سعدیہ سراج نمایاں شاعرہ ہی نہیں، عالمہ، مصنفہ، صحافی، ڈرامہ رائٹر، موٹیویشنل اسپیکر بھی ہیں

سعدیہ سراج  ادبی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں، وہ شعری ادب خصوصاً شاعرات میں نمایاں اور معتبر نام ہیں

شخصیات ویب نیوز

24مئی 2023 بدھ 3  ذی القعدہ 1444ھ

تحریر: سلیم آذر

سعدیہ سراج پاکستان کے ادبی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ، وہ پاکستان کے شعری ادب خصوصاً شاعرات میں نمایاں اور معتبر   نام ہیں۔ ان کا اصل نام سعدیہ کوثر ہے لیکن وہ سعدیہ سراج کے نام سے معروف ہیں اور یہی ان کا قلمی نام بھی ٹھہرا۔ وہ متنوع تخلیقی خوبیوں کی مالک ہیں اور صرف شاعرہ ہی نہیں مکمل عالمہ، مصنفہ، صحافی، ڈرامہ رائٹر، موٹیویشنل اسپیکر بھی ہیں۔

سعدیہ سراج 3 اگست کو سکھرکے ایک علمی وادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کا خاندان علم و ادب کے علاوہ عوامی خدمت ،سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی معروف تھا۔ ان کے والد ریاض الدین خاں اردو اور فارسی سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ والدہ صبیحہ خانم برصغیر کی اولین رضاکار خواتین میں شامل تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعدیہ سراج عوامی خدمت اور سماجی کاموں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔

سعدیہ سراج اپنے عہد کے سب سے مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے انتڑویو کررہی ہیں

سعدیہ سراج اپنے عہد کے سب سے مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے انتڑویو کررہی ہیں

 سعدیہ سراج کے دس بہن بھائی ہیں، ان کا نمبر ساتواں ہے،چھ ان سے بڑے اور تین چھوٹے ہیں۔وہ پیدا تو سکھر میں ہوئیں مگر ان کا تعلق سندھ کی معروف و محترم شخصیت پیر صاحب پگارا کے علاقے پیر جو گوٹھ کے ایک زمیںدار گھرانے سے ہے۔وہ پیرجو گوٹھ میں اپنے والد ریاض الدین خاں کے ساتھ رہتی تھیں اور وہیں سے میٹرک پاس کیا جب کہ بی ۔اے انھوں نے گورنمنٹ گرلز کالج سکھر سے کیا۔

ابھی وہ کم عمر ہی تھیں کہ ان کی شادی ہوگئی اور وہ پیا کے ساتھ سعودی عرب منتقل ہوگئیں اور 2012ءتک وہیں مقیم رہیں۔ان کے سب بچوں کی پیدائش سعودی عرب ہی میں ہوئی۔ سعدیہ سراج کو سیاحت کا فطری شوق ہے ، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے چوتھائی صدی سعودیہ میں قیام کے دوران سعودی عرب کا چپہ چپہ دیکھ ڈلا۔ آج وہ پاکستان کے سیاحتی مقامات کے بارے میں جتنا جانتی ہیں اس سے کہیں زیادہ سعودی عرب کے بارے میں آ گہی رکھتی ہیں۔ عربی سے آگہی نے انھیں سعودی عرب اور وہاں کے لوگوں کو سمجھنے میں بہت مدد کی۔ اس حوالے سے سعدیہ نے متعدد مضامین اور کالم لکھے جنھیں پڑھ کر ہمیں سعودی عرب کے حوالے سے دلچسپ اور مفید معلومات حاصل ہوتی ہیں

سعدیہ سراج معروف شاعرہ ریحانہ روحی کے ساتھ ، پیار کا ایک انداز

سعدیہ سراج معروف شاعرہ ریحانہ روحی کے ساتھ ، پیار کا ایک انداز

 شعر گوئی اورنثرلکھنا سعدیہ سراج نے اوئل عمری سے ہی شروع کردیا تھا۔ اردو کے بین الاقوامی شاعر نصیر کوٹی سعدیہ سراج کے رشتے کے چچا ہیں اور وہی ان کے پہلے استاد بھی تھے۔جناب نصیر کوٹی ان کے گھر پر اکثر مشاعرے منعقد کیا کرتے تھے۔ اس ادبی ماحول نے سعدیہ کے فطری شعری ذوق کو بیدار کیا اور جب انھوں نے شاعری شروع کی تو اپنا کلام اپنے چچا نصیر کوٹی کو ہی دکھایا اور داد پائی۔ نصیر کوٹی کی ہمت افزائی نے سعدیہ سراج کی نہ صرف شاعری کوچار چاند لگا دیے بلکہ انھیں اس طرح متحرک کردیا کہ وہ اسکول و کالج میں ڈرامیٹک سوسائٹی کی کرتا دھرتا رہیں، انھوں نے گلوکاری اور نعتیہ مقابلوں کے ساتھ ساتھ متعدد ڈراموں میں بھی خوب حصہ لیا۔

 نصیرکوٹی ان کے پہلے استاد تھے مگر سعدیہ سراج نے اپنے کلام کی اصلاح اپنے والد ریاض الدین خان سے لی اور انہی کی رہنمائی میں انھوں نے شعرگوئی کا سفر طے کیا۔ اپنی تعلیم ،لکھنے پڑھنے کی ا پنی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ وہ عوامی خدمت اور سماجی و فلاحی کاموں سے کبھی غافل نہ رہیں جس کا جذبہ ان کی والدہ سے ان کے اندر منتقل ہوا ۔

 سعدیہ سراج طویل عرصہ حرمت والے شہر جدہ میں اپنے شوہر اوربچوں کے ساتھ مقیم رہیں۔ دیارغیر میں رہنے اور عربی زبان سے واقف ہونے کے باوجود اردو سے محبت ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ انھوں نے جدہ میں ایک ادبی و ثقافتی تنظیم”ادبی اجالا“ قائم کی اور اس تنظیم کے تحت متعدد ادبی تقریبات اور مشاعروں کا انعقاد کیا۔

سعدیہ کے ساتھ شعرگوئی یا کوئی نثری تحریر لکھنے کے حوالے سے ایک عجیب بات ہے۔ جب بھی ان کے ذہن میں کوئی تصور یا خیال جنم لیتا ہے تو وہ اضطراب کا شکار ہو جاتی ہیں، ان کے اندر عدم تحفظ کا سا احساس بھی ابھرنے لگتا ہے اور جب وہ شعر مکمل کرلیتی ہیں یا اپنا خیال سپرد قلم کردیتی ہیں تو ان کے اندر تحفظ و تسکین کا انوکھااحساس اوراپنی ذات کا ایسا شعور جنم لیتا ہے جو ان کیوشخصیت کو منفرد اور دلآویز بنا دیتا ہے۔ اپنے اس احساس کے حوالے سے وہ کہتی ہیں کہ پہلے میں سمجھتی تھی کہ یہ کیفیت بچپن کی وجہ سے ہوتی ہے مگروقت کے ساتھ ساتھ یہ کیفیت اب جنون کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ تخلیق ہی میرا تحفظ ہے۔

سعدیہ سراج کی صحافت کا آغاز سعودی عرب میں قیام کے دوران جدہ سے نکلنے والے اخبار اردو نیوز اور اردو میگزین میں لکھنے سے ہوا۔ بعدازں انھوں نے روزنامہ جنگ، نوائے وقت ، اوصاف اور دیگر اخبارات و میگزین میں بھی تسلسل سے مضامین اور کالم لکھے۔ وہ ان تمام مضامین اور کالمز کو کتابی صورت میں ”حرف نایاب “ کے نام سے شائع کرنے کی تیاری کررہی ہیں۔ آج کل وہ ماہ نو میں بطور فری لانسر کام کررہی ہیں۔

سعدیہ سراج پاکستان کی معروف شاعرہ صبیحہ صبا کے ساتھ خوش گپیاں کررہی ہیں

سعدیہ سراج پاکستان کی معروف شاعرہ صبیحہ صبا کے ساتھ خوش گپیاں کررہی ہیں

 چوتھائی صدی سے زائد عرصہ سعودی عرب میں گزارنے کے بعد جب سعدیہ سراج وطن واپس آئیں تو وطن ان کے لیے پردیس کی طرح لگا۔ حساس تو وہ پہلے ہی تھیں اس لیے وہ کافی دن اس کیفیت میں رہیں جیسے سعودی عرب ان کا وطن تھا جسے ترک کرکے وہ پردیس میں آن بسی ہیں۔یہاں ہم آہنگ ہونا ان کے لیے مشکل ہوگیا۔ وطن میں آب وہوا، موسم اور لوگوں کے رویے سمیت ہرچیز سعودی عرب سے مختلف تھی لہٰذا یہاں ایڈجسٹ ہوناان کے لیے مشکل ہوگیا اور صرف ذہنی اعتبار سے ہی یہاں رہناا مشکل نہیں تھا بلکہ سماجی اعتبار سے بھی دشوار تھادونوں ملکوں کی معاشرت میںبھی زمین آسمان کا فرق تھا، اس کے علاوہ امن وامان کے فرق کی وجہ سے یہاں رہنا ان کے لے آزمائش سے کم نہیں تھا۔ آئے دن چوری ، ڈکیتی اور قتل کی وارداتوں کی خبروں نے ان کے اندر عدم تحفظ کا احساس شدید تر کردیا تھا۔اس پر طرہ یہ کہ خود ان کے ساتھ ایک سنگین حادثہ رونما ہوگیا جس نے انھیں ہلا کر رکھ دیا ۔

سعدیہ سراج کا پہلا مجموعہ کلام بھنور میں رقص

سعدیہ سراج کا پہلا مجموعہ کلام بھنور میں رقص

 سعدیہ مثبت انداز فکر کی مالک ہیں۔ یہ سوچتی ہیں کہ میں نے کسی کے برا نہیں کیا لہٰذ ا میرے ساتھ بھی کوئی برا نہیں کرے گا۔ مگر وہ بھول گئی تھیں کہ جن کا کام ہی لوٹ مار ، دوسروں کے ساتھ برا کرنا اور انھیں نقصان پہنچانا ہے وہ اس سوچ پر عمل نہیں کرتے۔ان کے ساتھ بھی ان کی سوچ کے مطابق اچھا نہیں ہوا۔ پاکستان واپس آنے کے صرف چند ہی ہفتوں بعد ان کے گھر میں ڈکیتی پڑی۔ ڈاکو گھر کا سب سامان، قیمتی کپڑے، برتن، سونے چاندی کے زیورات، نقدی اور سارا اثاثہ لوٹ کر لے گئے، سعدیہ کہتی ہیں کہ وہ لٹیرے کون تھے، میں نہیں جانتی مگر ان کے انداز اورگفتگو لگتا تھا کہ وہ نہ صرف ہمیں جانتے ہیں بلکہ وہ ڈاکو ہمارے بارے میں سب ہی کچھ جانتے ہیں۔ انھوں نے گھر کے کونے کونے سے ایک ایک چیز سمیٹ لی اور ہمیںبالکل خالی کردیا ۔ سب کچھ لوٹ کر لے گئے۔

 میںنے اپنی دوست یاسمین طہ (معروف صحافی) کو فون کیا اورروتے ہوئے اس واقعے کا ذکرکیا تو انھوں نے کہا کہ سعدیہ آپ اس بارے میں لکھیں، میں لکھنا چاہ رہی تھی اور میں نے لکھا بھی مگر مجھے شرم آ رہی تھی کہ اپنے وطن کے بارے میں ایسی بات لکھوں لیکن یاسمین طہ نے اصرار کیا کہ سعدیہ وطن واپس آنے کے بعد آپ کے ساتھ جوکچھ بیتی ہے سب تفصیل سے لازمی لکھیں اور دوسروں کو اس سے آگاہ کریں۔ وہ سوچتی ہیں کہ جس کا زندگی بھر کا اثاثہ لٹ جائے وہ کسی کو آگاہ بھی کرے تو کیا ہوگا۔ بس اب دیس کیا پردیس کیا ۔

 سعدیہ سراج کی ایک شعری تصنیف “بھنور میں رقص” منظر عام پر آکر قارئین کو گرویدہ بنا چکی ہے، اور اب ان کی دوسری تصنیف “حرف معتبر ” زیر طبع ہے توقع ہے کہ جلد قارئین کے ہاتھوں میں ہوگی۔

سعدیہ سراج کے نئےکلام کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں

کربِ نسوانیت

نظم

سعدئی سراج

سعدیہ سراج

کتنے سمندر خشک ہوئے

کتنے ستارے ڈوب گئے

کتنے چمن برباد ہوئے

کتنے فخر گمنام ہوئے

اور

کس کی ردا نیلام ہوئی

سر سر کرتی خاموش ہوا

ہر بار گذر کیوں جاتی ہے

تھم جایا کر

رک جایا کر

کچھ شور مچا کے جایا کر

طوفان اٹھا کے جایا کر

تہمت کے کماں کو

تیروں کو

تو واپس بھی لوٹایا کر

اس دنیا کے فرعونوں کو

بے رنگ و نسب گمنام بھی کر

تاکہ یہ تماشہ روز نہ ہو

مٹی کا خدا منہ زور نہ ہو

٭٭٭٭٭

بھنور میں رقص

نظم

کچھ اس طرح سے ہم نے

اتارے بھنور میں پاﺅں

پانی میں رقص کر کے

بھنور میں سفر کیا

پھر یوں ہوا کہ پاﺅں

بھنور میں ہی رہ گئے

٭٭٭٭

نئے خواب کیسے دیکھوں

نظم

عمر رواں سے کچھ بھی شکایت نہیں مجھے

لیکن یہ سوچ کر ہی تھکن ہو رہی ہے اب

کیسے شمار ہوں گے میرے بے شمار خواب

تکیہ کے نیچے خواب چھپاتی تھی رات کو

انبار اس قدر ہے کہ سونا محال ہے

آنکھوں کا احتجاج

تقاضہ یہ مجھ سے ہے

پہلے گنوں وہ خواب جو تکیہ میں دفن ہیں

لیکن یہ سوچ کر ہی تھکن ہو رہی ہے اب

کیسے شمار ہوں گے میرے

بے شمار خواب

محبت بس محبت ہے

نظم

محبت بس محبت ہے

دلوں میں یہ دھڑکتی ہے

رگوں میں یہ مچلتی ہے

کبھی سونے نہیں دیتی

کبھی رونے نہیں دیتی

کبھی ہنسنے یہ آ جائے

تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

محبت کی بدولت

کھردرے رستے بھی

ریشم و اطلس اور

کمخواب لگتے ہیں

٭٭٭٭

 Locker

نظم

میں نے رو کے سجدے میں

خدا سے التجاءکی ہے

عطا کردیجئے Locker

مجھے اس کی ضرورت ہے

میں اس میں ان گنت

تحفے دعاﺅں کے

ذخیرہ کرنا چاہتی ہوں

میں ہر بچے کو ورثے میں

دعاﺅں کا خزانہ دے کے

جانا چاہتی ہوں

کہ وہ، حسب ضرورت، دعائیں

میرے Locker سے، جب چاہیں نکالیں

انہیں احساس تک نہ ہو، انہیں یہ یاد تک نہ ہو

کہ ان کی ماں نہیں اب درمیاں ان کے

غزل

سعدئی سراج

دانستہ تم بھی زندگی آساں نہ کر سکے

دل بستگی کا کوئی بھی ساماں نہ کر سکے

میرا ہی کیوں تھا وعدہ نبھانے کا امتحاں

تم بھی تو اپنی زلف پریشاں نہ کر سکے

ان کا خیال دل سے نکالیں گے کس طرح

نظریں چرائیں، دل سے گریزاں نہ کر سکے

تھا تیرگی حبس جلایا تھا جب چراغ

وہ آندھیاں چلیں کہ چراغاں نہ کر سکے

اے تمکنت عشق اب تجھ پر ہے منحصر

کہ بادشاہِ ذر تجھے، ارزاں نہ کر سکے

٭٭٭٭

غزل

جب اعتبار تک گیا

یقیں گمان شک گیا

اک اجنبی خیال سے

قلم بہک بہک گیا

میری زباں سے میرا دکھ

پھر آسمان تک گیا

قدم بھی ہمقدم نہ تھے

سفر بھی جیسے تھک گیا

نظر تمہاری کیا اٹھی

کہ جام سا چھلک گیا

تیری کماں کا تیر تھا

اتر کے جاں تلک گیا

ہنسی میں کیا تھا سعدیہ

وہ جھینپ کر جھجھک گیا

٭٭٭٭

غزل

اکیلا جو ہے وہی کارواں سے ملتا ہے

یہ اتحاد بھی اردو زباں سے ملتا ہے

جھلک ستارہ سحری بھی اور شب دیجور

کوئی اشارہ مجھے آسماں سے ملتا ہے

میں ایک شمع کی مانند جل گئی دی شب

اجالا اس لئے میرے مکاں سے ملتا ہے

خدا کرے کہ نہ ہل من مزید وہ بھی سنے

قرار جس کو ستم سے فغاں سے ملتا ہے

محبتوں کو بھلا وہ دوام کیا دے گا

جسے یقین بھی اپنے گماں سے ملتا ہے

جسے طلب ہے سلیقے سے مانگ لے کیونکہ

اگر طلب ہو تو دونوں جہاں سے ملتا ہے

غزل

میں اب اتنی اکیلی ہوگئی ہوں

کہ خود اپنی سہیلی ہوگئی ہوں

کوئی آسیب مجھ میں بس گیا ہے

میں جنگل کی حویلی ہوگئی ہوں

تو مجھ کو سوچنا اب زندگی بھر

میں اب ایسی پہیلی ہوگئی ہوں

تیرا غم پیراہن جب سے کیا ہے

میں کتنی نئی نویلی ہوگئی ہوں

وفا کو اس طرح مانگا ہے تجھ سے

بھکارن کی ہتھیلی ہوگئی ہوں

تیرے آنے کا سن کر سعدیہ میں

ہوا، خوشبو، چنبیلی ہوگئی ہوں

٭٭٭

نیند لازم ہے

نظم

میری نیندوں سے حسیں

میرے خیالوں سے قریں

دلربا لوگ جنہیں حسب تمنا

اپنی نیندوں میں نظر آتی ہے اپنی دنیا

بارہا میں نے کئے اپنی ہی آنکھوں سے سوال

کیسے ہوں گے وہ حسیں لوگ

مجھے آیا خیال

کیسے وہ خواب بچھاتے ہوں گے

پھر انہیں اوڑھ کے سوتے ہوں گے

جن کی آنکھوں میں کسی اور کی

نیندیں ہوں گی

جن کی نیندوں میں کئی

شوخ امیدیں ہوں گی

جن کی پلکوں پہ لرزتے سائے

دیکھنے والے کو تعبیر بنا دیتے ہیں

بند ہونٹوں کی بے چین سی اک جنبش سے

کس قدر کھول کے ہر راز بتا دیتے ہیں

بارہا سلوٹیں پیشانی کی پھر شوخ ہنسی

گدگدا کر کئی نیندوں کو اڑا دیتے ہیں

گر کبھی نیند میں کچھ خواب چلے آتے ہیں

میرے بچے مجھے اس وقت جگا دیتے ہیں

٭٭٭٭

غزل

سعدئی سراج

جاگتے میں بھی خواب کے موسم

بے یقینی سراب کے موسم

انگلیوں یہ گنو تو تھوڑے ہیں

زیست میں انتخاب کے موسم

چند اوراق اس نے کیا پھاڑے

در بدر ہیں کتاب کے موسم

اس کے ماتھے کے بل کو گن گن کے

میں نے سیکھے حساب کے موسم

کہکشاں محو رقص صحرا میں

چشم تر میں سحاب کے موسم

اس کی آنکھوں میں رقص کرتے ہیں

جام، ساغر، شراب کے موسم

میرے آنگن میں سعدیہ ٹھہرے

پھول، خوشبو، گلاب کے موسم

٭٭٭٭

غزل

مدت گذری ہونٹوں پر بن بات کا موسم ٹھہر گیا

تب سے جیسے آنکھوں میں برسات کا موسم ٹھہر گیا

اک لمحے کی خواہش ہے کہ میرے دل کا موسم ہو

دانستہ بازی ہار گئے اب مات کا موسم ٹھہر گیا

زخم بھی لگتے جائیں تو وہ شوقِ رفو کب رکھتے ہیں

ضدی سرکش لوگوں میں کس بات کا موسم ٹھہر گیا

ایک ہی ساکت خواب ہو جیسے اور ہزاروں تعبیریں

سوتی جاگتی آنکھوں میں بس رات کا موسم ٹھہر گیا

وادی کی گل پوش زمیں پر برف نے کیا لکھ ڈالا ہے

جلتے جسم بھی سرد ہوئے جذبات کا موسم ٹھہر گیا

پاس وفا کا جذبہ تو قرآن کا پرتو ہوتا ہے

اس نکتے پر اب تو میری ذات کا موسم ٹھہر گیا

نئے خواب کیسے دیکھوں

نظم

 

عمر رواں سے کچھ بھی شکایت نہیں مجھے

لیکن یہ سوچ کر ہی تھکن ہو رہی ہے اب

کیسے شمار ہوں گے میرے بے شمار خواب

تکیہ کے نیچے خواب چھپاتی تھی رات کو

انبار اس قدر ہے کہ سونا محال ہے

آنکھوں کا احتجاج

تقاضہ یہ مجھ سے ہے

پہلے گنوں وہ خواب جو تکیہ میں دفن ہیں

لیکن یہ سوچ کر ہی تھکن ہو رہی ہے اب

کیسے شمار ہوں گے میرے

بے شمار خواب

سانپ

سانپ کو سانپ ہی بلایا جائے

آستینوں سے بھی گرایا جائے

میرے گرنے کے منتظر جو ہیں

قصہ یوسف انہیں سنایا جائے

بات کرتے ہیں سخت لہجے میں

احترام ان کو اب سکھایا جائے

درد جب خود بخود ہی سوجائیں

کیوں مسیحا کو پھر جگایا جائے

وہ جو مخلص ہیں، نا مرے ہمدرد

ان سے کچھ فاصلہ بڑھایا جائے

جیت جانے کا حوصلہ کر کے

کیسے ہارے کسے بتایا جائے

اسے دھوکے میں رکھنا ہے

اس کی بے وفا آنکھیں مجھے

جب سے پڑھنا آگئی ہیں

اک کرب مسلسل ہے

اور وہی کرب مسلسل مجھے

مضبوط کرتا ہے

میں کیا کروں کہ

مجھے وہ بھی سمجھنا آتا ہے

جسے کوڈ ورڈ کہتے ہیں

اور میں تو سرمژگاں

پیش لفظ پڑھنے میں

چند پل ہی لیتی ہوں

اور ہر بار خود کو معزول دیکھتی ہوں

مگر پھر بھی مسند نشین کہلاتی ہوں

مسند نشین ہونے میں اور، سند نشین کہلانے میں

باریک سا فرق ہے

اور یہی فرق مجھے راز میں رکھنا ہے

کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ

وہ اپنی نظریں جھکا کر میرے سامنے آئے

سعدیہ سراج ادبی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں

Facebook Comments

POST A COMMENT.