پرستاروں کے دِلوں میں ان کی یاد کو زندہ رکھیں گے۔
ان کے انتقال پرعام افراد کے علاہ ان کے ڈراموں سے جڑی شخصیات ،ان کے انتقال پرعام افراد کے علاہ ان کے ڈراموں سے جڑی شخصیات ، سیاستدانوں اور صحافیوں نے بھی گہرے دکھ کا اظہارکیا ہے ، سیاستدانوں ، صحافیوں اور مداحوں نے گہرے دکھ کا اظہارکیا ہے۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.