نابینا محمد آصف حوصلہ مند ہی نہیں بہت سارے بیناﺅں کے لیے مشعل راہ بھی ہیں

نابینا محمد آصف علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم اے کیا ،اب گورنمنٹ سکول فاردی بلائنڈ شیراں والا میں بطوراستاد فرائض ادا کر رہے ہیں
محمد آصف نہایت فعال زندگی گزار رہے ہیں، وہ الیکشن کمشنر نیشنل ایسوسی ایشن فار دی بلائنڈ کے چیف
اوربلائنڈ کرکٹ کلب سرگودھا میں بطور صدر خدمات سرانجام دے رہے ہیں
 نابینا افراد کو ایک کے بجائے دو معاشروں سے لڑنا پڑتا ہے، ایک وہ جو نابینا افراد کے مسائل کا شعور نہیں رکھتا ، دوسرا وہ جو حقوق سے محروم رکھتا ہے

ایک حوصلہ مند محمد آصف کی دوسرے پرعزم ثاقب لقمان قریشی سے خصوصی بات چیت

شخصیات ویب نیوز
گفتگو : ثاقب لقمان قریشی

 ثاقب نثار قریشی سینئر صحافی، کالم نگار شخصیات ویب نیوز کے خصوصی نمائندہ

ثاقب نثار قریشی سینئر صحافی، کالم نگار کی شخصیات ویب نیوز کے لیے خصوصی تحریر

نام: محمد آصف
تعلیم: ایم-اے
شعبہ: تعلیم و تدریس (گریڈ 16)
عہدے: 1۔ چیف الیکشن کمشنر نیشنل ایسوسی ایشن فار دی بلائنڈ سرگودھا
2۔ صدر بلائنڈ کرکٹ کلب سرگودھا
رہائش: لاہور
خاندانی پس منظر:
والد صاحب ابتداء میں ماموں کانجن میں فرنیچر کا کام کیا کرتے تھے۔ پھر خاندان نواں کوٹ منتقل ہوگیا۔ والد صاحب نے فرنیچر کے کام کو خیر آباد کہہ کر ایک فیکٹری میں ملازمت اختیار کر لی۔ پھر اسی فیکٹری سے ریٹائرڈ ہوئے۔ خاندان دس بھائی بہنوں پر مشتمل ہے۔ چار بہن بھائی آصف سے بڑے ہیں باقی سب چھوٹے ہیں۔ تعلیم کے اعتبار سے سب سے آگے ہیں۔ تین بہنیں اور دو بھائی شادی شدہ ہیں۔بڑے بھائی فیکڑی میں ٹیکنیشن ہیں، ایک بھائی بیرون ملک ملازمت کرتے ہیں، دو چھوٹے بھائی ملازمت کے ساتھ اپنا نجی کاروبار بھی چلا رہے ہیں۔ جبکہ چھوٹا بھائی یونیورسٹی کا طالب علم ہے جسے آصف پڑھا رہے ہیں۔
سوال: بینائی سے محرومی کی کیا وجہ بنی؟
بینائی کا مسئلہ پیدائشی نہیں تھا۔ دو سال کی عمر میں بخار ہوا جس کے بعد بینائی مکمل طور پر چلی گئی۔ والد صاحب نے علاج کیلئے بہت بھاگ دوڑ کی۔ بڑے سے ہسپتال میں چیک اپ کروایا۔ پھر ماموں نے سرگودھا ہی کے ایک ہسپتال کا بتایا جہاں ایک فارن کوالیفائڈ ڈاکٹر بیٹھا کرتے تھے۔ انھوں نے دیکھتے ہی کہا کہ علاج ممکن ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی تسلی سے والد صاحب کو بہت خوشی ہوئی۔ تین آپریشنز کے بعد ایک آنکھ کی بینائی کسی حد تک بحال ہوگئی۔

محمد آصف نہایت فعال زندگی گزار رہے ہیں،وہ الیکشن کمشنر نیشنل ایسوسی ایشن فار دی بلائنڈ سرگودھا کے بطورچیف خدمات سرانجام دے رہے ہیں

محمد آصف نہایت فعال زندگی گزار رہے ہیں،وہ الیکشن کمشنر نیشنل ایسوسی ایشن فار دی بلائنڈ سرگودھا کے بطورچیف خدمات سرانجام دے رہے ہیں

ڈاکٹر نے کہا کہ دوسری آنکھ کا آپریشن سات سال کی عمر سے پہلے کروانا ضروری ہے ورنہ پہلی آنکھ کی بینائی بھی چلی جائے گی۔ ساڑھے پانچ سال کی عمر میں دوسری آنکھ کا آپریشن ہوا۔ دوسری آنکھ کے آپریشن کی کچھ باتین آصف کو یاد ہیں۔ آپریشن کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ یہ چیزوں کو پہچان سکتے ہیں، صبح و شام اور رنگوں میں فرق محسوس کرسکتے ہیں۔

 تاریخ کے طالب علم ہیں۔ انسانی تاریخ پر لکھی گئی کتابیں اور ناول پڑھنا پسند کرتے ہیں


تاریخ کے طالب علم ہیں۔ انسانی تاریخ پر لکھی گئی کتابیں اور ناول پڑھنا پسند کرتے ہیں

سوال: حصول تعلیم میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
گھر کے نزدیک کوئی خصوصی تعلیمی ادارہ نہ ہونے کی وجہ سے حفظ کیلئے مدرسے میں داخلہ کروا دیا گیا۔ ابھی پہلا سپارہ ہی حفظ کرنے میں کامیاب ہوئے تھے کہ ماموں نے سرگودھا کے ایک خصوصی تعلیمی ادارے کے بارے میں بتایا۔ ماموں کا اپنا بھی ایک بیٹا نابیا تھا جسکے علاج کیلئے انھوں نے بہت بھاگ دوڑ کی لیکن ڈاکٹر صاحبان کا کہنا تھا کہ انکا آپریشن بڑے ہونے پر کیا جائے گا۔
سکول کا نام سنتے ہی آصف خوشی سے جھوم اٹھے اور گھر والوں سے سکول جانے کی ضد کرنے لگے۔ سکول دوسرے شہر میں واقع تھا اس لیئے گھر والے ششں و پنج میں پڑ گئے، لیکن بچے کی ضد کے آگے ہار ماننے پر مجبور ہوگئے۔ اسطرح ابتدائی تعلیم کا آغاز سپیشل ایجوکیشن کے سکول اور ہاسٹل میں رہنے کے ساتھ ہوا۔ سکول میں تعلیم کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں پر بھی بھر پور توجہ دی جاتی تھی۔ کرکٹ کے کیریئر کا آغاز سکول ہی سے ہوا۔

نابینا افراد اور معاشرے کے درمیان فاصلے کی اہم ترین وجہ آگہی کا فقدان ہے نابینا ، معذور، ذہنی پس ماندہ اور سماعت سے محروم افراد سے کیسے ڈیل کرنا ہے اس کی تربیت بچے کو سکول ہی سے دینی چاہیئے، محمد آصف

نابینا افراد اور معاشرے کے درمیان فاصلے کی وجہ آگہی کا فقدان ہے نابینا ، معذور،  اور سماعت سے محروم افراد سے کیسے ڈیل کرنا ہے اس کی تربیت بچے کو سکول ہی سے دینی چاہیئے، محمد آصف

سپیشل تعلیم کا یہ ادارہ مڈل تک ہی تھا اسلیئے نویں اور دسویں جماعت کیلئے بڑی مشکلوں کے بعد نارمل بچوں کے سکول میں داخلہ ملا۔ دسویں جماعت کے امتحانات کیلئے جب سب بچوں کو رول نمبر سلپس دی جا رہی تھیں، آصف کو نہیں دی گئی۔ چند دنوں بعد جب سلپ دی گئی تو پتہ چلا کہ آصف کا داخلہ پرائیویٹ سٹوڈنٹ کے طور پر بھیجا گیا ہے۔ اساتذہ سے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ نابینا بچوں کے امتحانات لینا بورڈ کی پالیسی میں شامل نہیں۔
ایف اے اور بی اے خصوصی تعلیمی ادارے سے کیئے جبکہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے فاصلاتی تعلیمی نظام سے ایم اے کیا۔ یونیورسٹی کی ورک شاپس کے دوران لوگ اپنے درمیان نابینا شخص کو دیکھ کر بہت حیران ہوا کرتے تھے۔اپنے بارے میں لوگوں کو بتانا بھی آگہی کا ایک ذریعہ ہے۔ اسلیئے آصف کو بتانا اچھا لگتا ہے۔

 نابینا افراد کی تعلیم کے راستے کی بڑی رکاوٹیں آگہی ہے اس کے علاوہ غربت، مہنگے مدد گار آلات اور سکولوں کی ناکافی تعداد بھی اہم ترین رکاوٹیں ہیں، محمد آصف کا تجزیہ


نابینا افراد کی تعلیم کے راستے کی بڑی رکاوٹیں آگہی ہے اس کے علاوہ غربت، مہنگے مدد گار آلات اور سکولوں کی ناکافی تعداد بھی اہم ترین رکاوٹیں ہیں، محمد آصف کا تجزیہ

سوال: سکول کی زندگی کا کوئی ناقابل فراموش واقعہ بیان کریں؟
نارمل بچوں کے سکول میں بچے آصف کے صاف ستھرے کپڑوں اور نفاست سے کاڑھے گئے بالوں کو دیکھ کر سوال کیا کرتے تھے کہ یہ سب آپ کیسے کر لیتے ہوں۔ ایک دن کنگی اپنے ساتھ لے کر سکول چلے گئے۔ اتفاق سے اس دن بزم ادب کی دو کلاسوں کا مشترکہ پیریڈ بھی تھا۔ ادب سے لگاو¿ کی وجہ سے آصف بزم ادب کے پیریڈ کے انچارج ہوا کرتے تھے۔
پریڈ کے دوران آصف نے ایک بچے سے کہا کہ انکے بال خراب کردو۔ پھر ان بے ترتیب بالوں کو پانی لگا کر جب سب کے سامنے کنگھی کی گئی تو پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
سوال: اب تک کتنی نوکریاں کر چکے ہیں؟
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم-اے کے دوران ہی ملازمت کی تلاش شروع کر دی۔ پہلی نوکری سرگودھا کی ایک این جی او نیشنل ایسوسی ایشن آف دی بلائنڈ سرگودھا میں ملی۔ جہاں نابینا بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دیا کرتے تھے- دوسری ملازمت ڈیلی ویجز پر گورنمٹ سکول فار دی بلائنڈ شیراں والا میں حاصل ہے۔
سوال: کتنے ٹیکنیکل کورسز کیئے ہیں؟
آصف یہ جانتے تھے کہ نابینا افراد کیلئے نوکری کا حصول خاصہ مشکل کام ہے اس لیئے میٹرک کے بعد سے ٹیکنیکل کورسز کرنا شروع کر دیئے۔ پہلا کورس الیکٹریشن کا کیا۔ جس میں استری ٹھیک کرنا، پنکھوں کے کیپسٹر تبدیل کرنا، لائٹ پلگ وغیرہ جیسے چھوٹے موٹے کام سیکھے۔ پھر ٹیلی فون آپریٹر کا کورس کیا اور متعدد کمپیوٹر کوسز کیے۔

 جدید دورمیں نابینا افراد کے لیےروزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوگئے ہیں جب کہ نابینا افراد کی سہولت کیلئے ایسی بے شمار ایپلی کیشنز بنائی جاچکی ہیں جن کی مدد سے نابینا افراد دفتر کے امور سے لے کر روزمرہ زندگی کے بہت سے کام با آسانی کر سکتے ہیں

جدید دورمیں نابینا افراد کے لیےروزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوگئے ہیں جب کہ نابینا افراد کی سہولت کیلئے ایسی بے شمار ایپلی کیشنز بنائی جاچکی ہیں جن کی مدد سے نابینا افراد دفتر کے امور سے لے کر روزمرہ زندگی کے بہت سے کام با آسانی کر سکتے ہیں

سوال: کس سکول میں پڑھا رہے ہیں؟ کیا آپ کی ملازمت کوٹے پر ہوئی ہے؟
چار سالوں سے گورنمنٹ سکول فار دی بلائنڈ شیراں والا میں بطور جونیئر ایجوکیشن ٹیچر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ کوٹے کو غلط نہیں سمجھتے لیکن اپنی زندگی میں کبھی کوٹے کا سہارا نہیں لیا۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے امتحانات بہترین نمبروں سے پاس کر کے اس مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
سوال: کیا سوشل ورک سے بھی وابستہ ہیں؟
سرگودھا میں تعلیم کے دوران نیشنل ایسوسی ایشن آف دی بلائنڈ میں نوکری بھی کی اور اسکے ممبر بھی بنے۔ آجکل اسکے چیف الیکشن کمشنر کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ سرگودھا ہی کے بلائنڈ کرکٹ کلب کے صدر کے طور پر بھی کام کر رہے ہیں۔ اکیڈمی کھیل کے ساتھ نابینا افراد میں مددگار آلات کی فراہمی، امداد اور دیگر امور میں معاونت فراہم کرتی ہے۔ اسکے علاوہ نابینا افراد کی خدمت کیلئے مختلف این جی اوز سے رابطے میں رہتے ہیں۔
سوال: بریل کس بلا کا نام ہے؟
بریل چھ نقطوں پر مشتمل رسم الخط ہے۔جو نابینا افراد کو پڑھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ بریل کا نظام فرانس کے مشہور تعلیم دان لوئس بریل نے ایجاد کیا۔ لوئس ایک موچی کا بیٹا تھا ایک دن اوزاروں سے کھیل کے دوران ایک اوزار اسکی آنکھ میں لگ گیا جسکی وجہ سے وہ بینائی سے محروم ہوگیا۔ چھ نقطوں سے پڑھنے کا فن اسے ایک آرمی آفیسر نے سکھایا۔ نقطوں سے پیغامات بھیجنے کا فن آرمی میں جاسوسوں کو سکھایا جاتا تھا۔ لوئس نے ان نقطوں کی مدد سے نابینا افراد کو پڑھانے کا پورا تعلیمی نظام دریافت کر لیا۔ لوئس کو اپنی زندگی میں پزیرائی نہیں ملی۔ لیکن اسکے بنائے گئے بریل سے آج تک پوری دنیا کے بابینا افراد مستفید ہو رہے ہیں۔
سوال: نابینا افراد کیلئے کن صنعتوں میں روزگار کے مواقعے پیدا کیئے جاسکتے ہیں؟
دنیا مصنوعی ذہانت کے دور میں داخل ہوچکی ہے۔ جدیدیت کے اس دور نے نابینا افراد کیلئے روزگار کے بے شمار مواقعے پیدا کر دیئے ہیں۔ نابینا افراد کی سہولت کیلئے ہزاروں ایسی ایپلی کیشنز بنائی جاچکی ہیں جن کی مدد سے نابینا افراد دفتر کے امور سے لے کر روزمرہ زندگی کے بہت سے کام با آسانی کر سکتے ہیں۔
پڑھے لکھے نابینا افراد تھوڑی تربیت اور آگہی کے ساتھ ہر صنعت میں کام کرسکتے ہیں۔ جبکہ غیر تعلیم یافتہ نابینا افراد پیکنگ، مینوفیکچرنگ، اینجینئرنگ، مارکیٹنگ اور مختلف صنعتوں میں با آسانی کام کر سکتے ہیں۔
سوال: نابینا افراد کی تعلیم میں اہم ترین رکاوٹیں کیا ہیں؟
آگہی کو نابینا افراد کی تعلیم کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ نابینا بچوں کے حوالے سے معاشرے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ انھوں نے پڑھ کر کیا کرنا ہے اکثر والدین نابینا بچوں کو ذیادہ سے ذیادہ مدرسے میں بٹھا دیتے ہیں۔ جو حفظ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں قاری بن جاتے ہیں اور جو ناکام ہو جاتے ہیں وہ ذیادہ سے ذیادہ پانچ وقت کی نماز ہی پڑھا کرتے ہیں۔
اسکے علاوہ غربت، مہنگے مدد گار آلات اور سکولوں کی ناکافی تعداد اہم ترین رکاوٹیں ہیں۔ ہمارے ملک کی بیشتر آبادی غریب ہے غریب والدین مہنگی تعلیم کا بوجھ برداشت نہیں کر پاتے اسلیئے اکثر بچے تعلیم کے حصول سے محروم رہ جاتے ہیں۔ نابینا افراد کی آبادی کے لحاظ سے سکولوں کی تعداد کم ہے، دوسرا یہ کہ سکول بڑے شہروں کے مصروف ترین علاقوں میں بنائے جاتے ہیں جسکی وجہ سے سے بہت سے بچے حصول تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ مدد گار آلات نابینا افراد کو نارمل زندگی گزارنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن ان آلات کی قیمتیں ذیادہ ہونے کی وجہ سے اکثر والدین قوت خرید نہیں رکھتے جسکی وجہ سے نابینا افراد کو دوسروں کے محتاج رہتے ہیں۔
حکومت نے نابینا افراد کی تعلیم اور مددگار آلات کی فراہمی کو نہایت آسان بنا دیا ہے لیکن اوپر بیان کی گئی رکاوٹوں کی وجہ سے بہت سے لوگ ان سہولیات سے محروم رہتے ہیں۔
سوال: نابینا افراد اور معاشرے کے درمیان فاصلے کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟
نابینا افراد اور معاشرے کے درمیان فاصلے کی اہم ترین وجہ آگہی کا فقدان ہے۔ آگہی عام کرنے سے یہ فاصلے کم کیئے جا سکتے ہیں اسکی شروعات سکول سے ہونی چاہیئے، نابینا افراد، افراد باہم معذور، ذہنی پس ماندہ اور سماعت سے محروم افراد سے کیسے ڈیل کرنا ہے کی تربیت بچے کو سکول ہی سے دینی چاہیئے۔

نابینا دوست اپنی تعلیم پر بھر پور توجہ دیں، اپنے آپ کو زیادہ کارآمد بنانے کیلئے تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف ٹیکنیکل کورسز بھی کریں، محمد آصف کا مشورہ

نابینا دوست اپنی تعلیم پر بھر پور توجہ دیں، اپنے آپ کو زیادہ کارآمد بنانے کیلئے تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف ٹیکنیکل کورسز بھی کریں، محمد آصف کا مشورہ

پندرہ اکتوبر کو نابینا افراد کا عالمی دن پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ معاشرے کی تربیت کیلئے پورے سال میں صرف ایک دن ناکافی ہے۔ بھر پور آگہی کے لیئے ایک پورا ماہ یا کم از کم سال میں ایک عاد ہفتہ نابینا افراد کیلئےمختص کرنے کی ضرورت ہے۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی اس مہم میں نابینا افراد کا ساتھ دے تو مختصر سے عرصے میں یہ فاصلے سمٹ سکتے ہیں اور ایک متوازن معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔
سوال: شادی کب ہوئی؟ کیا رشتے کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
تمام خصوصی افراد کی طرح نابینا افراد کو بھی شادی کے معاملے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تمام مشکلات سے گزرتے ہوئے پانچ سال پہلے شادی ہوئی۔ بڑی مطمئن شادی شدہ زندگی گزار رہے ہیں اور اپنی بیگم کو اپنا بہترین دوست قرار دیتے ہیں۔
سوال: فارغ وقت میں کیا کرتے ہیں؟
تاریخ کے طالب علم ہیں۔ انسانی تاریخ پر لکھی گئی کتابیں اور ناول پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ گھر میں ایک چھوٹی سی اکیڈمی بنا رکھی ہے جہاں اکثر ایسے بچے لائے جاتے ہیں دوسرے جو بچوں سے پیچھے ہوتے ہیں۔ آصف کی محنت سے بہت سے بچے مقابلے کی دوڑ میں واپس آچکے ہیں۔
سوال: کیا آپ کو اداکاری کا بھی شوق ہے؟
اداکاری کا شوق بچپن سے ہے۔ سکول کے زمانے میں چھوٹے موٹے کرداروں میں حصہ لیتے تھے۔ کالج لائف میں یوتھ فورم کے تحت مختلف ڈراموں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ ابھی بھی ہر قسم کے رول کیلئے تیار رہتے ہیں اسکے علاوہ ڈرامے لکھنے کا شوق بھی رکھتے ہیں۔
سوال: نابینا دوستوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
نابینا افراد کو ایک کے بجائے دو معاشروں سے لڑنا پڑتا ہے ایک وہ جو نابینا افراد کے مسائل کے حوالے سے شعور نہیں رکھتا اور دوسرا وہ جو شعور رکھتے ہوئے حقوق سے محروم رکھتا ہے۔ دونوں معاشروں کا مقابلہ تعلیم اور ہنر سے کیا جاسکتا ہے۔ نابینا دوست اپنی تعلیم پر بھر پور توجہ دیں۔ اپنے آپ کو ذیادہ کارآمد بنانے کیلئے تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف ٹیکنیکل کورسز بھی کریں۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.