صبیحہ صبا ، خوش جمال،خوش خصال اورافکارجدیدہ کی شاعرہ نسائی شاعری میں منفرد آواز

صبیحہ صبا نے نسائی شاعری میں ادا جعفری ، پروین شاکر سے لے کرعہدِ حاضرمیں فہمیدہ ریاض ، کشور ناہید ،ڈاکٹر فاطمہ حسن ، شاہدہ حسن تک فکر اور اسلوب سے انفردیت پیدا کی ہے

عصرِ حاضر کے واقعات و حادثات ان کے شعور و وجدان کا تجر بہ اور ان کے تخلیقی عمل کا حصہ ہیں جن سے وہ اپنی تخلیقی شاعری میں نت نئے رنگ بھر رہی ہیں

ہمیں عورتوں کی جداگانہ تخلیقی آواز،ان کے طرز فکر اور طرز احساس کو بطور خاص اہمیت دینا ہوگی

ڈاکٹر نزہت عباسی/رضاالحق صدیقی

صبیحہ صبا کا نام ذہن میں آتے ہی بادِ صبا کے خوشگوار ، خوشبودار جھونکے کا احساس ہوتا ہے ۔ وہ اپنے نام کی طرح صبیح بھی ہیں اور صبا بھی ، لطافت و نفاست ان کی شخصیت کا خاصا ہے ۔وہ ایک خوش جمال ، خوش خصال ، خوش فعال ، خوش مقال خاتون ہیں ، شاعری ان کی فطرت میں رچی بسی ہے اور ان کی شخصیت کا تعارف اور بنیادی حوالہ قرار پاتی ہے ۔ ان کی شاعری ان کی خوب صورت شخصیت اور خوب صورت فکر کا اثبات ہے ۔ صبیحہ صبا ادبی لحاظ سے بہت فعال ہیں ۔ اردو منزل ڈاٹ کام کی مدیرہ اعلیٰ ہیں ۔ پانچ شعری مجموعے ان کی پختگی ¿ فن کا شاہکار ہیں ۔ ہر شعری مجموعے کا رنگ زندگی کے متنوع رنگوں کی طرح مختلف ہے۔انہوں نے زندگی کے بے شمار رنگوں سے اپنی شاعری کو سنواراہے ۔

تخلیقِ ادب اظہارِ ذات و کائنات و تشکیل و تعمیرِ ذات و کائنات ہے ۔ اور جب ہم اس ضمن میں یعنی اردو کی نسائی شاعری کے حوالے سے بات کریں تو ادا جعفری ، پروین شاکر سے لے کر عہدِ حاضر میں فہمیدہ ریاض ، کشور ناہید ،ڈاکٹر فاطمہ حسن ، شاہدہ حسن سے لے کر صبیحہ صبا تک میں سمجھتی ہوں کہ سکہّ رائج الوقت کا درجہ پاچکی ہیں، فکر اور اسلوب سے انفردیت پیدا کی ہے ۔

صبیحہ صبا ، نسوانی شاعری میں منفرد اور مضبوط لہجے کی شاعرہ

صبیحہ صبا ، نسوانی شاعری میں منفرد اور مضبوط لہجے کی شاعرہ

ہماری اردو شاعری کی تاریخ عورتوں کی شاعرانہ فکر سے آراستہ ہے ۔ ہمارے استحصالی معاشرے میں جب بھی اسے موقع ملا اس نے اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور میں سمجھتی ہوں کہ اکیسویں صدی کی عورت جتنی تعلیم یافتہ اور باشعور ہے اس سے پہلے تاریخ میں کبھی نہیں تھی ۔ صبیحہ صبا بھی ان خواتین میں ہیں جو آج کے زمانے کی عورت کی فکر کو سامنے لارہی ہیں ۔وہ عورت کو ایک نسائی اور معاشرے کا فرد سمجھتے ہوئے اس کے تشخص اور اسکی نفسی انفرادیت کو تسلیم کرواتی ہیں۔

    سو کھل جاتے ہیں سارے بھید مجھ پر

    میں جب دل کا دریچہ کھولتی ہوں

ان کی شاعری کی عورت ایک ذہین اور باشعور عورت ہے جس کے اپنے تجربات اور مسائل ہیں ، روحانی تنہائیاں اور احساسات و جذبات کی شکستگی بھی ۔

    صلیبِ وقت پر لٹکی ہوئی ہوں

    میں اپنا درد خود سے بانٹتی ہوں

    یہ میرا وقت میرا آئینہ ہے

    میں اس حیرت کدے میں جھانکتی ہوں

انہوں نے صرف عورت ہی کے ذہنی اور روحانی کرب کو پیش نہیں کیا بلکہ وہ اپنے عہد کے حالات سے بھی بخوبی واقف ہیں ، اپنی تہذیب ، معاشرت ، سیاست ، قومی و بین الاقوامی معاملات و مسائل سے بھی آگاہ ہیں۔

    میرے ماحول میں جو تلخی ہے

    اس کا سارا وبال غزلوں میں

میں صبیحہ صبا کو اس لحاظ سے خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ انہیں اپنے شریکِ حیات صغیر احمد جعفری کی مکمل سپورٹ حاصل ہے ، ورنہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ اگر ایک گھر میں شوہر کے ساتھ بیوی بھی ادب سے وابستہ ہو تووہ کوفت محسوس کرتے ہیں بلکہ بیوی اگر شوہر سے اچھا لکھ رہی ہو تو وہ حسد محسوس کرتے ہیں بلکہ اس کی برتری تسلیم ہی نہیں کرتے ، مرد بیوی کی ادبی آزادیوں کو پوری طرح قبول نہیں کرتے۔ ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ مگر دوسری طرف صبیحہ صبا اور صغیر احمد جعفری کی بھی مثال ہے ۔

صبیحہ صبا کی شاعری میں موضوعات کی وسیع فکری دنیاموجود ہے۔ عصرِ حاضر میں ہونے والے سارے واقعات و حادثات پر ان کی گہری نظر ہے۔اور یہ ان کے شعور و وجدان کا تجربہ بن کر ان کے تخلیقی عمل میں جذب ہوکرشعر کی صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں وہ اپنی تخلیقی شاعری میں نت نئے رنگ بھر رہی ہیں ۔

کیا یہ دنیا برائے دنیا ہے

یا کوئی انتہائے دنیا ہے

ان کا غزلیہ آہنگ بہت مترنم ہے چھوٹی اور طویل بحروں میں یکساں موسیقیت اور نغمگی ہے۔

جو سبھی کے دل پہ گزری وہ سبھی ہے اس میں لیکن

میری داستاں الگ ہے میری داستاں کے اندر

وہی میری وجہ عروج تھا وہی میری وجہ زوال تھا

وہی وجہ رنگ ِ طرب رہا۔ وہی وجہ رنگِ زوال تھا

وطن سے محبت کا اظہار بھی کئی جگہ موجود ہے۔یہ پردیس میں رہنے والوں کا ایک سچا جذبہ ہے جو صبیحہ صبا کے کلام میں بھی نظر آتا ہے

وطن سے مہر و وفا ،جسم و جاں کا رشتہ ہے

وطن ہے باغ تو پھر باغباں کا رشتہ ہے

وطن سے دور رہیں یا وطن میں بس جائیں

یہ مہر باں سے کسی مہر باں کا رشتہ ہے

وطن پرجان نثار کرنے والے شہیدوں کے بارے میںلکھتی ہیں

وہ سرحدوں کے مسافر وہ آبروئے وطن

 وہ جاں نثار گئے ،جاں نثار کرتے ہوئے

صبیحہ صبا کی شاعری احساس دلا رہی ہے ۔ اور یہ باور کرا رہی ہے کہ اگر ہم اپنے بدلتے ہوئے گردو پیش ، عالمی سطح پر وقوع پذیر ہونے والی انفرادی اور اجتماعی تبدیلیوں کو سمجھنا چاہتے ہیں اور اس حوالے سےانسانی ردعمل کو بھی پرکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں عورتوں کی جداگانہ تخلیقی آواز،ان کے طرز فکر اور طرز احساس کو بطور خاص اہمیت دینی ہوگی۔

 صبیحہ صبا نے زندگی کے ہر موسم کو خوب صورتی سے شاعری میں بیان کیا ہے

یہ کیوں اندر کا موسم اور ہے باہر کے موسم سے

کہ جب رونق ہے ہر جانب تو ہم بےزار ملتے ہیں

 صبیحہ صبا کا یہ شعر اعلان ہے کہ شاعری کی واحد اساس دکھ ہے۔ دکھ ہی وہ مظہر ہے جو انسانوں کے مابین قابل عمل رشتوں کی بنیاد بن سکتا ہے۔ یہ رشتے ذات کے دکھ کے حوالے سے سماجی دکھ کی تفہیم میں معاون بنتے ہیں۔شاعری کا موسم لکھنے والے کے اندر کا موسم ہے۔ جب کبھی انسان کے اندر کا موسم معروضی حالات کے تحت جسم و جاں میں شورش بپا کرتا ہے تو یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جب شاعری جنم لیتی ہے اور یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جب انسان کے اندر سے ایک چیخ برآمد ہوتی ہے اور یہ لمحات ہوتے ہیں دکھ کے، اداسی کے ۔

چہرے کا ہر کرب دکھائی دیتا ہے

خاموشی کا شور سنائی دیتا ہے

خاموشی کا شور سننے کی کیفیت کا سچا باطنی تجربہ ایک پوری محسوس کیفیت بن کر سامنے آتا ہے، اس میں جذب اور احساس کی صداقت بھی ہے اور بیان کی تازہ کاری بھی۔

چلے جب بھی درد کے قافلے میرے چارہ گر میرے دیدہ ور

وہ جو درد سہنا محال تھا وہ جو سہہ گئے تو کمال تھا

کوئی بے حسی کے جہان میں کوئی درد ِدل کی اٹھان میں

کوئی اپنی دھن میں مگن رہا کوئی اپنے غم سے نڈھال تھا

کسی سانحے سے گذر ہوا سبھی وحشتوں کا اثر ہوا

ذرا نسل نو کا خیال کر ، دل غم زدہ کا سوال تھا

صبیحہ صبا کی شاعری کا ایک رنگ تو یہ ہے جس کا ذکر میں نے کیا لیکن ان کی شاعری کا دوسرا رخ اس حزن و یاس کے برعکس ہے جہاں وہ انقلابی فضا کی عکاس نظر آتی ہیں، یہ وہی فضا ہے جسے فیض احمد فیض کی شاعری نے نمایاںتبدیل شدہ ادبی رحجان دیا جس کی تقلید اس وقت کے نوجوان شعرا نے کی تھی لیکن اہم بات یہ ہے کہ کہ اس رحجان کی تقلید میںخواتین شعرا نظر نہیں آتیںان کے ہاں رومانی شاعری کا عنصر زیادہ ہوتاہے۔صبیحہ صبا جب یہ کہتی ہیں کہ

میرے لفظوں کی وہ گرفت میں ہے

اس کو اندر غزل کے دیکھ لیا

میرا چہرہ ہے آئینہ میرا

میں نے خود سے نکل کے دیکھ لیا

جب وہ خود سے نکل کر دیکھتی ہیں تو معاشرے کے دکھ درد اور آلام انہیں بغاوت پر مجبور کر دیتے ہیںاور یہ وہی رحجان ہے جو فیض احمد فیض ،احسان اور حبیب جالب کے ہاں پایا جاتا ہے۔

صرف ریشم نہیں تلوار بھی ہو سکتے ہیں

یہ جو مظلوم ہیں خونخوار بھی ہو سکتے ہیں

میرے شہروں میں قیامت سی مچانے والے

ہاتھ باندھے پسِ دیوار بھی ہو سکتے ہیں

آج بے وقعت و بے در ہیں پریشان سے لوگ

کل یہی وقت کے سردار بھی ہو سکتے ہیں

صبیحہ صبا کی شاعری کی اٹھان پنجاب کے شہر ساہیوال سے ہوئی۔ پنجاب کا خاص کلچر اور گھر کے ادب دوست اردو ماحول نے ان کی شاعری کو جہاں لطیف نازکی بخشی وہیں تجربات و مشاہدات کے معتدلانہ عمل نے پنجاب کے اجتماعی مزاج کی خوشبو کے رنگ ان کی شاعری میں بکھیر دیے۔ان کے شریک حیات سید صغیر احمد جعفری کی ادب دوستی نے بھی ان کی شاعری کو جلا بخشی۔ صبیحہ صبا آج کے دور کی حساس شاعرہ ہیں ان کی یہ حساسیت ان کی شخصیت اور شاعری دونوں میں جھلکتی ہے۔ان کی شاعری کے پس منظر میں ان کے ذہنی رویوں کا عکس نمایاں ہے۔

چپ چاپ فضا ہے کوئی ہلچل بھی نہیں ہے

کیا کوئی یہاں درد سے بے کل بھی نہیں ہے

بے حس ہیں یا ظالم کی حمایت میں کھڑے ہیں

پیشانی پہ حیرت ہے کہ اک بل بھی نہیں ہے

سانسوں کو بھی چلنے کی اجازت نہیں دیتے

کیا جبرِ مسلسل کا کوئی حل بھی نہیں ہے

 صبیحہ صبا بات کرنے کا ہنر جانتی ہیں لیکن کبھی کبھی ان کا لب و لہجہ ان کے اندرونی کرب کی غمازی کرتا ہے

سفاکی کا زہر انڈھیلا جاتا ہے

انسانوں کے خون سے کھیلا جاتا ہے

اپنی سوچ سے کام نہ لینے والوں کو

پستی میں کچھ اور دھکیلا جاتا ہے

لوگ ذرا سی ہمدردی کر جاتے ہیں

کرب کو اپنے خود ہی جھیلا جاتا ہے

اڑان خوب تر ہوئی جو پنچھیوں کی ڈار کی

تو گھیر گھار کر کسی نے زیر دام کر دیا

انتظارِ محشر کیا کیجئے یہاں ورنہ

زندگی کو آیا ہے بڑھ کے خود سزا دینا

صبیحہ صبا کی شاعری میں ایک ایسی جاذبیت اور کشش ہے کہ پڑھنے والا اپنے من میںجہاں ایک کسک محسوس کرتا ہے وہیں اس دھرتی کی مٹی سے اٹھنے والی سوندھی سوندھی خوشبو کو بھی محسوس کرتا ہے۔ صبیحہ صبا نے اپنے اسلوبِ شعر کی تشکیل میں اپنے عہد کے مزاج کو ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔

صبیحہ صبا کا سب سے اہم موضوع ہماری سیاسی، معاشی اور معاشرتی زندگی، اس کے مسائل و مصائب کے حوالے سے ہے یہاں بھی ان کا انداز ایک درد مند دل رکھنے والے ذی روح کا سا ہے۔

یقین رکھ سبھی منظر بدلنے والے ہیں

قدم ملا کے سبھی ساتھ چلنے والے ہیں

ستم کو سہہ کے کہاں تک رہے گی خاموشی

یہی وہ لوگ جو طوفاں میں ڈھلنے والے ہیں

انہیں تو دھوپ بھی پگھلا نہیں سکتی

کسی کی یاد کے صحرا میں جلنے والے ہیں

ذرا سی ہمت و جرا ¿ت سے کام لینا ہے

ہمارے سر سے یہ طوفان ٹلنے والے ہیں

صبیحہ صبا الفاظ سے تصویر کشی کرتی ہیں اور جس ماحول میں سانس لے رہی ہیں اور معاشرے کی جو تصویر دیکھتی ہیں اسے اپنے داخلی جذبات اور احساسات کی روشنی میں جلا دے کر قرطاس پر بکھیر دیتی ہیں۔

کسی بھی شاعر کا مطالعہ کیجئے اس کے ہاں ذات ہے یا کائنات، ہر شاعر نے اپنا کینوس خود بنایا ہے جو کہیں چھوٹا ہے کہیں بڑا۔اس قدر و قیمت کا انحصار شاعر کی فکر اور اس کے علم پر ہے۔صبیحہ صبا کو شروع سے ایک استوار فکر ملی۔مرد شاعری کرتے ہیں تو ان کو بھی اپنی ذات میں جھانکنا پڑتا ہے۔ صبیحہ صبا نے بھی من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پایا ہے۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.