شگفتہ شفیق کی غزلیں،محبت میں غم کے فسانے بہت ہیں،مجھےرازدل کے چھپانےبہت ہیں

شگفتہ شفیق کی غزلیں ، شاعری کے افق پر محبت کا استعارہ ہیں، ان کے کلام میں محبت’ ایک خاص طرح سے جلوہ فگن ہے، ایسی  محبت جو رشتوں کی محبت سے جنم لیتی ہے اور محبت کے رشتوں کی جنم دیتی  ہے

شخصیات ویب نیوز

7مئی 2023 اتوار 16 شوال المکرم 1444ھ

تحریر: سلیم آذر

 

شگفتہ شفیق کی غزلیں

 

محبت میں غم کے فسانے بہت ہیں

 

محبت میں غم کے فسانے بہت ہیں

مجھے راز دل کے چھپانے بہت ہیں

چھپی ہے دلوں میں وہ جن کے کدورت

وہ احباب میرے پرانے بہت ہیں

یہ دل بھولتا ہی نہیں دوستوں کو

سبق اس کو بھی اب سکھانے بہت ہیں

یہ نفرت عداوت تمھیں ہو مبارک

مجھے ہنسنے کے تو بہانے بہت ہیں

غلطی اگر ہو تو تسلیم کر لو

یہ ہرگز نہ سوچو زمانے بہت ہیں

مجھے کوئی شکوہ نہیں اپنے رب سے

عطا رب کے مجھ کو خزانے بہت ہیں

میں انجان بن کر ہی ملتی ہوں سب سے

میری بے رخی کے فسانے بہت ہیں

جو کہتے ہیں خود کو ابھی طفل مکتب

شگفتہ وہی سب سیانے بہت ہیں

٭٭٭

شگفتہ شفیق کی غزلیں

تیرا عکس کمال ہے مجھ میں

 

شگفتہ شفیق شاعری کے افق پر محبت کا استعارہ ہیں

شگفتہ شفیق شاعری کے افق پر محبت کا استعارہ ہیں

تیرا عکس کمال ہے مجھ میں

یعنی تیرا جمال ہے مجھ میں

ہرشرارت پر ٹوکنے والا

کوئی شریں مقال ہے مجھ میں

میں عروج و زوال ہوں شاید

عشق تو لازوال ہے مجھ میں

ہرخوشی پہ گمان ہو غم کا

کیا عجب سا ملال ہے مجھ میں

چاہ کر بھی نہیں بھلا پائی

میرا بچپن بحال ہے مجھ میں

رقص کرتا ہے دل محبت پر

یاد تیری دھمال ہے مجھ میں

ایک تو ہی امڈ کے آتا ہے

اور کس کی مجال ہے مجھ میں

سانس لیتی ہوں نام پہ تیرے

تیرا جیون بحال ہے مجھ میں

لوگ ظلمت تلاش کرتے ہیں

وہ شگفتہ محال ہے مجھ میں

٭٭٭

 میرے تو گھر میں رہتے ہیں موسم کمال کے

  میرے تو گھر میں رہتے ہیں موسم کمال کے

اللہ کرے نہ آئیں کبھی دن زوال کے

اتنا بڑا کیا ہے اسی نے تو پال کے

آنے نہ دے جو پاس مرے دن ملال کے

اک یاد تیری ساتھ تھی اب وہ بھی ڈھل گئی

قصے پرانے ہو گئے میرے گلال کے

دل کو بہت سکون اسے دیکھ کے ملا

خوش باش ہیں وہ خوب مجھے بھول بھال کے

دنیا کی بات چھوڑیئے قصہ یہ گھر کا ہے

دن جا چکے ہیں لوٹ کے رنج و ملال کے

آنسو بہا کے باپ نے بیٹے سے یہ کہا

کیا مل گیا تجھے مری پگڑی اچھال کے

میں سوچتی ہوں کیسی شگفتہ یہ بات ہے

اب تو پہاڑ بن گیا غم پال پال کے

٭٭٭

ساتھ چھوٹے نہیں اب گوارا مجھے

مجھ کو اکثر وہ یہی بات کہا کرتا ہےہم سے ہی ملنے ملانے میں تکلف کیسا

مجھ کو اکثر وہ یہی بات کہا کرتا ہے
ہم سے ہی ملنے ملانے میں تکلف کیسا

ساتھ چھوٹے نہیں اب گوارا مجھے

چاہے الزام دے جگ یہ سارا مجھے

تیری چاہت نے ایسا نکھارا مجھے

جھک کے تکنے لگا ہر ستارا مجھے

تو نہ ہو پاس میرے تو اے جان جاں

کوئی لگتا نہیں تجھ سا پیارا مجھے

بے خودی میں چلی آئی تیری طرف

تو نے جب جب کیا ہے اشارا مجھے

پیار نے تیرے مسحور سا کر دیا

تو نے جب سے دیا ہے سہارا مجھے

سب کی جھوٹی نوازش سے تنگ آ گئی

اب نہ کوئی پکارے خدارا مجھے

ساتھ تو جو شگفتہ کے چلنے لگا

اچھا لگنے لگا ہر نظارا مجھے

٭٭٭

 دل نے جب سے یہ چوٹ کھائی ہے

 

دل نے جب سے یہ چوٹ کھائی ہے

زندگی خاک میں نہائی ہے

جب بھی اپنی اسے سنائی ہے

اس نے تو بس ہنسی اڑائی ہے

خوشیوں کے پھول کھل اٹھے من میں

رت ملن کی بہار لائی ہے

میں جسے چاہ کے مٹا نہ سکوں

دل میں خواہش عجب سمائی ہے

بھیگی رہتی ہیں اب مری آنکھیں

درد کی ان دنوں رسائی ہے

ایسے ملنا بھی کوئی ملنا ہے

جس کا انجام ہی جدائی ہے

جو کے ملتی ہے مسکرا کے بہت

سب سے کرتی وہی برائی ہے

جان دے کر بھی کچھ نہیں حاصل

اس نے کرنی ہی بے وفائی ہے

نہیں ساتھی کوئی شگفتہ کا

اک فقط تجھ سے آشنائی ہے

٭٭٭

 لگن زندگی کی جگانی پڑے گی

 چاہ کر بھی نہیں بھلا پائی
میرا بچپن بحال ہے مجھ میں

چاہ کر بھی نہیں بھلا پائی
میرا بچپن بحال ہے مجھ میں

لگن زندگی کی جگانی پڑے گی

خوشی سب کی خاطر منانی پڑے گی

گھرانے کی عزت بچانی پڑے گی

ہنسی تو لبوں پر سجانی پڑے گی

ابھی مل گئے ہم کبھی یہ بھی ہوگا

کہ رسم جدائی نبھانی پڑے گی

تجھے کھو کے جینا بھی کیا زندگی ہے

مگر زندگی یوں بتانی پڑے گی

تیرا شیوہ چلتی ہواو ¿ں سے لڑنا

ہر اک بات تجھ سے چھپانی پڑے گی

تیرے تیکھے تیور بتاتے ہیں مجھ کو

کہ ہستی تو اپنی مٹانی پڑے گی

٭٭٭

 بے وفا تم کو بھلانے میں تکلف کیسا

 

 بے وفا تم کو بھلانے میں تکلف کیسا

آئنہ سچ کا دکھانے میں تکلف کیسا

تیرگی گھر کی مٹانے میں تکلف کیسا

دیپ چھوٹا سا جلانے میں تکلف کیسا

پیار کا گیت سنانے میں تکلف کیسا

ہاں پسند اپنی بتانے میں تکلف کیسا

وہ اداسی کے سمندر میں اکیلا ہے بہت

حوصلہ دینے دلانے میں تکلف کیسا

اپنے گلشن کو میں شاداب رکھا کرتی ہوں

گھر کا کچرا بھی اٹھانے میں تکلف کیسا

مجھ کو اکثر وہ یہی بات کہا کرتا ہے

ہم سے ہی ملنے ملانے میں تکلف کیسا

جو شگفتہ کو زمانہ یہ ستاتا ہے بہت

آنکھ سے اشک بہانے میں تکلف کیسا

٭٭٭

Facebook Comments

POST A COMMENT.