سید مہتاب شاہ ۔۔۔ صوبہ سندھ سے ہندکو کے پہلے افسانہ نگار ، ہزارہ کی ہمہ جہت شخصیت

سید مہتاب شاہ ۔۔۔ شاہ جی کے نام سے معروف ہمہ جہت شخصیت ہی نہیں فن اور ادب کی دنیا میں متعدد تخلیقات کے بانی بھی ہیں

سید مہتاب شاہ  صوبہ سندھ سے ہندکو زبان میں افسانے لکھنے والی پہلی شخصیت یعنی صوبہ سندھ سے ہندکو زبان کے پہلے افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ”مہتابیاں“ کے نام سے شائع ہوکر مقبولیت حاصل کرچکا ہے۔

ان کی تخلیقی اورفنی صلاحیتوں کو ملک کے معروف ادبا ،شعرا،مصنفین ،دانشور،صحافی،وکلا ،اورفنکاروں نے خراج تحسین پیش کیا ہے۔

ہندکو زبان کے پہلے افسانہ نگار سید مہتاب شاہ المعروف شاہ جی کے افسانوں کے مجموعہ ”مہتابیاں“ کی تقریب رونمائی ان کی سالگرہ کے دن ہوئی

ہندکو زبان کے پہلے افسانہ نگار سید مہتاب شاہ المعروف شاہ جی کے افسانوں کے مجموعہ ”مہتابیاں“ کی تقریب رونمائی ان کی سالگرہ کے دن ہوئی

سید مہتاب شاہ المعروف شاہ جی نے پہلے ہندکو تھیٹر کی بنیاد رکھی اور پہلا ڈراما ”ماسی دیاپترا“ پیش کیا۔

پہلی ہندکو مزاحیہ ڈائیلاگ پرمبنی آڈیوکیسٹ”ہرکدے ہزارہ“ ریلیز کی۔پہلے ہندکو کلچرل میوزیکل اسٹیج شو”جشن ہزارہ میوزیکل نائٹ “پیش کیا

  پہلے ہندکو مزاحیہ مشاعرے”ذراچِھک پہاجی“ پہلی ہندکو قوالی”ماں تڑے ددھ داحق“ پہلے ہندکو قومی نغمہ ”آوکراں سرحد دے نظارے تخلیق کیا“

اس کے علاوہ ہندکو کی پہلی فلم ”چاچی جل کراچی“ بھی بنائی اور نمائش کے لیے پیش کی۔ وہ ہندکو تھیٹر اور فلم کے بانی ، معروف پروڈیوسر، مصنف، ہدایتکار، نغمہ نگار کے ساتھ ساتھ بہترین اداکار بھی ہیں۔ہزارہ کی ثقافت کو گھر گھر روشناس کرانے والے ہمہ جہت مہتاب شاہ ان خصوصیات کے علاوہ وہ بہترین دوست ، بہت نفیس اور محبت کرنے والے انسان بھی ہیں۔

سید مہتاب شاہ کا ایک خوب صورت انداز

سید مہتاب شاہ کا ایک خوب صورت انداز

مہتاب شاہ کا تعلق پاکستان کی خوب صورت وادی وادی بالاکوٹ سے ہے، جسے لوگ پاکستان کی جنت کے علاوہ شہدائے بالا کوٹ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔8 اکتوبر2005 کے قیامت خیز زلزلہ کے بعد دنیابالاکوٹ کے نام سے خوب آگاہ ہوچکی ہے۔ان کا تعلق گوکہ بالاکوٹ کے قریب ہی ایک گاوں تلہٹہ سے ہے لیکن ان کی پیدائش کراچی کی ہے اورابتدائی تعلیم بھی محمودآباد کے ابراہیم علی بھائی اسکول سے حاصل کی۔بعدازاں اپنے آبائی گاوں کے گورنمنٹ پرائمری اسکول بسیاں سے پرائمری،گورنمنٹ مڈل اسکول شوہال معزاللہ سے مڈل اورپاکستان کوآزادکشمیرسے ملانے والے شہرگڑھی حبیب اللہ کے گورنمنٹ ہائی اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد وہ 1985میں دوبارہ کراچی تشریف لے آئے۔
انہی دنوں انھیںتعلیم کے ساتھ ساتھ ا سٹیج ڈراموں میں کام کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ انھوں نے اسٹیج ڈراموں سے اپنی منزل کی راہ کا تعین کیا،بعدازاں پاکستان ٹیلی وڑن کا بھی دروازہ جاکھٹکایا جہاں پاکستان ٹیلی وژن کے پروڈیوسر علی رضوی ٹی وی لانگ پلے ”یور اوبیڈینٹ سرونٹ“ بنارہے تھے۔سید مہتاب شاہ کو علی رضوی نے سینئراداکارشفیع محمدشاہ مرحوم کے ذاتی ملازم کے بیٹے کے کردارمیں ایک انتہائی معمولی سے کردار کے لیے منتخب کرلیا۔ اس ڈرامے نے انھیں کالج میں تمام ساتھی طالب علموں میں مقبول کردیابلکہ ان کے احترام میں بھی اضافہ ہونے لگا جس کی وجہ سے مہتاب شاہ کو اپنی منتخب کردہ راہ پرفخرمحسوس ہونے لگا۔ بعد میں بھی انھوں نے پی ٹی وی سے چھوٹے چھوٹے رول کیے۔ جب پرائیویٹ چینل کا سلسلہ شروع ہواتو وہ پی ٹی این کے معروف ڈرامے” پس آئینہ“ میں روبینہ اشرف کے مجرم کے طورپر جلوہ گر ہوئے۔ وہاں سے وہ اسٹیج کی دنیامیں بھی داخل ہوگئے۔
اسٹیج و ٹی وی کا یہ سلسلہ جاری تھاکہ ان پرپاکستان فلم انڈسٹری کے دروازے کھل گئے اور ناصرادیب کی لکھی ہوئی اور پرویزراناجیسے منجھے ہوئے ہدایتکارکی فلم ”ڈر“ کے کردارکے لیے پرویزرانا نے انھیں بطورولن ” ڈان“ کے کردار کے لیے منتخب کرلیا۔ پہلے یہ کردار فلمسٹارندیم اداکررہے تھے لیکن مہتاب شاہ کی قسمت کاستارہ انھیں ڈرفلم کے ڈان کے روپ میں ایک ایسی راہ پر گامزن کرگیا جو ان کی منزل کی جانب جاتادکھائی دے رہا تھا۔ مہتاب شاہ نے پاکستانی فیچرفلم ڈرکے مرکزی کردارمیں فلمسٹاربابر علی اور فلمسٹارشان کے باپ کے کردار میں بہترین کردارنگاری کرکے نہ صرف شائقین سے خوب داد وصول کی بلکہ انھیں یکے بعد دیگرے فلموں کی آفر ہوئی جو انھوں نے قبول کرلی۔ ریاض گجر اور شہزاد گجرکی فلم ” جسم “ میں بھی بطور ولن کام کرنے کے بعد تیسری فلم ” بھیگے ہونٹ “ میں اپنی کارکردگی کے جوہردکھائے۔


سید مہتاب شاہ پی ٹی وی جیسی اکیڈمی سے اداکاری کے رموزسیکھنے کے باوجود بھی شایدابھی پیاسے تھے لہٰذاا نھوں نے باقاعدہ فنی تربیت کے لیے ناپاجیسے ادارے میں داخلہ لے لیا اورناپا کے سربراہ ضیا محی الدین، دیگراساتذہ میں طلعت حسین، ارشد محموداور معروف اداکارڈرامہ نویس اور افسانہ نگار ڈاکٹر انور سجاد جیسی قد آور اور بین الاقوامی شہرت یافتہ ہستیوں سے تعلیم حاصل کرنا شروع کردی۔
انھوںنے جہاںپی ٹی وی ،اسٹیج اور فلم انڈسٹری میں اپنا نام بنایا وہیں کراچی میں ہندکو تھیٹرکوپروان چڑھایا اور پاکستان میں پہلی بارہندکو اسٹیج ڈراموں کی باقاعدہ داغ بیل ڈالی۔ اس کے ساتھ ہی پہلی بار ہندکو کلچرل میوزیکل پروگرام بھی کراچی اسٹیج کے ذریعے متعارف کرائے جس سے ہندکو کے بہت سے فنکارپیداہوکرآج ٹی وی اورتھیٹرکی دنیا میں اپنا نام پیداکررہے ہیں۔ انھوں پہلی بار ہندکو مزاحیہ ڈائیلاگ کاسلسلہ بھی آڈیوکیسٹوں کی ذریعے متعارف کروا کرہندکوزبان اور ہزارہ کی ثقافت کو گھر گھر روشناس کرانے میں اہم کرداراداکیا۔ دلچسب بات یہ ہے کہ مہتاب شاہ نے جس زمانے میں کراچی سے ہندکو اسٹیج ڈراموں کاآغاز کیا اس وقت پورے کراچی میں ہندکوزبان سے تعلق رکھنے والا کوئی ایک فنکار بھی دستیاب نہ تھابلکہ شاہ جی کے خاندان والوں سمیت کئی لوگوں نے ان کی نہ صرف مخالفت کی تھی بلکہ ان کے والدنے انھیں فنون لطیفہ سے عشق کی پاداش میں گھر سے بھی نکال باہر کیاتھا۔
مہتاب شاہ اس زمانے میں گورنمنٹ نیشنل کالج میں سیکنڈایئرکے طالب علم تھے۔ گھر سے نکل کروہ جہانگیرپارک صدر میں سیمنٹ کی بینچ پر رات کو سو جاتے ،پارک میں نصب کھمبے کی روشنی میں کالج کا کام کرتے تھے۔ انھوں نے وہیں کھمبے کی روشنی میںکراچی کی تاریخ کا پہلاہندکو اسٹیج ڈرامہ ” ماسی دیاپترا“ لکھا جسے لکی اسٹارصدرکراچی میںپاکستان نیوی فلیٹ کلب کے خوب صورت آڈیٹوریم کے اسٹیج پر پیش کیا۔یوں کسمٰپرسی کی حالت میں انھوں نے ہندکو ڈراموں کی داغ بیل ڈالی۔
ہندکو زبان کے فنکاروں کی عدم دستیابی کو انھوں اپنی راہ کی رکاوٹ نہ بننے دیااور اس وقت دیگرزبانوں میںا سٹیج ڈراموں میں کام کرنے والے معروف اور مصروف فنکاروں کی مدد سے پہلے ہندکو اسٹیج ڈرامہ ” ماسی دیاپترا“ کو اسٹیج کر ڈالا۔س وقت ہندکو اسٹیج ڈرامے میں ہزارے وال کا کرداراورہندکوزبان کواپنی بولی بنانے والے میمنی ،سندھی ،گجراتی،کاٹھیاواڑی ،پشتو،اردواورپنجابی زبانوں سے تعلق رکھنے والے چیدہ چیدہ فنکاروں میں شکیل صدیقی،روف لالہ،سکندرصنم مرحوم،لیاقت سولجرمرحوم،حنیف راجہ، روحی صنم ،شاہدہ ملک،ملکہ پیرزادہ، مہک حسینہ، ابراہیم رازکاکامرحوم،خالد سلیم موٹاکے علاوہ اخترمنیرمرحوم شامل ہیں۔
یہ سلسلہ تقریباًچھ سال تک متواترچلتارہا،اورمہتاب شاہ ہندکو زبان نہ جاننے والے اورہندکواور ہزارے سے تعلق نہ رکھنے والے فنکاروں کے ساتھ متعدد دڑامے اسٹیج کرنے میں کامیاب رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے ماسی دیاپترا“، ”گنجاپے تے بانکے پتر“، کھنگدے جلو تے لنگدے جلو“، ” ہرکدے آﺅجی“، ”انی لیلی تے کانڑاں مجنوں“، ”ذراچِھک پہاجی“،” بڈھامارے سیٹیئاں “ اور دیگرپیش کیے۔ ان تمام ڈراموں کوسید مہتاب شاہ نے ہندکو فنکارنہ ہونے کی وجہ سے دیگرزبانوں کے فنکاروں کے تعاون سے پیش کرکے ہندکو زبان اور ہزارے وال قوم کو بام عروج پرلانے میں منفرد کردار ادا کیا۔یہی وجہ ہے کہ سید مہتاب شاہ آج ہزارے وال قوم کے دلوں میں دھڑکن بن کردھڑکتے ہیں اور ہزارہ وال قوم انھیں انتہائی قدرکی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
ہندکو ڈرامے ، تھیٹر اور فلوں کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ ادب سے ان کا رشتہ ہر حال میں برقرار رہا۔ وہ ڈرامے لکھنے کے ساتھ ساتھ افسانے بھی تحریر کرتے رہے۔
ان کے ہندکو افسانوں کے مجموعے” مہتابیاں “ کی تقریب رونمائی بھی ایک یادگار واقعہ ہے۔ وہ اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’ مہتابیاں “ کی تقریب رونمائی آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی منعقد ہوئی تھی۔ تقریب کی صدارت ماہرتعلیم، معروف شاعر، ادیب، نقاد، محقق پروفیسرسحرانصاری نے کی جب کہ معروف دانشورمحترمہ عالیہ امام مہمان خصوصی تھیں۔ دیگر مہمانوں میں کراچی آرٹس کونسل کی متحرک شخصیت اقبال لطیف ، معروف شاعر وصحافی فاضل جمیلی، پاکستان میں ڈرموں کی تاریخ کا بڑا اور معتبر اورڈرامے کے مصنفین میں اہم نام محترمہ حسینہ معین آرٹس کونسل کے روح رواں سید احمد شاہ، سید مہتاب شاہ کے میٹرک کے زمانے کے کلاس فیلوسپریم کورٹ آف پاکستان کے معروف قانون دان جان محمد ودیگر شامل تھے ، خاص بات یہ تھی کہ مہتابیاں کی تقریب رونمائی جس دن ہوئی وہ مہتاب شاہ کا یوم پیدائش بھی تھا لہٰذا احباب نے انھیں مہتابیاں کی اشاعت کے ساتھ سالگرہ کی مبارک باد بھی پیش کی۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.